• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پروفیسر بھیم سنگھ: ناکام سیاستدان ، کامیاب قانون دان(حصّہ اوّل)۔۔افتخار گیلانی

پروفیسر بھیم سنگھ: ناکام سیاستدان ، کامیاب قانون دان(حصّہ اوّل)۔۔افتخار گیلانی

شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور میں 70اور 80کی دہائی میں زمانہ اسکول کے دوران شیخ محمد عبداللہ کی مضبو ط شخصیت اور حکومت کے خلاف دو توانا آوازوں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کو تو جلسے ، جلوسوں میں دیکھنے کا موقع ملتا تھا، مگر اپوزیشن کی دیگر شخصیات پروفیسر بھیم سنگھ،عبد ا لرشید کابلی، جنک راج گپتا، دھن راج برگوترا اور گردھاری لال ڈوگرہ جیسے افراد کے ناموں سے خبروں اور ریڈیو سے اسمبلی کی کاروائی کی روداد سننے سے کان آشنا ہو گئے تھے۔ ان میں سے بھیم سنگھ سے بعد میں دہلی میں با المشافہ ملاقات اور تعلقات کا ایک سلسلہ قائم ہوگیا۔ ریاست جموں و کشمیر کی یہ توانا آواز ، 31مئی کو جموں میں 81برس کی عمر میں خاموش ہوگئی۔ ایک منفرد شخصیت کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ ایک دانشور، مصنف، وکیل، سیاسی کارکن، ہمہ وقت احتجاج کرنے والا ، غرض بہت سی چیزیں سمیٹے ہوئے تھے۔ 90کی دہائی میں جب میں اعلیٰ تعلیم کیلئے نئی دہلی وارد ہوا، تو ان کو فلسطین اور عرب دنیا کے حقوق کیلئے آئے دن دھرنا دیتے ہوئے اور مغربی دنیا کی سامراجیت کے خلاف برسرپیکار پایا۔ گو کہ ایک کٹر ڈوگرہ قوم پرست ہونے کے ناطے اور 19 ویں صدی کے مشہور ڈوگرہ سپہ سالار جنرل زور آور سنگھ کے خاندان سے نسبت کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں سے انکا خاصا مباحثہ ہوتا تھا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ دیگر ڈوگرہ قوم پرستوں کی طرح فرقہ پرست نہیں تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے ان کا مسلم دانشوروں سے قریبی تعلق تھا اور اس یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے سرگرم رکن بھی تھے۔ وہ آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے فرزند ڈاکٹر کرن سنگھ اور آزاد کشمیر کے سابق صدر و وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان کو اپنا سیاسی گرو مانتے تھے۔ دہلی کی بد نامہ زمانہ تہاڑجیل میں ایام اسیری گذارنے کے دوران میں نے دیکھا تھاکہ پاکستانی قیدیوں کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہوتی تھی۔ ان میں سے اکثر ویزا کی معیاد سے زیادہ بھارت میں رہنے، نادانستہ بارڈر کراسنگ کرنے کے بعد اپنی سزا کی معیاد مکمل ہونے کے باوجود قید و بند کی زندگی گذاررہے تھے۔ ایک تو ان کی ملاقات نہیں آتی تھی، دوسرا کوئی وکیل ان کا کیس ہاتھ میں لینے کا روادار نہیں تھا۔ ایک بار جب ملک بھر کے جیلوں میں بند پاکستانی قیدیوں کو سفارتی کونسلنگ کے لئے دہلی کے تہاڑ جیل میں کھدیڑ کر لایا گیا تو ان میں ایک ذہنی طور پر معذور 45 سالہ قیدی بہاء الدین بھی تھا ، جس کو ہمارے ہی وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ وہ بیچارہ اس وہم و گمان میں تھا کہ وہ پاکستان کی کسی جیل میں بند ہے۔ بارڈرسیکورٹی فورسزکے اہلکاروں نے اسے راجستھان میں غلطی سے سرحد پار کرکے بھارتی علاقے میں داخل ہوجانے کے بعد گرفتار کرلیا تھا۔کھیتوں میں مزدوری کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے والا بہاء الدین یہی سمجھتا رہا تھا کہ اسے پاکستانی فوج نے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے تھک ہار کر اسے یہ سمجھانے کی کوشش ترک کردی ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت کی جیل میں ہے۔بہاء الدین بار بار صرف یہی رٹ لگاتا رہتا تھا کہ وہ کھیت میں کام کرنے کے بعد جب گھر لوٹ رہا تھا تو پاکستانی آرمی نے دشمنی نکالنے کے لئے اسے پکڑ کر قید کردیا۔اس کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ فوجیوں کو دیکھا اور ان سے پینے کے لئے پانی کی درخواست کی لیکن پانی کے بجائے اسے جیل کی کال کوٹھری مل گئی۔بہاء الدین اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھا کہ یہ فوجی بھارتی بارڈر سیکورٹی کے اہلکار تھے ۔ اسے صرف اور صرف اپنے گائوں کے مکھیا فتح سلیمان خیل اور اپنے ایک پڑوسی فیض محمد کا نام یاد رہ گیا تھا۔ کئی حقوق انسانی کے علمبرداروں اور بھارت پاکستان امن کے داعیوں کے دروازوں پر دستک دینے کے بعد باوجود جب کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی اور ادراک ہوا کہ ان افراد کا ایکٹویزم چاہے امن کی آشا یا کوئی اور نعرہ ہو، بس اخباری بیانات اور فوٹو کی اشاعت تک ہی محدود رہتا ہے ، تو ایک دن دہلی کی آئی این آیس بلڈنگ میں اپنے دفتر کے مقابل وٹھل بائی پٹیل ہائوس میں پروفیسر بھیم سنگھ کے دفتر پہنچا۔گراونڈ فلور پر ان کے دفتر کے باہر اسٹیٹ لیگل ایڈ کمیٹی ،جموں و کشمیر کا بورڈ بھی آویزاں ہوتا تھا۔ پروفیسر صاحب نے فوراً ہی اپنے دست راست کٹھوعہ کے وکیل بی ایس بلوریا کو طلب کیا اور ان کو بتایا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر تفصیلات اکھٹی کرکے جلد ہی ایک پیٹیشن تیار کرلیں۔ چند ماہ کی عرق ریزی کے بعد ایک ہزار قیدیوں کی تفصیلات اکھٹی ہوگئی، جو سزا مکمل ہونے کے باوجود جیلوں میں تھے۔ خیر پروفیسرصاحب اور بلوریا نے 2005میں رٹ پیٹیشن نمبر 310سپریم کورٹ میں فائل کی۔ عدالت نے اسکو سماعت کیلئے منظور کرنے کے بعد اگلے کئی برسوں تک حکومت کو کئی احکامات صادر کئے، جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس کی وجہ سے 800قیدیوں کو اگلے ایک سال تک رہائی نصیب ہوئی۔ اس تگ و دو کی وجہ سے 2007میں دونوں ممالک نے ججوں کی ایک مشترکہ کمیٹی بھی تشکیل دی، جس نے 2011تک کراچی، لاہور، راولپنڈی، امرتسر، جے پور، جودھ پور اور دہلی کی تہاڑ جیل کا دورہ کرکے قیدیوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے سفارشات پیش کی۔ 2014میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد دیگر میکانزم کی طرح یہ کمیٹی بھی غیر فعال ہو چکی ہے۔ مگر بھیم سنگھ اور انکی ٹیم نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کی شنوائی برقرار رکھی۔ 2018میں حکومت نے عدالت کو بتایا کہ 250قیدی میں سے 59 ایسے ہیں، جن کی شہریت کی تصدیق نہیں ہو پارہی ہے۔ ان میں 35ایسے ہیں ، جو دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ ۔ ان میں سے کئی تو گو نگے اور بہرے ہیں ۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ یہ اپنا نام تک بتانے کی حالت میں نہیں ہیں۔پولیس نے بھی چارج شیٹ اور دیگر کاغذات میں انکا نام گونگا ولدیت نامعلوم درج کی ہے۔ لاہور کے باٹا پور کا رہنے والا 32سالہ محمد اعجاز 1999 سے تہاڑ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا۔وہ ہریانہ اور دہلی میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے ایک باضابطہ اور قانونی پاکستانی پاسپورٹ پر بھارت آیا تھا۔4 اکتوبر 1999 کو دہلی میں اس کے ایک پڑوسی اسلم نے محبت کی نشانی تاج محل دکھانے کے لئے آگرہ چلنے کی پیش کش کی۔اسلم نے اعجاز کی سفری دستاویزات لے لیں اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ حکام سے آگرہ جانے کی اجازت لے لے گا۔لیکن اسلم دستاویزات لے کر جانے کے بعد دوبارہ پلٹ کر نہیں آیا اور پولیس نے اعجاز کو گرفتار کرلیا۔اعجاز عدالت سے بار بار یہ درخواست کر رہا تھا کہ کم از کم سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعہ اس کے دہلی آنے کے ریکارڈ پر ایک نگاہ تو ڈال لیں لیکن عدالت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی، تاآنکہ بھیم سنگھ اور بی ایس بلوریا نے اس کیس کی پیروی کی۔ قیدیوں میں پانچ بچے زبیر (5سال)‘ سہیل(9 سال ) بھی تھے، جو اپنی ماں سلمہ بیگم کے ساتھ جیل میں بند تھے۔ اسی طرح 5سالہ آمنہ ‘ 8 سالہ سہیل اور 10سالہ عائشہ بھی اپنی والدہ ممتاز کے ساتھ قید و بند کی زندگی گذارنے کے لئے مجبور تھے۔کراچی کی رہنے والی روبی کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں اس کے تین بچے لاپتہ ہوگئے تھے۔ (جاری ہے)بشکریہ 92نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply