افلاس دور کرنے کے لئے ایک اور قرضہ ۔۔ قادر خان یوسف زئی

دنیا میں بعض حوادث آفاقی ہوتے ہیں، جن پر انسان کو کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، یا یوں کہیے کہ انسان ان پر آہستہ آہستہ قابو پا رہا ہے، مثلاً زلزلے، سیلاب، آندھیاں، جھکڑ، وبائی امراض یا  کسی   قوم کی ہمسائیگی وغیرہ، لیکن بعض مصیبتیں انسان کی خود پیدا کردہ ہوتی ہیں جن کا بادی النظر کوئی علاج ہی نہیں، مثلاً  کسی شخص نے کمرے میں اندر سے کنڈی لگا رکھی ہو اور رونا ہو کہ میں باہر کیسے نکلوں۔ نظم و نسق ِ مملکت اور حالیہ بحرانوں کے سلسلے  میں ہم بھی ایک ایسی ہی  قسم کی مصیبت میں مبتلا اور روئے جا رہے ہیں۔ ماضی سے تاحال برپا ہنگاموں پر نظر ڈالیں تو یہی نظر آتا ہے کہ ہم نے زیادہ تر وقت اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے یا اپنے پیر چادر سے زیادہ پھیلانے پر صَرف کیا۔ ہماری قوم نے شوشوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی  ہے ا ور درحقیقت ایک ایسی چنگاری جسے وہ جمالو، ہمارے بھُس میں ڈال کر خود دور جا کھڑی ہوئی تھی، ہم نے اس چنگاری کو اس قدر مقدس سمجھا کہ اسے ایک ثانیہ کے لئے بھی بجھنے نہ دیا۔ نہ صرف اُسے بجھنے نہ دیا بلکہ اُسے دن بدن ہوا دیتے چلے گئے تآنکہ اس نے شعلہ جوالہ بن کر، سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ہم ان شعلوں پر توپانی چھڑک رہے ہیں لیکن آتش کدے  کی  ان لکڑیوں کی  اپنی جان دے کر بھی حفاظت کررہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نفسا نفسی اور خود غرضی کا یہ عالم ہوچکا ہے  کہ قوم مٹتی ہے تو مٹے، لیکن ہم باقی رہیں،مملکت جاتی ہے تو جائے لیکن ہم قائم رہیں، اور یہ کہتے وقت اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جب قوم مٹ گئی تو تم کہاں باقی رہو گے، جب مملکت ہی نہ رہے گی تو تمہار وجود بھی کیسے قائم رہ سکتا ہے، نشہ  اقتدار کا ہو یا اَنا پرستی کا، اس تصور سے اس قدر مدہوش ہو رہے ہیں کہ اتنی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ ’موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘۔ دوسری طرف دانشو ران ِ ملت بھی مغرب کی ذہنی غلامی میں اس شدت سے گرفتار ہیں کہ وہ ان کے سیاسی تصورات سے ذرا سا بھی ہٹ کر سوچنا جرم ِ سمجھتے ہیں، یہ بھی انہی  کی   اتباع  میں ڈیموکریسی، پارلیمانی اور پریزیڈنشل فارم، فیڈریشن اور کانفیڈریشن کے چکر میں الجھے رہتے ہیں اور اتنا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ان سے ہٹ کر کوئی اور نظام بھی وضع کیا جاسکتا ہے جو ہمارے مخصوص تقاضوں کو پورا کرے۔ جس طرح ہم نے اپنا سیاسی نظام انگریز سے ورثہ میں لیا، اسی طرح معاشی نظام بھی ہمیں اسی کے ترکے  سے ملا، اور جس طرح ہم اس نظام کے ہاتھوں مصائب میں مبتلا ہیں، اسی طرح اس معاشی نظام کے صدقے بھی عذاب میں گرفتار ہیں اور تماشہ یہ کہ جس طرح ہم اپنی ان مشکلات کا حل، جو ہمارے اس سیاسی نظام کی پیدا کردہ ہیں، اُسی سیاسی نظام میں تلاش کرتے ہیں، اُسی طرح ان مصائب سے رُستگاری جو اس معاشی نظام کا نتیجہ ہیں، اُسی معاشی نظام کی رو سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب کا معاشی نظام، جسے نظام سرمایہ داری کہہ کر پکارا جاتا ہے، خون آشامی کا دوسرا نام ہے، اقوام مغرب نے اس ہوس ِ خون آشامی کی تسکین کے لئے، کمزور قوموں کو تلاش کیا، ان ممالک میں بلواسطہ یا بلاواسطہ اپنی حکومت قائم کی، یا اپنی تجارتی منڈیا ں جمائیں۔ مقصد دونوں کا ایک ہی تھا، یعنی ان اقوام کے خون سے اپنی قوم کے چہرے کی سرخی کا سامان فراہم کرنا۔
جب بھی یہ قوتیں ان ممالک سے جانے لگیں تو اپنے سیاسی نظام کے ساتھ، معاشی نظام بھی انہی ورثہ میں دے گئے، اس کے ساتھ ہی انہیں تعیش اور تن آسانی کی زندگی بسر کرنے کے خوگر بنا گئے، تن آسانیوں کا سارا سامان انہیں ممالک سے آتا تھا جو انہیں ”آزاد“ کرکے گئے تھے، لہذا یہ ممالک بدستور ان کی مصنوعات کی منڈیاں بنے رہے، یہ سامان خریدنے کے لئے ان کے پاس سرمایہ نہ رہا تو انہوں نے کہا کہ اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے، ہم تمہیں قرضہ دیتے ہیں اس سے ہماری مصنوعات خرید لیا کرو، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم ان ممالک کے کھربوں ڈالر کے مقروض اور ان پر کروڑوں ڈالر سالانہ سود ادا کرتے ہیں، اب تو یہ حالت ہوگئی کہ سود کی ادائیگی کے لئے بھی قرض لینا پڑتا ہے لیکن وہ ممالک ہمارے معاشی استحصال ہی سے مطمئن نہیں، وہ ہمیں اپنا سیاسی غلام بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ قرضہ دینے کے لئے ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جن سے ہماری آزادی سلب ہوکر رہ جائے۔ یہ ہے وہ مقام جس پر اغیار نے ہمارے اپنوں کے ساتھ مل کر لاکھڑا کیا ہے۔
آج ناقابل برداشت قرضوں کی گرانباری، سامان ِ زیست اور اسباب تحفظ کے لئے ان کی محتاجی، اور ان کی طرف سے مزید قرضہ کے لئے (جسے ابلہ فریبی کی خاطر ”امداد“ کہہ کر پکارا جاتا ہے) ایسی شرائط سے ہمیں اپنی عزت، غیرت، حمیت،شرافت، حتیٰ کہ آزادی تک ان کے پاس رہن رکھنی پڑرہی ہے۔ ہماری یہ حالت ہمارے دور غلامی سے بھی بدتر ہے، اُس زمانے میں ہماری آزادی دوسروں کے ہاتھ گروی تھی تو کم ازکم، قفس کے پرندے کی طرح ہمارے دانہ پانی اور حفاظت کی ذمہ داری تو صیاد کے سر عائد تھی لیکن ہماری یہ حالت اُن گوشوں میں ہے جن کا تعلق دوسری اقوام سے ہے۔ جہاں تک موجودہ نظام سرمایہ داری، جاگیر دارنہ، سرداری، مَلکوں، خوانین و وڈیروں کی ہوش خون آشامی کا تعلق ہے، اس کی تسکین کے لئے کوئی غیر قوم تو کیا اپنی عوام بھی قابو میں نہیں آئی، اس لئے ہم اپنی ہی قوم کا خون چوس کر اس کی تسکین کا سامان فراہم کرلیتے ہیں۔اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا بڑھا کر، عوام کے خون کا آخری قطرہ نچوڑا جارہا ہے،حکومت کا خزانہ خالی ہوجائیتو زیادہ ٹیکس عائد کردیئے جاتے ہیں اور ہر نیا ٹیکس یا قانون، رشوت ستانی کا نیا دروازہ بن کر رہ جاتا ہے۔ خرچ اور آمدن میں عدم توازن کے بعد اس کا علاج؟، کسی بیرونی ملک یا مالیاتی ادارے کے دروازے پر نئے قرضے کے لئے دستک اور نت نئے ٹیکسوں میں اضافہ، یعنی قرضوں اور ٹیکسوں سے افلاس بڑھا اور افلاس دور کرنے کے لئے ایک اور قرضہ اٹھالیا۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply