آئن سٹائن اور ایٹم (62)۔۔وہاراامبار

آئن سٹائن کے کام کا فزکس کے کلچر پر بہت اثر ہوا۔ اس نے مفکرین کی نئی پود کے لئے یہ آسان کر دیا کہ وہ پرانے خیالات کو چیلنج کر سکیں۔ مثال کے طور پر، آئن سٹائن کی ہائی سکول کے طلبا کے لئے لکھی ہوئی کتاب تھی جس کی وجہ سے ورنر ہائزنبرگ کو فزکس کی طرف آنے کا شوق ہوا تھا۔ اور آئن سٹائن کی ریلیٹیویٹی کی طرف اپروچ تھے جس نے نیلز بوہر کو ہمت دلائی تھی کہ وہ یہ تصور کرنے کی جرات کر سکیں کہ ایٹم جن قوانین پر کاربند ہے، وہ ہماری روزمرہ کی دنیا سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بڑے سائنسدان آئن سٹائن کی تھیوری کو سمجھ گئے تھے، ان میں سے اس تھیوری سے سب سے کم متاثر ہونے والے خود آئن سٹائن تھے۔ اور ان کی اپنی نظر میں، وہ نیوٹونین ورلڈویو کو الٹا نہیں رہے تھے، اس کی تھوڑی سی تصصیح کر رہے تھے۔ ایسی تصصیح جس کا روزمرہ کے تجربات پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن اس لئے اہم تھیں کہ یہ تھیوری کے منطقی سٹرکچر کے ایک خلا کو پر کرتی تھیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان سے نیوٹن کے تھیوری نکالنا ریاضیاتی لحاظ سے زیادہ مشکل نہیں تھا۔ آئن سٹائن کے لئے ان کے 1905 کے تین بڑے پیپرز میں سے سب سے کم اہم سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی تھی۔ زیادہ اہم دو دوسرے پیپر تھے جو ایٹم اور کوانٹم پر تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئن سٹائن کا ایٹم پر پیپر ایک مظہر کا تجزیہ کرتا تھا جو براونین موشن تھا۔ یہ 1827 میں رابرٹ براون نے دریافت کیا تھا۔ یہ پانی میں معلق چھوٹے سے ذرات، جیسا کہ پولن کی دھول، کی پرسرار لگنے والی رینڈم حرکات تھیں۔ آئن سٹائن نے ان کی وضاحت خوردبینی سے بھی چھوٹے مالیکیولز کی اس معلق ذرے پر ہونے والی بمباری سے کی جو اس سے ہر طرف سے اور بہت زیادہ تعداد میں ٹکرا رہے ہیں۔ اگرچہ انفرادی ٹکر بہت معمولی سی ہوتی ہے اور اس قابل نہیں ہوتی کہ ذرے کو ہلا سکے لیکن آئن سٹائن نے شماریات کی مدد سے دکھایا کہ اس حرکت کے magnitude اور فریکوئنسی کی وضاحت کی جا سکتی ہے اگر اتفاق سے بیک وقت ایک طرف لگنے والے مالیکیول کی تعداد مخالف سمت سے ٹکرانے والوں سے بہت زیادہ ہو۔ اور یہ اتنی قوت رکھ سکتے ہیں کہ اس ذرے کو ہلا دیں۔

یہ پیپر فوری طور پر جوش و خروش کا باعث بنا۔ یہاں تک کہ ایٹم کے انکار میں پیش پیش فریڈرک اوسٹوالڈ نے اس کو پڑھ کر تبصرہ کیا کہ وہ قائل ہو چکے ہیں کہ ایٹم اصل ہیں۔ جب کہ ایٹم کے کیمپ کے بڑے وکیل بولٹزمین تک یہ خبر اور اس پر ہونے والا ردِ عمل نہیں پہنچا۔ بولٹزمین اپنے خیالات کے مسترد کئے جانے کے رویے سے دلبرداشتہ تھے۔ انہوں نے 1906 میں خودکشی کر لی جو افسوسناک تھا کیونکہ آئن سٹائن کے اس پیپر اور اس کے بعد 1906 میں لکھے گئے پیپر نے فزکس کے سائنسدانوں کو کو بالآخر نہ دیکھی جانے والی اور نہ محسوس کی جانے والی اس دنیا کو حقیقت ماننے پر قائل کر لیا تھا۔ اور یہ وہ آئیڈیا تھا جس کی وکالت بولٹزمین چالیس سال سے کر رہے تھے۔

اس سے اگلی تین دہائیوں میں سائنسدان نئی مساواتوں کی مدد سے ایٹم کی وضاحت اور کیمسٹری کے بنیادی اصولوں تک پہنچنے کے قابل ہو گئے، جس نے ڈالٹن اور مینڈالیو کے کام کی وضاحت فراہم کر دی۔ نیوٹن کا خواب، کہ میٹیریل کی خاصیت کو اس کے بنیادی ذرات (ایٹموں) کے درمیان فورسز سے سمجھا جا سکے گا، پورا ہو رہا تھا۔ اس کے بعد آنے والے سائنسدان اس تصور کو اس سے بھی آگے لے گئے اور ایٹم بائیولوجی کی گہری سمجھ کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ایٹم کی تھیوری ٹیکنالوجی ریولیوشن لے کر آئی، پھر کمپیوٹر اور پھر انفارمیشن ریولیوشن۔

زرِگل کے پانی میں معلق ہونے کے وقت کی حرکات کے گہرے تجزیے نے وہ ٹول فراہم کیا جس نے جدید دنیا کو شکل دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ قوانین جو ان عملی کاوشوں کی بنیاد بنے، وہ مساوات تھیں جو ایٹم کی خاصیتوں کی وضاحت کرتی تھیں۔ نہ ہی یہ نیوٹن کی کلاسیکل فزکس سے آئیں اور نہ ہی ان کی ترمیم شدہ ریلیٹیوٹی کی صورت سے۔ ایٹم کی وضاحت کے لئے فطرت کی وضاحت کے نئے قوانین درکار تھے ۔۔۔ کوانٹم قوانین ۔۔۔ اور آئن سٹائن کا 1905 کا تیسرا انقلابی پیپر اس کوانٹم آئیڈیا پر تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply