خوئے دل نوازی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

آج کا کالم معمول سے ہٹ کر متفرق موضوعات پر مشتمل ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے، دقیق علمی باتوں سے کنارہ کش ہو کر ہلکے پھلکے انداز میں باتیں کی جائیں۔ کالم کو کالم ہی رہنا چاہیے، کالم کا دامن شاید صوفیانہ اور فلسفیانہ موضوعات کے لیے کم پڑ جاتا ہے، کبھی بہت گہرا موضوع اچانک سمیٹنا پڑ جاتا ہے۔ تحقیق طلب علمی موضوعات کیلئے کالمانہ انداز غالباً عالمانہ نہیں رہتا۔ آپ ایک کپ میں دیگ نہیں پکا سکتے۔ اگر ایک دینی اور دقیق موضوع اچانک سمیٹنا پڑ جائے تو ’’آغاز ہی لکھا گیا ،انجام رہ گیا،، کے مصداق تشنگی دُور ہونے کی بجائے بسا اوقات فزوں تر ہو جاتی ہے۔ سو، یہ خیال وارد ہوا کہ آج اپنے قارئین سے ذرا مختلف انداز سے مخاطب ہوا جائے۔

ہفتے کے روز ملتان سے معروف کالم نگار خواجہ مظہر صدیقی اپنے سٹڈی گروپ کے اراکین کے ہمراہ فقیر خانے پر تشریف لائے، حسب ِ دستور ڈھیر سارے موضوعات اور فکری اشکالات زیر ِ گفتگو رہے۔ خواجہ مظہر صدیقی ایک کمال شخصیت ہیں، ان کا دینی حوالہ بھی ممتاز ہے۔ ارتقا آرگنائزیشن کے بانی ہیں، ملتان اور گرد و نواح میں غریب اور بے سہارا لوگوں کی مدد کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت قائم کی گئی یہ اپنی نوعیت کی الگ تنظیم ہے۔ کسی غریب کے بچے کا داخلہ کروانا ہو، کسی کے گھر راشن پہنچانا ہو، کسی یتیم خانے میں بجلی کا منقطع میٹر لگوانا ہو، کسی غریب کا علاج کروانا ہو، خواجہ صاحب اپنے متعلقین کو فوراً متحرک کریں گے، اور غریب کا کام ہو جائے گا۔ گویا ہمارا دوست ’’کشف المحجوب،، میں بابِ زکوٰۃ میں درج اس کلیے پر کاربند ہے کہ زکوٰۃ صرف مال ہی پر فرض نہیں بلکہ ہمارے جسم کے ہر عضو پر، صلاحتیوں کے ہر ہر اثاثے پر زکوٰۃ واجب ہے۔ چنانچہ ہمارے تعلقات بھی ہمارا اثاثہ ہیں، اور ان کی زکوٰۃ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات دوسروں کے کام آئیں۔

ہمارے خواجہ صاحب خود کو صدیقی کہلوانے پر مُصر ہیں، لیکن یہ فقیر انہیں خواجہ صاحب کے نام سے پکارنا پسند کرتا ہے کہ خواجگی کی اصل بندہ پروری ہے۔ یہ تصوف کو مانتے نہیں لیکن کام سارا صوفیوں کا سا کرتے جا رہے ہیں، گویا یہ اسلاف صوفیا کی اس سنت پر عمل کر رہے ہیں کہ کسی نام اور Nomenclature کے بغیر کام کیا جائے۔ خدمتِ انسانی کے جذبے میں گندھا ہوا یہ شخص انتہائی مختلف الخیال لوگوں کواپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔ مجھے بتا رہے تھے کہ میرے دوستوں میں آج تک اضافہ ہی ہوتا چلا آیا ہے، کبھی کمی نہیں ہوئی، مجھ سے کوئی آج تک نہیں روٹھا۔ پچپن اور جوانی کے زمانے کے دوست آج بھی دوست ہیں، کوئی دوست کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوا۔ گویا یہ صوفیا کے اس نقش ِ قدم پر ہیں کہ صوفی کی محفل میں آپ کو مختلف مسالک اور مکاتب ِ فکر کے لوگ نظر آئیں گے، وہ لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے، اُمت میں وحدت کی تدبیر کرتا ہے، تفرقے کی تخریب سے بچاتا ہے۔ یہ خوئے دلنوازی ہی میر ِکارواں کا اصل ہنر ہے۔ یہ خال خال لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، ورنہ زمانہ بھرا پڑا ہے ایسے ناعاقبت اندیش لوگوں سے جو اپنی زعم ِ صداقت کو اندھے کی لاٹھی کی طرح ایسے گھماتے ہیں کہ اپنے پرائے سب اِس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ مخلص دوستوں اور معاونین سے محرومی ایسے لوگوں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے ’’ مقابلہ کرنے کی خواہش انسان کو معاون سے محروم کر دیتی ہے۔

لوگوں سے چند دوست نہیں سنبھالے جاتے ، اور مدینۃ الاولیا سے تعلق رکھنے والے اس دوست نے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے تقریباً اڑھائی سو قلم کار اپنے سٹڈی گروپ میں سنبھال رکھے ہیں۔ ان میں اُدبا ، شعرا، سائنسدان ، مفکرین، مصنفین، ماہرین تعلیم ، علمائے دین، اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی شامل ہیں، اور ان کا تعلق چودہ مختلف ممالک سے ہے۔ کسی بھی پلیٹ فارم پر کام کرنا مقصود ہو تووحدتِ عمل ہی قوت ِ عمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گفتگو کی اس نشست میں آدابِ اختلاف پر بھی گفتگو ہوئی۔ مدعائے گفتگو یہ نکات رہے کہ آداب کو ملحوظ رکھنے والا  شخص ہی اس بات کا اہل ہے کہ اس سے اختلاف کیا جائے۔ وگرنہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سورۃ فرقان میں درج رحمان کے بندوں کی پالیسی ہی بہترین حکمتِ عملی ہے کہ “جاھلون قالو سلاماً” ۔ اختلاف دراصل برائے اتفاق ہوتا ہے۔جسے اتفاق کا ہنر نصیب نہیں ، اس سے کیا اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ اختلاف اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس موضوع پر فکر کی نئی جہتیں سامنے لائی جائیں۔ اپنے زعمِ فہم میں مبتلا شخص کسی کو اپنی رائے سے اختلاف کا موقع نہیں دیتا۔ وہ اپنی فہم کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے کو اپنا مخالف بلکہ دین کا مخالف گردانتا ہے۔ جو اُس کی ہاں میں ہاں نہ ملائے ،اُسے بیک جنبش ِقلم قابلِ گردن زنی قرار دیتا ہے۔ ایسا شخص جس کاز کیلئے بھی کام کرے گا، انصاف نہ کر پائے گا۔ وہ کسی کے ساتھ چل سکے گا، اور نہ کوئی اس کے ساتھ ہی چل پائے گا۔ اپنی فہم کو فائق اور دوسروں کو فارغ سمجھنے کی روش دراصل غرورِ نفس کا شاخسانہ ہے۔ کسی کی رائے سے اختلاف ٗطے شدہ دینی معاملات سے اختلاف ہرگزنہیں۔ اختلافِ رائے برداشت کرنا عالی فہم اور عالی ظرف لوگوں کا کام ہے، اور ایسے ہی لوگ قافلۂ حق کی سالاری کے لائق ہوتے ہیں۔ وگرنہ بقول اقبالؒ صاحبِ حال، حال یہی ہوتا ہے:
کوئی کارواں سے ٹْوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ اَمیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خوئے دل نوازی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

Leave a Reply