ہولی (1956)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ہر موڑ پہ اک شور سا ہے صبح سویرے
رنگوں میں نہائے ہوئے بالوں کو بکھیرے
یہ گلیوں میں پھرتے ہوئے رنگین سپیرے
اس طرح سے بھی دیکھے ہیں ہولی کے نظارے

گلیوں کی منڈیروں پہ یہ بچوں کی قطاریں
یہ چہروں پہ پڑتی ہوئی رنگوں کی پھواریں
ہولی کے نظارے ہیں یہ، ہولی کی بہاریں
اس طرح سے بھی دیکھے ہیں ہولی کے نظارے

اس ڈھنگ سے کچھ ساڑیاں رنگوں سے بھری ہیں
ہر عضو کی بیداریاں رنگوں سے بھری ہیں
مچلی ہوئی چنگاریاں رنگوں سے بھری ہیں
اس طرح سے بھی دیکھے ہیں ہولی کے نظارے

کیا خوب ہے آپس میں گلے ملنے کا انداز
دے دے کے حسیں قسمیں گلے ملنے کا انداز
ہیں پیار کی یہ رسمیں گلے ملنے کا انداز
اس طرح سے بھی دیکھے ہیں ہولی کے نظارے

رہ رہ کے کوئی جام کے لب چوم رہا ہے
بوتل سر ِ ِبازار لیے گھوم رہا ہے
کوئی ہے کہ دو گھونٹ سے محروم رہا ہے
اس طرح سے بھی دیکھے ہیں ہولی کے نظارے

مستی کا یہ عالم کبھی پہلے نہیں دیکھا
انداز یہ دیکھا ہے نیا بادہ کشی کا
وہ شیشی سے شیشی بجی، وہ شیشے سے شیشہ
اس طرح سے بھی دیکھے ہیں ہولی کے نظارے

Advertisements
julia rana solicitors london

اے بھنگ کے رسیا، کسی بوتل سے، کہو، پی؟
یا اب بھی گئی دل کو جلاتی ہوئی ہولی؟
افسوس کا کیافائدہ؟ اب ہو لی، جو ہو لی
اب اگلے برس دیکھیں گے ہولی کے نظارے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply