اتنے ظالم نہ بنو۔۔چوہدری عامر عباس

ایک ہی ہفتے میں پٹرول کی قیمت میں 60 روپے فی لیٹر اضافہ کرکے اب غریب عوام کو ایک نیا لولی پاپ دینے کی تیاری ہو رہی ہے گویا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اب کوئی وزیر یا رکن پارلیمنٹ پٹرول نہیں لے گا یا انکی مراعات پر کٹ لگا دیا جائے گا۔ اچھی بات ہے اگر ایسا ہو جائے ایک غریب ملک اتنے اللے تللے برداشت نہیں کر سکتا۔

کفایت شعاری اپنانی چاہیے کہ ملکی خزانے پر بوجھ کم سے کم پڑے اور وہی پیسہ ملک کے ڈیویلپمبنٹ فنڈ میں استعمال کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پٹرولیم قیمتوں کو اگر دیکھا جائے تو اس کفایت شعاری سے غریب آدمی کو پٹرول کی قیمت پر فوری طور پر کیا ریلیف ملے گا؟ عوام کو تو پٹرول 210 روپے لیٹر ہی ملے گا۔ غریب عوام کی جیب سے تو 210 روپے فی لیٹر کے حساب سے ہی پیسے نکالے جائیں گے۔

ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں کو کم کرکے واپس دس اپریل والی پوزیشن پر بحال کیا جائے۔ پٹرولیم قیمتوں کے معاملے میں ممبران اسمبلی کے فیول کوٹے میں کٹ لگا کر کفایت شعاری کا یہ والا منجن ہمیں نہیں چاہیئے نہ  ہی یہ ہمارے روزمرہ مسائل کا حل ہے ہمیں تو پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں 10 اپریل والی پوزیشن پر واپس چاہیں بلکہ بھارت اور سری لنکا کی طرح روس سے سستا تیل لیکر پٹرول کی قیمت میں مزید کمی کی جائے تاکہ غریب آدمی کو فوری طور پر کچھ ریلیف میسر آئے۔

میاں شہباز شریف کو میں ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر مانتا تھا اس پر میں لکھ بھی چکا ہوں لیکن انھوں نے مجھے بہت برے طریقے سے غلط ثابت کیا ہے۔

مفتاح اسماعیل نے ایک مضحکہ خیز بیان دیا ہے کہ پٹرول تو امیر لوگ استعمال کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ صاحب کو کوئی کامن سینس کی بات سمجھائے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہوتا ہے۔

عمران خان نے ساڑھے تین سال میں پٹرول کی قیمتوں میں کُل ملا کر فی لیٹر 40 روپے کا اضافہ کیا تو مہنگائی کا ایک طوفان آ گیا اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں جسکی وجہ سے گزشتہ حکومت پر بےتحاشا تنقید بھی ہوئی۔ لیکن موجودہ حکومت نے ایک ہی ہفتے میں بیس، تیس، چالیس، پچاس نہیں بلکہ پورے 60 روپے فی لیٹر قیمت بڑھا دی جس سے ہوشربا مہنگائی کا طوفان آنے کو ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ سارے معاہدے عمران خان کر کے گیا ہے۔ اگر بالفرض یہ تمام معاہدے عمران خان ہی کر کے گیا ہے تو اسے حکومت میں رہنے دیتے کہ اپنے گناہ وہ خود بھگت لیتا۔ انھوں نے عمران خان کو فارغ کرکے جانتے بوجھتے بھی یہ پھندا اپنے گلے میں کیوں ڈالا ہے؟ لہٰذا برائے مہربانی مفتاح کو کہا جائے کہ وہ ایسے بیانات دے کر ناں تو اپنی جگ ہنسائی کروائے اور نہ ہی ہم غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرے۔ باقی پھر سہی۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply