سودے بازی صرف ریڑھی والے سے ہی کیوں؟

سودے بازی صرف ریڑھی والے سے ہی کیوں؟
مڈل کلاس خریدار کا سارا زور ریڑھی والے پر چلتا ہے۔ یہ رویے اور ذرائع پیداوار کا مسئلہ ہے۔ خوراک پیدا کرنے والے کبھی عزت والے ہوتے تھے کیونکہ خوراک بنیادی ضرورت تھی اور باقی سب عیاشی۔ پھر خوراک کے ذرائع بڑھتے گئے اور اس پر بھی فیکٹریوں نے اپنا قبضہ جما لیا۔ اب گنی چنی کچھ اشیا رہ گئی ہیں جو کھیت سے صارف تک براہ راست آتی ہیں۔ اس میں گندم، چاول ، پھل اور سبزیاں وغیرہ شامل ہیں۔
کھیت سے منڈی تک تر سیل کے نظام پربھی مڈل مین (سرمایہ) نے اپنا سکا جمایا ہوا ہے۔اب ہمارے جیسے معاشرے میں تو سارا زور تو غریب پر ہی چلتا ہے۔ کسان کا سب سے بڑا قصور ہی غربت ہے۔ اسی طرح سے ریڑھی پر کسان کی پیدا وار فروخت کرنے والا بھی غریب ہی ہوتا ہے۔مشاہدہ ہے کہ جب کوئی شہری کسی بڑے سٹور یا برینڈ کی دکان یا شو روم میں جاتا ہے تو بھائو تائو کرنے کو اپنی ہتک سمجھتا ہے۔ وہ اپنے گرد ’’بظاہر‘‘ امیر نظر آنے والوں کو دیکھ کر خاموشی سے پیسے دے دیتا ہے کہ اسے غریب غربا نا سمجھا جائے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو ملنیئر ثابت کرنے کے چکر میں ایسی جگہوں پر کبھی قیمت کا رونا نہیں روتا۔ میرے خیال میں یہ سب اس ایک فیصد امیر کلاس کی پیروی کا نتیجہ ہے جس کو قیمت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے اپر مڈل و مڈل کلاس کے کئی دوستوں کو دیکھا ہے کہ برینڈڈ شرٹ پر دس ہزار خرچ کر دیں گے اور ریڑھی والے سے کیلے خریدتے ہوئے انہیں فورا ًمہنگائی یاد آ جاتی ہے اور جب تک وہ اسے دس سنا نا لیں چین نہیں پڑتا۔ پھر کچھ نا کچھ خود ہی کم کر کے پیسے دے دیتے ہیں۔
میں یہ اچھی طرح سے سمجھتا ہوں کہ ریڑھی والے یا دوکان دار کی کمائی کسان کی جیب میں نہیں جاتی پھر بھی اس ریڑھی والے کو کسی بھی برینڈ کے مالک سے پیسے کی زیادہ ضروت ہوتی ہے۔ ریڑھی والا اگر کسی کی بلند حیثیت دیکھ کر کچھ زیادہ مانگ بھی لے تو اس کو ڈیرھ میل لمبا لیکچر سننے کو ملتا ہے۔ عجیب منطق ہے کہ جس کو پیسے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ہم اسی کو کم دیتے ہیں۔ میری التماس ہے کہ ریڑھی والوں اور خصوصاً بزرگ حضرات سے خریدتے وقت کبھی بھاو تاو (سودے بازی) نا کریں اور ان سے ہمیشہ پیار سے پیش آیئں۔دراصل ہر کوئی جلد از جلد اپنی کلاس بدلنے کے چکر میں ہے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صاحب حیثیت ہوتے ہی امرا والا رویہ بھی خود بخود امڈ آتا ہے۔ دراصل لوگوں نے مرتبے اور حیثیت کا استعمال دوسروں کو نیچا دکھانے اور دوسروں کا حق مارنے کے علاوہ دیکھا ہی نہیں ہوتا اور جب ان کے پاس ’’پاور‘‘ آتی ہے تو اس کا اظہار بھی پہلے والوں کی طرح ہی ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمیں معاشرے کے ایسے رویوں پر زیادہ بات کرنے اور اپنی اولاد کی اس پر تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف تقریر سے کام نہیں چلے گا ہمیں مثال بن کر بھی دکھانا ہو گا۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply