زبان دانی، قصے اور ضرورت ۔۔ حیدر جاوید سید

عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے دونوں فریقوں کے بلندبانگ دعوے میدان گرمائے ہوئےہیں اسی ماحول میں جناب شیخ رشید نے بلاول بھٹو کے لئے ایک بار پھر سطحی زبان استعمال کی گو یہ پہلا موقع نہیں کہ لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ’’نتھری‘‘ بات کرنا ان کے بس میں نہیں خمیر کا معاملہ ہے اور چار اور کے ماحول کا بھی جس میں عمر گزری ہو کچھ اس حویلی کے اثرات بھی یقیناً ہوں گے۔
شیخ جی کی اپنی زندگی بھی داستانوں سے عبارت ہے لیکن انہیں اس سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا پھر بھی ان کی خدمت میں یہ عرض کیا جانا ضروری ہے کہ عمر کے اس حصے میں اگر وہ زبان و بیان پر قابو رکھیں تو اچھا ہے پتہ نہیں کیوں کبھی کبھی لگتا ہے کہ وہ یہ سب کمپنی کی مشہوری کے لئے ہی کرتے ہیں۔
ابھی چند دن قبل انہوں نے ق لیگ کوپانچ نشستوں کا طعنہ مارا لیکن مونس الٰہی کے جواب کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے مونس الٰہی کے نانا چودھری ظہور الٰہی سے اپنے تعلق کا قصہ کھول کر بیٹھ گئے۔ یہ قصہ بیان کرنا مجبوری تھی کیونکہ پہلی بار انہیں کرارا جواب ملا تھا۔
کہتے ہیں کہ سیاست کے سیینے میں دل نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں کی سیاست اخلاقیات اور سماجی وضع داری سے دن بدن محروم ہوتی جارہی ہے۔ اخباری بیانات، جلسوں کی تقریریں سوشل میڈیا ہر جگہ سوقیانہ جملوں سے مخالفین کی تضحیک کرتے لوگوں کا ہجوم ہے۔ سیاسی مخالفت اور تنقید جرم ہے نہ حرام، سیاست میں یہی ہوتا ہے لیکن اگر آپ تنقید کے نام پر تضحیک کرنے پر اتر آئیں اور یہ سمجھیں کہ جواب میں ’’دادرا‘‘ سننے کو نہیں ملے گا تو شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔
جناب شیخ نے دو دن اُدھر مرحوم خان عبدالغفار خان کے حوالے سے بھی نامناسب بات کی اس کی ضرورت کیا تھی؟ بات وہی ہے کہ وہ اپنی زبان پر قابو نہیں رکھ پاتے اب جواب میں ا ے این پی والے پرانے قصے کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ لندن میں مقیم ہمارے سرخ پوش دوست اور سابق طالب علم رہنما محفوظ جان نے تو جناب شیخ کو کسی طلباء تنظیم کے الیکشن سے قبل کی ایک رات یاد دلانے کی کوشش کرڈالی۔
ایک فقط شیخ رشید نہیں ہر وہ شخص جو سیاست کے میدان اور عقیدوں کے منبر پر جلوہ افروز ہے اسے بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس روش پر ہمارے وزیراعظم بھی گامزن ہیں اپنے مخالفین کو وہ جن ناموں اور القابات سے یاد کرتے ہیں وہ کسی طرح بھی درست نہیں۔
وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں، مخالفین کی تضحیک اگر وہ اپنا حق سمجھتے ہیں تو پھر اپنے اور رفقا کے معاملے میں پیدا ہوئی بدمزگی پر سرکاری محکموں کی طاقت بھی نہ دیکھایا کریں۔

تمہید طویل ہوگئی آئیں ہم مرشد جی کی بات کرتے ہیں وہ ان دنوں ق لیگ اور ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی کا پرانا حسن سلوک یاد دلوانے میں پیش پیش ہیں۔ مرشد بھلے آدمی ہیں بس وزیراعظم نہ بن سکنے کی وجہ سے اکھڑے اکھڑ ے رہتے ہیں۔ وزیراعظم کیوں نہیں بن سکے اس کا پس منظر خود ان پر بھی عیاں ہے۔
پیپلزپارٹی پر ان کے فوری غصے کی وجہ یہ ہے کہ مرشد نے ڈیڑھ سال قبل پی ڈی ایم کی ایک جماعت سے رابطہ کیا تھا قومی حکومت کے لئے، تاثر یہ دیا تھا کہ ’’بڑوں‘‘ کی تائید حاصل ہے تب پیپلز پارٹی آڑے آئی اور مرشد کا قومی حکومت کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جس کے وزیراعظم وہ خود ہوتے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن، غصہ ہے کہ کم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپوزیشن پر 18سے 20کروڑ روپےمیں تحریک انصاف کا فی رکن اسمبلی خریدنے کا الزام وزیراعظم نے خود لگایا تھا اب گزشتہ روز انہوں نے سوات کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا اسلام آباد کے سندھ ہائوس میں نوٹوں کی بوریاں موجود ہیں۔ جاتی امرا نیوز کے ایک عدالتی رپورٹر کا دعویٰ بھی یہی ہے ایک یوٹیوبر کے مطابق فی رکن قیمت 70کروڑ تک جاپہنچی ہے۔ تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ سندھ ہائوس میں دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
فقیر راحموں کہتے ہیں اگر ماضی میں گورنر ہائوس، لانچوں اور گھروں کے تہہ خانوں کے علاوہ دودھ والے، پاپڑ والے، چنے والے کے اکائونٹس سے برآمد شدہ رقم کہیں محفوظ ہو تو کسی تاخیر کے بغیر سندھ ہائوس میں لگے دولت کے انبار بھی برآمد کرکے جمع تفریق کرلی جائے تو اور کچھ نہیں ایک سال کا ملکی بجٹ تو بن ہی سکتا ہے۔
بات تو فقیر راحموں کی درست ہے اگر ایک سال کا بجٹ اس رقم سے بن جائے تو پنجابی میں اردو بھیگوکر بولنے والے ایک اینکر کے انکشاف کے مطابق کہ میاں نوازشریف 10ارب ڈالر ادا کرکے ملک سے باہر گئے تھے، زرداری نے بھی 7ارب ڈالر ادا کردیئے ہیں، اس طور تو ملکی خزانے میں حکومت کی بتلائی رقم کے علاوہ بھی 17ارب ڈالر موجود ہونے چاہئیں۔
نوازشریف اور زرداری کی ادائیگیوں کا انکشاف کرنے والے صحافی اینکر خاصے دیندار قسم کے بندے ہیں، برسوں وہ جناب عمران خان کے اتالیق بھی رہے ہیں یقیناً وہ بھی سچائی کا ’’مجسمہ‘‘ ہی ہوں گے۔ اب یہ حکومت بتائے کہ وہ 17ارب ڈالر کہاں ہیں جو نواز اور زرداری نے ادا کئے۔ چلتے چلتے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان حالیہ ملاقاتوں کے حوالے سے کچھ عرض کرنا بھی ضروری ہے۔
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان تعاون و مفاہمت کے لئے پچھلے 40برسوں سے جب بھی مذاکراتی عمل کا آغاز ہوتا ہے، کونوں کھدروں میں چھپے کچھ محب وطن اتاولے ہوئے دروغ گوئی کے ریکارڈ بنانے لگتے ہیں۔
آج کل ان محب وطنوں کو خود سے قصے کہانیاں گھڑنا بھی نہیں پڑتے، واٹس ایپ کے ذریعے ’’متن‘‘ موصول ہوجاتاہے۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ذمہ داران کے درمیان حالیہ ملاقاتوں کے بعد “واٹس ایپ دانش” کی باسی کڑی میں ابال آیا ہوا ہے۔
گو خواجہ اظہارالحسن نے ان دانشوروں کو پچھلی شب آئینہ دیکھایا لیکن یہ نوکر پیشہ دانشور سنتے کسی کی نہیں۔
ایم کیو ایم کی اٹھان طرز سیاست اور بعض دیگر معاملات پر تحفظات رہے اور ہیں لیکن ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے۔ لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں۔ 1985ء سے آج تک سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص میں سیاسی تنائو اور نفرتوں کے کاروبار سے جو نقصان ہوا اس کا مداوا ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سندھ کی سیاست کے دو بڑے فریق تھے اور ہیں۔ تحریک انصاف تیسرے فریق کی حیثیت کی دعویدار ہے یہ حیثیت کس نے کیسے دلائی سبھی کو معلوم ہے۔ بہرطور ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو سندھ کے مشترکہ دشمنوں اور محمد بن قاسم بننے کے شوقینوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دونوں جماعتیں بھلے اپنے اختلافات کو ختم نہ کریں مگر سندھ کے وسیع تر مفاد اور عوام کی خدمت کے لئےاگر کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کرسکیں تو اس میں دونوں کے حامیوں کا فائدہ ہے۔
دونوں کے حامی اور خود ذمہ داران یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ متحد ہوکر سیاسی عمل اور نظام کو آگے بڑھاتے ہیں تو تعمیروترقی کے نئے دور کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ لڑائی اور نفرت بہت ہوچکی، دونوں کو آگے بڑھنا چاہیے کسی ایسے سمجھوتے کی طرف جو سندھ کو ایک بار پھر امن و محبت کا گہوارہ بنادے۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ دونوں کا وجود سندھ کی سیاست میں ایک زندہ حقیقت ہے۔
حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ چسکے بازوں اور سندھ کے سماج میں نفرتوں کا زہر گھولنے والوں کے اپنے مقاصد ہیں۔
کیا ان مقاصد کو اس بات سے نہیں سمجھا جاسکتا کہ ایک وقت میں یونین کونسل کا ناظم منتخب نہ ہوسکنے والے پھر ایم این اے اور وزیر بھی بن جاتا ہے فرشتوں کی مہربانی سے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سیاسی و سماجی اتفاق رائے کا ماحول بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس میں سندھ کے ہر باسی کا فائدہ ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply