کیا ہم آزاد ہیں؟۔۔۔ راؤ شاہد محمود

پاکستان کو آزاد ہوئے 70سال ہو چکے ہیں لیکن اس ملک میں ہوے والا ظلم  نا انصافی اور بعض مقتدر حلقوں اور ان میں چھپے افراد کی طرف سے کروڑوں عوام کو محسوس اور غیر محسوس طریقے سے باور کرانا کہ جو ہم چاہتے ہیں وہی ہو گا اور ویسا ہو بھی جاتا ہے توآزادی کا احساس ماند سا پڑنے لگتا ہے۔ کافی دنوں سے اس بے حسی پر لکھنے کو دل چاہ رہا تھا ۔  شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں اپنی بہن کی طرف اُٹھنے والی گندی آنکھ کو روکنے والے معصوم شاہ زیب کا قتل ہو۔ یوسف رضا گیلانی کے کے بیٹے رضا گیلانی کی گاڑی کے قریب سے گزرنے کا جرم کرنے والے طاہر ملک کا قتل ہو یا شراب کے نشے میں دھت مصطفی کانجو کے ہاتھوں لاہورکیلوری کے علاقے میں معصوم زین کا قتل ہو۔ ان واقعات کو دیکھ کر دل پہلے خون کے آنسو روتا تھا اب کھولتا ہے- جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو یقین مانئے یقین ہوتا ہے کہ ظالم اور قاتل کو سزا نہیں ملے گی کیونکہ آج تک ملی بھی نہیں ہے۔ آج دل اس لیے بھی رنجیدہ ہے کہ صبح اُٹھتے ہی شاہ رخ جتوئی کے رہائی کی اُؐمید بھری خبریں تمام ٹی وہ چینلز پر چل رہی تھیں جس میں قاتل فتح کے نشان کے ساتھ اپنے بازو لہرا رہا تھا۔ تبھی میرے کانوں میں مصطفی کانجو کے ہاتھوں قتل ہونے والے زین کی ماں کے الفاظ گونجنے لگے کہ مجھے یقین ہے میرے بیٹے کا قاتل چھوٹ جائے گا۔ یہی یقین شاید شاہ زیب اور طاہر کی ماں کو بھی ہو گا۔ پہلے میں حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگ اتنے مایوس کیوں ہیں لیکن اب یہی یقین اور مایوسی مجھے بھی ہونے لگی ہے۔ : ریاست ہوگی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرےگی : اعتزاز احسن کی یہ نظم لگتا ہے خواب ہی رہے گی۔

آج قارئین کے سامنے لاہور میں پیش آنے والے دو واقعات کا ذکر کروں گا۔ ایک 14 اگست 2017 کو ذوہیب نامی نوجوان کے ساتھ پیش آیا اور دوسرا ایک سرکاری ملازم کے ساتھ شامی روڈ کینٹ میں پیش آیا۔ دونوں میں مماثلت ظلم ہے ایک پیسے دے کر بچ گیا دوسرا پیسے نہ دینے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پہلے بچ جانے والے کا واقعہ سنیے جو میرے بڑے بھائیوں کی طرح کے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا۔ گزشتہ جمعہ کی رات تقریبا پونے 12 بجے کا ٹائم تھا سرد موسم کی وجہ سے سڑک پر رش کم تھا کرولا گاڑی جسے وہ ڈرائیو کر رہے تھے اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھے فوٹرس سٹیڈیم کے آگے چیک پوسٹ پر اُنہوں نے گاڑی کی سپیڈ زیروکی- لکھی گئی ہدایات کے مطابق گاڑی کی لائٹیں بجھا دیں اور چیک پوسٹ کراس کی۔ آگے 100 یا 150 میٹردور ٹریفک سگنل کے قریب شہری نے دائیں جانب شامی روڈ پر مڑنے کیلئے گاڑی کا اشارہ آن کیااور گاڑی سینٹر لین سے فرسٹ لین میں جانے لگی۔ تبھی پیچھے سے شاید ای ٹیگ لین سے تیز رفتار بی ایم ڈبیلو جیپ اور اُس کے پروٹول کی گاڑیوں نے لائٹیں اور ہارن بجا کر شہری کو بتایا کہ واپس ہو جاؤ کیونکہ فرسٹ لیں سے پہلے گزرنے کا حق صرف اُن کے پاس ہے ۔ شہری نے غنیمت اسی میں جانی کہ واپس سینٹر لین میں چلا جائے اسی اثنا میں برق رفتار آنے والی بی ایم ڈبلیو کا فرنٹ بمپر شہری کی گاڑی کے بیک بمپر سے رگڑ کھا گیا۔ ناکردہ سنگین جرم کی پاداش میں 8 آٹومیٹک گنز شہری کی طرف مڑیں اور اُسے گاڑی سے نیچے اُتار لیا گیا۔ ایک گن میں گن پوائنٹ پر شہری کی گاڑی کے اندر بییٹھ گیا حکم ملا کہ صاحب کی گاڑی کے پیچھے چلو۔ فوٹرس سگنل سے دائیں شامی روڈ پر مڑنے کے بعد گاڑی ایک گھر میں داخل ہو گئی۔ شہری کو سیف ہاؤس نما دفتر میں گاڑی سے نیچے اُتار لیا گیا اور کہا گیا کہ آپ نے پیچھے سے آنے والی گاڑی کو ٹکر ماری ہے اور ہمارے بوس کی گاڑی کے بمپر پر رگڑ آگئی ہے لہذا آپ کو 25 ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔ گن مینز، بوس اور ایک اور بوس جو دہشت گرد دہشت گرد کا شور سُن کراندرسے باہر آچکے تھے انہوں کو شہری کو کہا کہ تمھاری تو قسمت اچھی ہے کہ تمھیں گولیاں نہیں مار دی گئیں کیونکہ جو حرکت تم نے کی ہے وہ دہشت گرد کرتے ہیں۔ ہم لوگ بہت اہم لوگ ہیں اور ہماری گاڑی کے قریب آنے والے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ کہا گیا یا تو ان کا نقصان پورا کردو ورنہ—- شہری جو چند لمحے قبل تک اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا اب بے بسی کے عالم میں اس کشمکش میں تھا کہ انہوں نے ایک تو اُس کی گاڑی کو پیچھے سے ٹکر ماری ہے دوسرا نقصان بھی اتنا بڑا نہیں ہوا ایک معمولی سے رگڑہے جو شاید کمپانڈ پالش سے ختم ہو سکتی ہے اس ناکردہ غلطی پر اُس کو دہشت گرد کہ کر گرفتار کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ اور گاڑی چلانے والے صاحب جو اپنے آپ کو بہت اہم شخصیت بتا رہے ہیں خود ہی جج بھی بن گئے ہیں اور دہشت گردی کا جرم دھلوانے کے بدلے 25ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا چکے ہیں۔ شہری نے آفیت اسی میں جانی کہ یہ طاقتور ترین لوگ جو رات کے اس پہر جدید آٹومیٹک گنز کے ساتھ لاہور کے حساس علاقے میں موجود ہیں ان سے جان چھڑانے کا طرقہ یہی ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اور ان کو 25ہزار روپے ادا کر دوں۔ ایک مڈل کلاس آدمی سرکاری ملازم اور آج کل کے حالات کہاں اُس کی جیب میں 25ہزار جیسی خطیر رقم ہونی تھی۔ طے پایا کہ گن مینز تمھارے ساتھ تمھارے گھر جائیں گے ان کو وہاں ادائیگی کر دینا اور سنو کوئی ہوشیاری کرنے کی کوشش نہ کرنا ۔ ایک گن میں شہری کی گاڑی میں اپنے لوڈڈ اسلحے کے ساتھ بیٹھ گیا اور 4 گن مینز دوسری گاڑی میں پیچھے ہیچھے چلنے لگے۔ شہری نے گھر پہنچ کر بچوں کے سکول فیس کیلئے اپنی بیوی کے پاس رکھوائے 15 ہزار روپے لیے اور 10ہزار اپنے ہمسائے سے ادھار لے کر گن مینز کے حوالے کیے اور اپنی جان بخشی کروائی۔

واقعہ سنتے ہوئے میں شہری کی آنکھوں کی بے بسی واضح طور پر دیکھ رہا تھا ۔ میں نے کہا آپ کو چاہیئے تھا آپ 15پر کال کرتے یا اپنے کسی دوست کو کال کر کے مدد کیلئے بلاتے توانہوں نے  بتایاکہ طاقت ور لوگ فون استعمال نہیں کرنے دے رہے تھے اور میں نے ایک دو دفعہ کے بعد اُن کا رویہ دیکھ کرزیادہ کوشش اس لیے بھی نہیں کی کہ کہیں میرا فون چھین نہ لیں۔آخر یہ طاقت ور لوگ کون ہیں اور یہ ظلم کب تک چلے گا 70 سال سے ہم یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ میری دُعا ہے کہ ظلم کرنے والے ان لوگوں کو اللہ ہدایت دے دے اور اگرخدانخواستہ یہ لوگ ملکی اداروں سے وابستہ ہیں تواللہ تعالی اُن اداروں کو اپنی حفاظت میں رکھے کیونکہ میرے ملک کی بقا اور سلامتی ہمارے قومی اداروں سے وابستہ ہے۔

دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ دن تھا 14 اگست کا مقام تھا کلمہ چوک کا فلائی اوور ۔ کچھ نوجوان اپنے ملک کی آزادی کی خوشی جوش اور نعروں سے منا رہے تھے کہ حفاظت پر معمور پولیس کے سپاہیوں کو نوجوانوں کا یہ انداز ایک آنکھ نہ بھایا اور اُن کو کلمہ چوک فلائی اوور پر روک لیا۔ روایتی انداز میں گاڑی کے کاغذات کا مطالبہ کیا گیا نوجوانوں کے پاس تمام کاغذات اور ڈرائیونگ لائیسنس موجود تھا۔ چائے پانی کا خرچہ مانگا گیا تو ذوہیب جوگاڑی چلا رہا تھا اُس نے پولیس سے تکرارکی کہ کس چیز کے پیسے دیں۔ شرم کرو آج ملک کی آزادی کے دن بھی کرپشن سے باذ نہیں آرہے ۔ یہ سننا تھا کہ یونیفارم اور اسلحہ کے نشے میں دھت پولیس والوں نے ذوہیب کے سر پر آہنی چیز دے ماری اور گنز کے دستوں سے تشدد کرنا شروع کر دیا۔ بقول ذوہیب کے دوست جو ذوہیب کو پولیس تشدد سے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے اُن کو پولیس نے قتل کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور ذوہیب کو مارتے رہے۔ اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ ذوہیب سر پر لگنے والی چوٹ سے مرچکا ہے تو انہوں نے قتل کو حادثہ کا رنگ دینے کیلئے ذوہیب کو مبینہ طور پرکوفلائی اوور سے نیچے پھینک دیا۔ اور خود موقعہ سے فرار ہو گئے۔ کچھ دیر بعد پولیس کی طرف سے ٹی وی پر موقف چلایا گیا کہ ایک نوجوان ون ویلنگ کرتے ہوئے کلمہ چوک فلائی اوور سے نیچے گرگیا ہے۔ اگر ذوہیب موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کررہا تھا تو اُس کی گاڑی تھانے میں کس طرح پہنچی اور پولیس کیوں ذوہیب کے بھائی اور والدین کو پریشرائز کرتی رہی کہ بغیر سپرداری کروائے آپ اپنی گاڑی تھانے سےلے جائیں ۔ میں ذوہیب کے دوست وقاص کا یہ جملہ شاید کبھی بھی نہ بھول سکوں کی آج کے بعد میں 14 اگست نہیں مناؤں گا کیونکہ ہم آزاد نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستان کی خوشی منانے والوں کوقتل کیا جاتا ہے اورلاہورمیں بھی یہی ہوا ہے۔ وقاص کے جذبات اپنی جگہ ٹھیک تھے شاید وہ اب کبھی بھی 14 اگست کی خوشی نہ منا سکے کیونکہ 14اگست کو اُس کے دوست کی برسی ہواکرے گی جسے اُس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ ذوہیب کے بھائی رمیز سے بات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ آج ساڑھے تین ماہ گزر جانے کے باوجود وہ انصاف کیلئے دھکے کھا رہے ہیں ۔ بقول رمیز (ذوہیب کا بھائی) انکوائری کرنے والا آفیسران کو اب تک 30 سے زائد چکرلگوا چکا ہے بار بار کرائم سین پر بلاتا ہے اور جب یہ لوگ وہاں پہنچ جاتے ہیں تو خود 2 یا 3گھنٹے بعد آتا ہے اور اُس کی غیر موجودگی میں قاتل موٹرسائیکل پر وہاں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ذوہیب کے دوست قاتلوں کی شکلوں سے واقف ہیں وہ انہیں پہچان لیتے ہیں کہ شاید یہ بھی دھمکی دینے کا ایک انداز ہے۔

کیا اس ملک میں کبھی کوئی انصاف لے پائے گا یا کبھی ظلم ختم ہوگا یا اپنے حقوق لینے کیلئے طاقت پیسہ اور یونیفارم جاب کا ہونا ضروری ہے۔ ہماری فورسز ہمارے سروں کی تاج ہیں اور یہ ملک کے اندر دہشت گردوں سے لڑتے اور سرحدوں پر دشمن سے لڑتے اور اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرتی ہیں لیکن بعض مقروہ چہرے اپنے گناہوں کو چھپانے کیلئے سہارا لیتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذکرنے والے ادارے بھی قانون کی گرفت سے دور نہ ہوں اور جب ان میں موجود کوئی ملازم جرم کر بیٹھے تو اُس کے پیٹی بھائی اس کو بچانا اپنی ڈیوٹی نہ سمجھیں۔ ان کی صفوں میں چھپے بھیڑیے ہماری سوچ کو ان کے خلاف باغی ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس پر کوئی واضح پالیسی و قانون سازی ہونی چاہئے اور چیفس کو نوٹس لینا چاہیے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد

Advertisements
julia rana solicitors london

 

raoshahidmahmood@gmail.com

 

 

 

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply