کیسے صحافی اور صحافت کا کون سا انداز ؟۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ویسے محاورے تو سارے ہی عوامی اجتماعی تجربے اور عقل کا نچوڑ ہوتے ہیں لیکن “بندر کے ہاتھ میں استرا آ جانا” کوئی یونہی سا محاورہ نہیں ہے۔ اس کا اظہار اب وہ لوگ کرنے لگے ہیں، جن کا بنیادی کام یا تو معاملے کی “تصویر کشی” کرنا یعنی رپورٹ کرنا ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ تبصرہ کرنا، جس میں کوئی بھی ان کو اپنے نکتہ نظر سے سرمو انحراف کرنے کو نہیں کہتا۔ مگر جب سے پاکستان میں نجی الیکٹرونک میڈیا عام ہوا ہے، مبینہ الیکٹرانک صحافیوں نے رپورٹر یا مبصر کی بجائے محتسب، ناصح اور ناقد کا کردار نبھانا شروع کر دیا ہے۔
ایک وقت تھا جب ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے ساتھ مصروف گفتگو ہر شخص کی بات پر ایک لمبا ‘نہییییں” کرکے ان کے منہ میں اپنا سیاسی نکتہ نظر ٹھونسنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ خیر یہ کوئی اس قدر قابل اعتراض بات نہیں تھی چونکہ پروپیگنڈہ میں ایسا کیا جاتا ہے اور کسی چینل کی یا کسی “ڈسکلیمر والے پروگرام” کی اپنی پالیسی ہو سکتی ہے اگرچہ یہ رویہ صحافت میں مستحسن خیال نہیں کیا جاتا۔ اس کے بعد کوئی ایک صاحبہ تھیں جنہوں نے پارکوں اور عوامی مقامات پر جا کر لوگوں کے ذاتی معاملات میں نہ صرف مخالفت کرنا شروع کر دی تھی بلکہ وہ تو محبت کرنے والے جوڑوں کو باقاعدہ کوسنے دیتی تھیں اور ڈرایا کرتی تھیں۔ مبشر لقمان نے صحافت کی گھٹیا ترین صنف کو متعارف کروایا ہے جس میں لوگوں کو مذہبی اشتعال دلائے جانے کی باقاعدہ کوشش کی جاتی ہے۔
معاشرے میں برائیاں ہوتی ہیں۔ برائیوں کو بے نقاب بھی کیا جانا چاہیے۔ چند روز پیشتر مانسہرہ کے ایک مدرسے کے استاد قاری نصیر اور اس کے دو ساتھیوں نے بہت شرمناک حرکت کی جب ایک سہیلی کی اعانت سے دوسری سہیلی کی آبرو لوٹ لی۔ اینکر پرسن علی ممتاز نے چینل سماء کے لیے پروگرام کیا۔ پروگرام کے تمہیدیے کے فورا” بعد انہوں نے کہا کہ “اب ہم زیر حراست افراد سے گفتگو کریں گے”۔ یہ گفتگو انٹرویو تھا ہی نہیں بلکہ “مونولاگ” تھا جس میں اینکر موصوف ملزم قاری نصیر کو مسلسل “بغیرت” کہہ رہے تھے، سرعام پھانسی دیے جانے کی دھمکی دے رہے تھے، ملزم قاری نصیر سمیت باقی دو ملزموں کو بھی بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ اگر یہی کچھ تمہاری بہنوں کے ساتھ ہوتا تو کیا تم خاموش رہتے، جبکہ ان سب کی بہنیں بے قصور ہیں۔ ایک ملزم جو اس قبیہہ عمل میں براہ راست ملوث نہیں تھا بلکہ کار ڈرائیو کرتا رہا تھا، اس نے جب بتایا کہ میں نے انہیں ایسا کرنے سے روکا تھا تو رپورٹر/اینکر موصوف نے دوسرے سے پوچھا تھا۔ اس نے کہا “ہاں جی اس نے ایک بار کہا تھا کہ پلیز اسے چھوڑ دیں” تو کار چلانے والے پہ برس پڑے کہ اگر اس لڑکی کی جگہ تمہاری بہن ہوتی اور اس کی عزت لوٹی جا رہی ہوتی تو کیا تم اسی لہجے میں بس اتنا ہی کہتے؟
یہ سارا معاملہ نہ صرف انتہائی قابل مذمت ہے بلکہ قابل تعزیر بھی تاہم جب تک کچھ ثابت نہ ہو جائے ملزم کو مجرم نہیں گردانا جا سکتا۔ موقّف اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ملزم تو اعتراف کر رہا ہے تو وہ مجرم ہے۔ ملزم مجرم تب ہی بنتا ہے جب عدالت کے سامنے اعتراف کرے اور عدالت اس کے اعتراف کو ثبوتوں کے باعث تسلیم کرکے اسے باقاعدہ مجرم قرار دے کر اس پہ فرد جرم عائد کر دے۔ مہذب ملکوں میں صحافی، عدالت اور عدالت میں پیش کیے جانے والے ملزموں اور پیش ہونے والے وکلاء کی تصاویر نہیں اتار سکتے۔ اس کام کے لیے مصور ملازم ہوتے ہیں جو اخبارات کے لیے ان کے نقش کھینچتے ہیں۔
صحافت کا جو انداز آج ہمارے ہاں کے الیکٹرانک میڈیا پہ کام کرنے والے بذعم خود صحافیوں نے اپنایا ہوا ہے وہ کسی طرح بھی صحافیانہ انداز نہیں ہے۔ سکرینوں پہ مقدمات چلانا، دلائل دینا، سزائیں تجویز کرنا بلکہ سزائیں دیے جانے کا اعلان کر دینا بھلا کون سے دیس کی صحافت کہلاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ دیس پاکستان کی ہی ہوگی۔
صحافت صرف پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک باقاعدہ علم اور سائنس ہے جس کے اصول اورپابندیاں طے ہیں۔ صحافت کا اولیں اصول انسانیت اور انسانیت کا پاس رکھنا ہوتا ہے۔ صحافت کا دوسرا بڑا اصول ہر معاملے کی تصویر کشی یعنی رپورٹنگ میں غیر جانب داری برتنا ہے۔ صحافت کا تیسرا اصول کسی بھی معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے لازمی طور پر بیشتر کی رائے کا ذکر کرنا ہوتا ہے۔ صحافت کا چوتھا اصول تعزیری پہلو عدالت کے لیے چھوڑتے ہوئے، کسی بھی برائی چاہے وہ سیاسی ہو ، معاشرتی ہو، معاشی ہو یا اقتصادی، کے اسباب کو مدنظر رکھا جانا اور اگر موقع و محل ہو تو ان کو آشکار کرنا ہوتا ہے۔ پانچواں اور اہم ترین اصول یہ ہوتا ہے کہ اگر صحافی کے پاس وقت اور موقع ہو تو باقی اصولوں کی پابندی کرنے کے ساتھ کسی بھی برائی کی بیخ کنی کے لیے مناسب طریقوں اور اقدامات کا ذکر کرے اور بس۔
اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ رپورٹر تو رپورٹر اینکر پرسن سبحان اللہ۔ وہ دوسروں کی مٹی پلید کرنے اور خود کو فرشتہ ثابت کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ نہ کوئی فرشتہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی شیطان۔ سب ہی انسان ہیں اور انسان غلطیوں سے پاک نہیں ہوا کرتے۔ کوئی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرتے ہیں، کوئی بڑی اور کوئی بہت بڑی۔ ان سب غلطیوں پر انگلی اٹھانے کے لیے معاشرہ ہوا کرتا ہے اور سزا دلوانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سزا دینے کے لیے عدالتیں چنانچہ صحافیوں کو سارے ہی کام اپنے ہاتھ میں نہیں لے لینے چاہییں۔ وسعت اللہ خان نے کیا خوب کہا ہے کہ میڈیا وہ متعفن گندا نالہ بن چکا ہے جس کو اتنا صاف کیے جانے کی ضرورت ہے کہ پانی شفاف ہو جائے اور پھر طے کیا جائے کہ اس نالے میں کیسی اور کون سی مچھلیاں چھوڑنی چاہییں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply