سارہ گل- پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر۔۔محمد وقاص رشید

سارہ گل!میں آپکی داستان نہیں جانتا لیکن آپکو ایک چھوٹی سی اپنی روداد بیان کرنا چاہتا ہوں۔ راولپنڈی میں ایک شام شدید ترین گرمی میں ،میں اپنے بچوں کے ساتھ صدر بازار میں تھا ۔ بچے جشنِ آزادی منانے کی تیاری کر رہے تھے ۔ایک دکان کے سامنے بہت بڑے ڈیک پر اونچی آواز میں ملی نغمے لگے ہوئے تھے تو ایک ٹرانس جینڈر/خواجہ سرا شدید گرمی میں ننگے پاؤں وہاں ناچنے لگا ۔شدید حدت میں پسینے کی وجہ سے اسکا میک اپ پگھل کر انسانیت اور اس ملی نغمہ کے لفظوں پر کالک مل رہا تھا ۔اس خطہ زمین کے اسلامی جمہوریہ ہونے کا منہ چڑا رہا تھا ۔بار بار وہ گاڑیوں رکشوں وغیرہ سے بچ کر ایک طرف ہوتا جب ایک طرف کا اشارہ بند ہوتا۔  گاڑیاں آنی بند ہوتیں تو وہ ناچنے لگتا تھا  اور جب گاڑیاں آنی شروع ہوتیں تو وہ بے چارہ ان سے اپنے آپ کو بچانے لگتا۔  ملی نغمہ مسلسل چل رہا تھا۔

ہر دل کی آواز ،دل دل کی آواز پاکستان زندہ باد۔۔  میں اسکے چہرے پر پسینے کے ساتھ بہتی انسانیت کی بے بسی اور مردنی کو دیکھ کر وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ ہر دل کی آواز میں کم از کم اسکے دل کی آواز شامل نہیں۔ جسے جشنِ آزادی پر اپنی عمر قید کی سزا کا ماتم رقص کر کے کرنا پڑ رہا ہے ۔میری بیٹی میری آنکھوں کے آنسوؤں کو محسوس کر گئی تھی۔  ہمیشہ ہی کر جاتی ہے، اس نے مجھ سے پوچھا، یہ ٹرانسجینڈر کون ہوتے ہیں، کیا ہوتے ہیں، کیوں انہیں اس طرح عجیب سا میک اپ کر کے ناچنا پڑتا ہے ۔ اس بے چارے کو گرمی نہیں لگ رہی ننگے پاؤں۔ ۔میرے پاس اپنی بیٹی کے سوالوں کے کوئی جواب نہیں تھے ۔ بس میں نے دونوں بچوں کو ساتھ لیا اور اس ٹرانس جینڈر کے پاس گیا اور انکے ہاتھوں سے انکے سوالوں کے جواب کے طور پر اس انسانیت سوز رقصِ کا خراج دلوایا۔۔
ٹرانس جینڈرز سے بہیمانہ سلوک کے مناظر ہم اپنی آنکھوں سے روز دیکھتے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جن کے ساتھ یہ گھناؤنا اور شرمناک سلوک ایک عمومی مشاہدہ ہے ۔شدید کربناک بات تو یہ ہے کہ اس غیر انسانی سلوک کو معاشرے میں عموما ًبُرا بھی نہیں سمجھا جاتا۔۔قدرت کی طرف سے ملنے والے ایک جسمانی عذر کی سزا زندگی بھر پانے والے مجبور ٹرانسجینڈرز جبر و استبداد کی چلتی پھرتی نشانیاں ہوتے ہیں۔

مگر پھر جیسے یاسیت کی تیرگی میں آس کی اک شمع جھلملا اٹھتی ہے ، خزاں رسیدہ چمن میں گویا خوشبو کا ایک جھونکا لیے پیغام ِ بہار آتا ہے ۔ جس طرح حبس سے دم گھٹتی فضا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہو۔۔  جیسے موسم کی حدت میں جھلستے ریگزار میں کوئی بادل اتر کر رم جھم برسنے لگے ۔ ہاں سارہ گل وہ شمع ،وہ بہار ، تازہ ہوا اور وہ بارش کا پہلا قطرہ آپ ہی ہیں ۔۔
ٹرانسجینڈرز کے لیے ایک مشعلِ راہ۔۔۔ ایک قابلِ تقلید نمونہ۔۔۔ ایک پیروی کے لائق راستہ۔۔۔۔ اور ایک مثال۔

میں آپکی کہانی نہیں جانتا مگر اپنے مشاہدات کی روشنی میں چشمِ تصور سے وہ ساری مسافت دیکھ سکتا ہوں۔  جس کو طے کر کے آپ پاکستان کی پہلی ڈاکٹر بنی ہیں۔  میں سب سے پہلے سلام پیش کرتا ہوں ان والدین کو جنہوں نے کسی صدر بازار میں شدید گرمی میں تپتی سڑک پر ننگے پاؤں ناچنے کے لیے آپ کو چھوڑ دینے میں اپنی مصنوعی معاشرتی عزت محسوس نہیں کی بلکہ اپنا فرض نبھایا اور آپ کو پڑھایا لکھایا۔ جن کے اس اقدام نے معاشرے کی مکروہ منافقت کے آگے ایک بند باندھ دیا۔  میں سلام پیش کرتا ہوں آپ کے خود کو ایک انسان سمجھ کر اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے پر ۔ اس منزل تلک پہنچنے کے لیے یقیناً اس سماج نے رکاوٹیں کھڑی کی ہونگی انہیں جس ہمت حوصلے اور ولولے سے آپ نے جوتے کی نوک پر رکھا انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ۔۔بلا وجہ کی احساسِ برتری کے مارے لوگوں نے مذاق اڑایا ہو گا لیکن آپ کے خود کو سنجیدہ لینے کی خو کی تعظیم اور جو جو اس سفر میں آپ کا معاون رہا انہیں سلامِ عقیدت ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

طالب علم کو آپ پر فخر ہے۔  میں آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ میری دعا ہے اور تمنا ہے کہ آپ ملک کی پہلی ٹرانسجینڈر ڈاکٹر بنی۔۔۔ آخری نہ ہوں۔  آپ سے التماس ہے کہ آپ اپنے سفر کو ایک ایسی گائیڈ بک کی صورت تحریر کریں جو اس سماج میں ٹرانسجینڈرز کو ایک دن نارمل انسانی زندگی گزارنے کے گُر سکھانے والی کتاب بنے۔ آپ پر ڈاکومنٹریز بننی چاہئیں ۔ آپ کو پاکستان میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کا سفیر تعینات کیا جانا چاہیے۔  تاکہ آپ اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اس دنیا کو بتا سکیں کہ ٹرانسجینڈرز عام انسان ہوتے ہیں۔۔  انکے تلوؤں پر بھی سڑک گرم لگتی ہے ۔ انہیں بھی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے خدا کی طرف سے دیے گئے ایک عذر کو اشتہار بنا کر سڑکوں مشتہر کرنا بُرا لگتا ہے ۔ انہیں بھی اپنی طرف بڑھتی گاڑی کے سامنے ناچتے ناچتے بھاگ کر خود کو بچانے اور راہگیروں کے خود پر ہنسنے سے تضحیک محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی نہیں چاہتے کہ اپنی قدرتی معذوری پر ملنے والی عمر قید کی سزا کا ماتم ناچ ناچ کر کریں۔ ۔اور انکا دل بھی نہیں چاہتا کہ ان کو دور سے دیکھتی کوئی بچی اپنے ایک گمنام لکھاری باپ سے انکے متعلق ایسے سوال کرے جیسے وہ کوئی انسان نہیں کوئی اور مخلوق ہیں ۔ہم انسان ہیں انسان۔ ۔ انسانو! ہمیں انسان سمجھو۔ ۔
آخر میں ایک نظم سارہ گل کے نام۔۔۔۔۔
ایک خواجہ سرا سارہ گل اس کا نام
آج کی نظم یہ ، یہ سخن اور کلام
قابلِ فخر اس ایک ہستی کے نام
اپنی خود اعتمادی کے ہی زور ہر
جس نے جگ میں بنایا ہے اپنا مقام
اپنے لوگوں کی خاطر بنی ہے مثال
جنکی خاطر نہیں یاں پہ کوئی نظام
ان بےچاروں کااس میں بھلاکیاقصور
لوگ لیتے ہیں کیوں ان سے یوں انتقام
آج دھرتی کی پہلی مسیحا بنی
اسکی ہمت و جرات کو میرا سلام!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply