متحرک سائے ۔۔شاہین کمال

متحرک سائے(1)۔۔شاہین کمال/بیشتر لوگ بڑھاپے کی تنہائی سے خوفزدہ رہتے ہیں جبکہ بڑھاپے کی انجمن  آرائی الگ ہی ہے۔ فارغ وقت زندگی کے ہر گوشے میں فراخدلی سے جھانکنے کی سہولت فراہم کرتا ہے کہ کسی نے آنا نہیں اور ہم نے کہیں جانا نہیں گویا
نہ سوالِ  وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں

سکون کے ساتھ چائے کی چسکی لیتے ہوئے گزرتے وقت کی چاپ سنتے رہو گو کہ اس عمر میں ظاہری سماعت مثاثر ہوچکی ہوتی ہے مگر باطن کی آنکھیں بینا ہونے کے  سبب پانچویں جہت و سمت کلی طور پر عیاں۔اب جب کہ میں زندگی کے سارے میلے اور جھمیلے دیکھ اور نمٹا چکا ہوں تو میری تنہائی بڑی آباد ہے۔ میں ہمیشہ سے کتابوں کا رسیا رہا ہوں، پر جو خدا لگتی کہوں تو مجھے کتابوں سے زیادہ دلچسپ اب اپنی زندگی لگتی ہے۔ مجھے اپنی زندگی ایسے محظوظ کرتی ہے جیسے بچوں کو kaleidoscope

میرے  بیتے کل کے لاتعداد کردار جن کو میں نے اس سمے سرسری جانا یا جو مشینی زندگی کی بھاگ دوڑ اور خوابوں اور آسائشوں کے حصول کی تگ و دو میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے وہ سب میرے ارد گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک چوپال سی سج جاتی ہے جہاں باتوں کی بھنبھناہٹ، جلتی انگیٹھی کا دھواں اور ڈھول پر پڑتی تھاپ ایک سماں باندھ دیتی ہے۔ ہر کردار آگے بڑھ کر اپنا تعارف کراتا ہے اور ہمکتا ہوا پوچھتا ہے ۔
میں یاد ہوں نا ؟
میں یاد ہوں نا؟
بھلا مجھے کیسے بھول سکتے ہو تم۔۔

اور واقعی سمے کی دھارا میں وہ بسرا پل جیتا جاگتا متحرک ہوجاتا ہے۔

بہت پرانی یاد جو اس وقت مجھے سہما  گئی  تھی پر آج رلا گئی ہے ۔

میں اپنے کالج کے بس اسٹاپ پر اتر کر ایک شارٹ کٹ لیا کرتا تھا جو وسیع میدان کے بیچو بیچ سے گزرتی پگڈنڈی پر مشتمل تھا ۔ اس سر سبز میدان میں خانہ بدشوں نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا اور میں ہر روز صبح سویرے وہاں سے گزرا کرتا۔ وہ ایک دھند بھری سرد ترین صبح تھی اور کوئٹہ ونڈ کی کٹیلی برفیلی ہوائیں جسم کو کاٹتی گزر رہی تھیں کہ میرا اکلوتا گرمائش کھو چکا ہوا سوئیٹر تند ہواؤں سے مقابلے کے لیے قطعی ناکافی تھا۔ ابھی میں نے آدھا میدان ہی طے کیا تھا کہ سامنے سے ایک ہیولا میری طرف آتا دکھائی دیا۔ بالشت بھر کے فاصلے پہ جب میری نظریں اس پر پڑیں  تو ایک بےساختہ چیخ میرے منہ سے نکلی۔ اس سے زیادہ بھیانک چہرہ میں نے آج تک یعنی اپنی چوہتر سالہ زندگی میں نہیں   دیکھا تھا ۔ وہ کوئی جوان لڑکی تھی اور اس کا چہرہ بری طرح جلا ہوا تھا۔ اس چہرے کی دہشت عرصے تک میرے دل پر قائم رہی اور میں نے دل ہی دل میں اس کو پچھل پیری کی عرفیت دے رکھی تھی۔ آج اس کی یاد دل کو بوجھل کرتی ہے۔
جانے وہ کسی کے ظلم کا شکار ہوئی یا کوئی سنگین حادثہ اسے سوختہ کر گیا ؟
اب اس لمحے کی یاد مجھے اذیت سے دو چار کرتی ہے کہ میری اس چیخ سے اس کے دل پر کیا بیتی ہو گی۔
میری وہ بےساختہ چیخ آج میرے سینے میں میخ بن کر گڑ گئی  ہے۔

بچپن کا ایک مہجور کردار ۔

بڑی آپا کی نئی نئ شادی ہوئی تھی اور غالباً ان کی شادی کے بعد پہلا شب برات تھا سو امی نے قسم قسم کے حلوے، نمک پارے اور شکر پارے تیار کیے اور چٹائی کی ٹوکری میں سارا سامان بھر کر ابا، امی اور میں خوشی خوشی رکشہ میں ٹھنس ٹھنسا کر بڑی آپا کے سسرال پہنچے۔ ان کے گھر پہنچے تو گھر میں گھستے ہی عجیب تناؤ کی فضا محسوس ہوئی۔ بڑی آپا خاموشی سے آکر ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ بیٹھک سے ملحقہ کمرے سے اونچی آواز میں کوئی مستقل کسی کو جھڑک رہا تھا اور اڑتے پردے کے پار سے نظر آتا منظر خاصا دل خراش تھا۔ بڑی آپا کے سسر کمرے میں یکساں رفتار سے ٹہلتے ہوئے بری طرح اپنی بیگم پر گرجتے ہوئے ان کے میکے کی عزت افزائی کے من پسند مشغلے میں مصروف تھے اور بڑی آپا کی ساس کسی مجرم کی طرح سر جھکائے پلنگ کے سرہانے بیٹھی وقفے وقفے سے اپنی ساڑھی کے آنچل سے آنسو پونچھتی نظر آئیں ۔

بڑی آپا کے سسر نہ ہم لوگوں سے ملنے آئے اور نہ ہی اپنی دشنام طرازیوں میں کسی قسم کے وقفے کی زحمت گوارا کی۔ ہم تینوں شرمندگی کے عالم میں بڑی آپا کو خدا حافظ کہہ کر کمرے سے نکل گئے۔ بیرونی دروازے سے باہر نکلتے ہوئے امی نے ابرو کے اشارے سے بڑی آپا سے پوچھا ہوا کیا ہے؟
بڑی آپا نے دھیمی آواز میں جواب دیا کہ سالن میں نمک تیز ہو گیا تھا۔ میں دنگ رہ گیا کہ اتنی معمولی بات پر یہ صاحب اس قدر برافروختہ ہیں! اس حد تک آپے سے باہر کہ گھر آئے مہمان اور خاص طور پر نئے سمدھیانے کا بھی خیال نہیں رکھا اور نئی  بہو کے سامنے ساس کو بے عزت کر دیا!  تف ہے ایسے کم ظرف پر۔

یوں بھی مجھے بڑی آپا کی ساس بہت اچھی لگتی تھیں، لمبی چھریری، خوش جمال و خوبی گفتار سے آراستہ ۔ پرانی  وضع کی خاتون جو ابھی تک ساڑھی کا الٹا آنچل لیا کرتیں اور جن کے لیے کُھلا سر ابھی بھی گناہ کبیرہ  میں شمار ہوتا تھا۔ ان کے کانوں میں سونے کی ہلکی سی گول بالیاں اور لبوں پر پان کا لاکھا بہت سجتا تھا۔ بڑی آپا کے رشتے کے سلسلے میں جتنی بار آئیں تھیں ہمیشہ بہت محبت سے میرے سر پر دست شفقت پھیر کر سلام کا جواب دیتیں  اور ایک آدھ جملے میں حال احوال لیتیں ۔ ان کے مقابلے میں ان کے شوہر ان کے ساتھ بالکل نہیں جچتے تھے، نہ سراپے سے نہ ہی مزاج سے، عجیب لقندرے جیسے۔
پتہ نہیں ماں باپ اتنی بے جوڑ شادی کیوں کر دیتے ہیں؟
جانے کیوں اپنے جگر کا ٹکڑا ایسے ناقدروں کے حوالے کر کے انہیں تا زیست مصلوب کیوں کر دیتے ہیں؟
اس دن کے بعد سے تو میں دولھا بھائی کی جانب سے بھی کھٹک گیا تھا اور ابا کے ماتھے پر بھی تفکر کی گہری لکیر تھی پر صد شکر کہ بڑی آپا کو کبھی دولھا بھائی کے ہاتھوں اس بد صورت رویئے کا دکھ نہیں سہنا پڑا۔

میں نے تو اسی پل طے کر لیا تھا کہ میں اپنی بیوی کو کبھی بھی اس طرح ذلیل نہیں کروں گا ۔ قسمت سے مجھے بیوی بڑی نیک اور بھاگوان ملی۔ بشریٰ میری زندگی میں بشارتوں کی نوید تھی اور زندگی کا کٹھن سفر ہم دونوں نے ایک دوسرے کی سنگت میں اچھا گزار لیا۔ بس میرے دل کو شل اس کے آخری ایام میں بیماری کے ہاتھوں اٹھائی گئی اس کی تکالیف کر دیتی ہیں۔ کیا بے بسی سی بےبسی کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اپنے پیارے کی تکلیف کو دور کرنا تو بہت بڑی بات اس درد میں رتی بھر کمی لانے پر قادر نہیں، ماسوائے اس کے کہ اس قادر مطلق کے آگے سر بہ سجود ہو جائیں پر کبھی کبھی وہ بےنیاز کسی مصلحت کے تحت بےنیاز ہی رہتا ہے اور ساری محروم مستجاب دعائیں بلکتی ہوئی توشہ آخرت کر دی جاتی ہیں ۔

نیشنل لیاقت ہسپتال میں رفیقِ  جاں کے آخری ایام میری زندگی کے بھیانک ترین دن اور نہایت تکلیف دہ یادیں ہیں۔
میں سوائے اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہنے یا سر سہلانے کے علاوہ اس کا اور کوئی درد نہ بٹا سکا۔ جب وہ تھوڑی دیر کے لیے دواؤں کے زیرِ اثر سو جاتی تو جائے نماز کی سجدہ گاہ میرے آنسوؤں سے تر ہو جاتی پر میرے پچھلے پہر کے کئے گئے سجدے بھی میرے دل کو آباد نہ کرسکے اور میری گریاں و زاریاں بھی ہونی کو نہ ٹال سکیں۔ بشریٰ کے سامنے تو میں اس کا آئرن مین بنا رہتا کہ میری مضبوطی ہی اس کا سہارا تھی پر اندرو اندر ہی میں ریت کی دیوار کی مانند ڈھے  چکا تھا۔ میں  تو اس کی پلنگ کے گرد سات سات پھیرے لگا کر اس کی موت اپنے نام منتقل کرانے کی عرضی بھی برابر ڈالتا رہتا تھا پر جانے میری نیت میں کھوٹ تھا یا شاید میری آزمائش مقصود تھی کہ میری عرضی مسترد کر دی گئی ۔
تقدیر سے کون جیتا ہے آج تک؟

میں بھی تل تل جیتا اور کلستا ہوں۔ بس اب ایک ہی بات باعثِ اطمینان ہے کہ وہ تکلیفوں سے مکت ہو گئی ۔ اس کو انجیکشن سے بہت ڈر لگتا تھا اور ظالموں نے سوئی بھونک بھونک کر میری من موہنی کا کومل جسم چھلنی کر دیا تھا۔ میں سارا سارا دن نرمی سے اس کے ہاتھوں کا مساج کرتا یا پھر اس کی سوجی نیل زدہ رگوں پر برف کی ٹکور ۔ دنیا کی سب سے بڑی اذیت اپنی محبوب ہستی کو اپنے سامنے سسکتے مرتے دیکھنا ہے، مر تو آپ بھی اس کے ساتھ ہی جاتے ہیں بس سانسیں چلتی رہتی ہیں۔

ہمارے ٹھیک سامنے والے کمرے میں ایک خاتون مریض تھیں۔ ان کی خبر گیری ایک نازک دھان پان سی لڑکی کیا کرتی جو بشرے اور برتاؤ سے ان کی بیٹی لگتی تھی۔ اپنی سرجری کے بعد وہ اکثر کوریڈور میں اپنی بیٹی کے کندھوں کا سہارا لیکر ٹہلا کرتیں اور آتے جاتے ہمارے کمرے میں جھانک کر بشریٰ کا حال احوال بھی لیا کرتیں۔ ان کی شخصیت کی تمکنت اور رعب حسن سے ان کے رو برو آنکھیں نہیں اٹھتی تھیں۔ صحافی ہونے کے ناطے شو بز کی دنیا میری دیکھی بھالی تھی پر ویسا باوقار حسن اور طبیعت کا ٹھہراؤ آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا ۔ بشریٰ اور ان کی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ بشریٰ طبیعت میں بہتری محسوس کرتی تو ان کے کمرے میں چلی جاتی یا کبھی کبھار وہ پھیرا لگا جاتیں۔
ان کے شوہر نامدار ہر شام ہوا کے گھوڑے پر سوار آتے اور اپنی زوجہ کے کمرے میں مختصر ترین وقت کے لیے قدم رنجہ ہو کر بقیہ وقت ہسپتال کے مختلف گوشوں میں لوگوں کے ساتھ خوش گپی میں مصروف پائے جاتے۔ مجھے حیرت بس اس بات کی تھی کہ یہ شخص بجائے جوان بیٹی کے رات میں خود کیوں نہیں ٹھہرتا بیوی کی تیمارداری کے لیے؟
کیا اس کو برے وقت سے ڈر نہیں لگتا؟
ایک دن بڑی عجیب بات ہوئی جو آج تک میرے دل   کو رنجور کرتی ہے۔
بشریٰ کی ایم۔ آر۔ آئی ہونی تھی اور میں اس کی تیاری تک تو اس کے ساتھ ہی موجود رہا پر جب اسے مشین پر لٹایا گیا تو جانے کیوں دل ایسا حشت زدہ ہوا کہ میں بےساختہ وہاں سے بھاگ نکلا اور باغیچے کے قدرے بے آباد کنارے جھاڑی کی اوٹ میں رو رو کر اپنی بھڑاس نکالنے لگا۔ رو دھو کر جب دل قدرے شانت ہوا اور میں ارد گرد کے ماحول کو محسوس کرنے جوگا، تو قریبی سنگی بینچ سے کسی کی پریم رس میں ڈوبی مدہم سرگوشیاں ہوا کے  دوش پر میرے کانوں میں چٹخنے لگیں  اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس بےقراری سے کئے گئے اظہار و اقرار کو سننے سے بعض نہ رہ سکا۔ ہسپتال کے جراثیم کش بو زدہ ماحول میں وہ اقرار محبت بہار کا نو شگفتہ گلاب محسوس ہو رہا تھا۔ اس شخص کی بےتابی اظہار مجھے اپنی شادی کے ابتدائی ایام یاد دلا گئی  جب میں دفتر سے گھر کی جانب ایسے بھاگتا تھا جیسے چھٹی کی گھنٹی پر اسکول کے بچے۔
مجھے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا تب لگا جب میں نے جھاڑیوں کی اوٹ سے بینچ پر سے اٹھتے ہوئے اس شخص کا چہرہ دیکھا۔ آف میرے خدا  ! یہ ؟
میرا دل ڈوب گیا کہ وہ شخص اس پُر تمکنت خاتون کا شوہر تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا پر اب مجھ پر ان فسوں کار آنکھوں کے حزن کا سبب روشن تھا۔ یہ احساس ہی انسان کو توڑنے کے لیے کافی ہے کہ کٹھن وقت میں آپ کا رفیق جاں آپ کے ساتھ نہیں۔ یہاں تو صورت حال یہ تھی کہ شریکِ سفر پٹڑی بدل کر نئی ٹرین پکڑ چکا تھا۔ آخری عمر میں ساتھ ہوتے ہوئے اکیلے رہ جانا کس قدر اذیت ناک تجربہ ہے اور یقیناً وہ باوقار خاتون اس سفاک حقیقت سے آشنا، تنہائی کی جانکنی کو جھیل رہیں تھیں۔ ایک ہفتے بعد وہ ڈسچارج ہو کر چلیں گئیں ۔ میں نے بشریٰ سے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا مگر ان کا دکھ میرے اندر اُتر گیا۔

گزری برساتوں میں سے ایک برسات دفتر سے واپسی پر پارکنگ ایریا میں جاتے ہوئے ڈرینج کی نالی میں میرا پیر پھنسا اور پھر بائیں پیر کی انگلیوں میں پلستر چڑھوا کر دس دنوں تک میں بشریٰ کی نوازشات سے مستفید ہوتا رہا۔ بشریٰ ناشتے کے بعد مجھے سہارا دیکر ٹیرس پر ترپال کے سائے تلے اخبار سمیت بٹھا دیا کرتی تھی اور میں چائے کے ساتھ ساتھ حال اور احوال (اخبار) سے باخبر ہوتا جاتا۔ میں روزانہ کی بھگڈر میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ اپنے اطراف ہی سے بےخبر تھا۔ مجھے اب پتہ چلا کہ بشریٰ کے ہاتھوں کے لگائے گئے تینوں الٹا اشکوکا کے درخت کسی مستعد سپاہی کی طرح چوکس دوسری منزل کی ہمسری کر رہے تھے اور نیم کے گھنیرے پتے صبح کی نرم روشنی میں خوشی سے چمکتے محسوس ہوتے ہیں ۔ ٹیرس کے ایک سرے پر سہرے کی بیل اور دوسرے سرے پر پھاٹک کی قربت میں چمبلی کی بیل اپنی مست خوشبوؤں سے اطراف کو مشکبار کئے ہوئے تھیں اور صبح کی پر نور ساعتوں میں چڑیوں کی چہکار سے پوری فضا انبساط میں ڈوبی محسوس ہوتی۔ واقعی قدرت کی صناعی و سمفنی کا مقابلہ نہیں۔

آج ٹیرس پر میری چوتھی مجبور صبح تھی اور دروازے پہ بجتی گھنٹی کے ساتھ ہی بےساختہ میری نظریں کلائی کی گھڑی پہ جا رکیں اور۔۔۔۔ ٹھیک نو بج رہے تھے۔
یہ خاکروب کی گھنٹی تھی جو اپنی گدھا گاڑی پر محلے کا کچرا ڈھو کر سب کے نصف ایمان کو کاملیت عطا کرتا تھا۔
وہ درمیانے سے نکلتے قد اور دبتی رنگت کا حامل ایسا ہی بندہ تھا جیسے مفلوک الحال طبقے کا ہر بشر، جن کے الجھے گرد آلود بال، آنکھوں میں جاگزیں حزن اور چہرے پہ پھیلا تفکر نیون سائن کی طرح دور ہی سے جھلملاتا ہے۔
میں دو باتوں کی   بنا پر اس خاکروب کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
پہلی کہ اس کی گدھا  گاڑی کے ساتھ ایک قدرے تند خو آٹھ نو سال کا لڑکا اور ایک پیاری سی میلی کچیلی اپنے حق سے آسانی سے دست بردار ہو جانے والی بچی ہوتی تھی۔ مزے کی بات کے کہ اس گدھے گاڑی کے ساتھ دو دم ہلاتے ہوئے قدرے نحیف سے کتے بھی جو کسی کے جھڑکنے پر دم دبا کر زمین پر لیٹ کر گول ہوتے ہوئے اپنے دونوں کانوں کو سکیڑ لیتے گویا با زبان بے زبانی معافی کے خواستگار ہوں۔ لڑکے اور لڑکی کے کندھوں پر ایک ایک بوسیدہ بوری بھی ہوا کرتی تھی۔

اس کی چونکا دینے والی بات روزانہ ٹھیک نو بجے گھر کی گھنٹی بجانا تھی۔ میں نے بشریٰ سے تصدیق کی اور اس نے بھی یہی بتایا کہ یہ اپنے وقت کا اس قدر پابند ہے کہ آپ اس کی گھنٹی سے اپنی گھڑی ملا سکتے ہیں۔ میں اس کے لہجے کی شائستگی اور کام کے سلیقے سے حیرت میں مبتلا تھا کیونکہ وہ بڑی تمیز سے گھنٹی بجا کر “بی بی کچرا دے دو” کی صدا بلند کرتا اور ہر کچرے کی بالٹی کا اس کے دونوں بچے بڑی جانفشانی سے جائزہ لیتے۔ ری سائیکل چیزیں لڑکا اپنی بوری میں ڈالتا اور سبزیوں کا چھلکا اور بچا کچھا کھانا بچی اپنی بوری میں اور کچرے کی بالٹیوں سے جو چھیچھوڑی ہوئی ہڈیاں نکلتیں اس سے ان دونوں کتوں کی ضیافت ہوتی۔ میں اس قدر مربوط انتظام دیکھ کر حیران تھا۔ کچرے کے ڈبوں سے نکلے ادھ کھائے پھل پر بچی بڑے شوق سے دانت مارتی پر اس کا تند خو بھائی ہمیشہ اس سے جھپٹ لیتا جس پر وہ باپ کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھتی مگر باپ کے نظریں چرانے پر اس کی مزاحمت دم توڑ دیتی اور وہ با آسانی اپنے حق سے دست بردار ہو جاتی۔ مجھے اس کے باپ پر شدید غصہ آتا تھا کہ یہ کیوں بیٹی کو کمزور کر رہا ہے؟ مگر شاید یہی زمانے کا مروجہ چلن اور بنت حوا کا نصیب ہے۔ بہاؤ کے الٹے تیرنا یقیناً جان جوکھم کا کام ہے اور اس پدر سری معاشرے میں غیر مقبول بھی ۔
اس بچی کے پاس ایک ٹانگ والی گڑیا تھی جس کو وہ ہمہ وقت کسی قیمتی متاع کی طرح اپنے سینے سے لگائے رکھتی ۔ ایک دن کسی بات پر دونوں بھائی بہن کی لڑائی ہو گئی اور اس بچے نے گڑیا کی اکلوتی ٹانگ بھی توڑ دی اور مانو کسی قہر کو آواز دے دی۔ ایک سیکنڈ کے لیے بچی بھک کھڑی کی کھڑی رہ گئی پھر کسی ریچھ کی طرح بھائی سے لپٹ کر اس کو بھنبھوڑ دیا اور اس کے جسم پر جھولتا میلا کچیلا جوڑا لیرو لیر کر دیا۔ مجھے بے انتہا خوشی ہوئی کہ اس بچی میں ابھی چنگاری باقی ہے اور میں اپنی ٹوٹی ہوئی انگلیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ٹیرس پر کھڑے ہو کر اس کے لیے تالیاں بجانے لگا۔
اس بچی نے اپنی بے ٹانگوں والی گڑیا کو سینے سے بھینچ کر مسکراتے ہوئے سر اٹھا کر بڑے اعتماد سے مجھے دیکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply