حقیقتِ غم۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

اسلام آباد سے شہباز مظفر لکھتے ہیںٗ عارفوں اور داناؤں نے غم کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ نے بھی لکھا ہے کہ اللہ کے محبوبوں کی خوراک غم ہے، اللہ جسے اپنے نزدیک کرنا چاہتا ہے اسے غم کی دولت دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غم آخر ہوتا تو دُکھ درد ہی ہے، اللہ اپنے محبوبوں کو درد میں کیوں رکھتا ہے؟ ہم انسان تو جسے پسند کرتے ہیں ٗاسے آرام و آسائش اور ناز و نعم میں رکھنا پسند کرتے۔ یہ فارمولہ معرفت کے میدان میں اُلٹ کیوں ہو جاتا ہے؟

سوال انتہائی اہم ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ روح کے تقاضے ٗجسم کے تقاضوں کے اُلٹ کیوں ہوتے ہیں۔ جسم کا تقاضا ہے کہ کھاؤ پیو، پاؤں پسارو، جسمانی جبلت چاہتی ہے کہ لذاتِ وجود میں منہمک رہا جائے۔ اِس کے برعکس روح کا تقاضا کچھ اور ہے، روح چاہتی ہے کہ شکم کو بھوکا رکھو، جگر کو پیاس سے روشناس کرواؤ، وجود کو مشقت و ریاضت سے گزارو، لذاتِ حواسِ خمسہ سے گریز کرو۔ جسم عالمِ خلق کی پروڈکٹ ہے اور رُوح عالمِ اَمر سے نزول کرنے والی ایک حقیقت ہے ۔ خلق اور اَمر ایک دوسرے کا اُلٹ ہیں۔ جسم دیرپا نہیںٗ یہ آغاز اور انجام کے درمیان معلق ہے — یعنی یہ فنا سے متعلق ہے۔ روح کو ایک کنارے کا سمندر کہا گیا ہے۔ روح کا آغاز ہےٗ انجام نہیں۔ روح قدیم تو نہیں لیکن قدیم سے قریب ترین ضرور ہے۔روح بقائے مطلق تو نہیں ٗ لیکن بقا کے آس پاس ہے۔اس عالمِ آب و گل میں انسان کا اس پیکرِ خاکی کی سواری کا ساتھ چند برسوں اور عشروں تک محدود ہے۔ اسے مقابلے میں حضرت ِ انسان کی اپنی روح سے ہمراہی ں بے حد طویل ہے— روح تقریباً لامتناہی وقتوں تک ساتھ دیتی ہے۔

اللہ اپنے بندوں پر رحیم و شفیق ہے، وہ چاہتا ہے کہ اُس کا بندہ اس کے ساتھ عارضی تعلق نہ رکھے ٗ بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کا تعلق قائم کرے۔ اس لیے ترجیحات کے باب میں اُسے اپنے بندے کی روحانی بالیدگی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ جسم ایک دنیائے کثیف کی داستان ہے، روح لطافت کی وادی ہے۔ جسم کثافت سے پُر ہے، روح لطافت کا پیکر ہے۔ اللہ لطیف ہے، وہ لطافت کو پسند کرتا ہے۔ اللہ جمیل ہے ٗ وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ کسی جمال میں جب تک روح کا جلوہ شامل ِ حال نہ ہوٗ کوئی جمال نہ ہوگاٗ قابلِ کشش نہ ہوگا۔ جسم کی کشش کا عارضہ عارضی ہوتا ہے، روح کی قوت جاذبہ مستقل ہےٗ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے!! جسم فانی ہے، روح لافانی۔ روح کا روح سے تعلق قائم ہو جائے تو اِس تعلق کو موت بھی شکست نہیں دے سکتی۔ مرشدِ خیال حضرت واصف علی واصفؒ نے اپنے ایک مضمون “محبت”میں ایک عجب لافانی فقرہ تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں “محبت دو روحوں کی نہ ختم ہونے والی باہمی پرواز ہے”

زبانِ صادق ؐ نے خالق و مالک کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ستّر ماؤں سے زیادہ شفیق ہے۔ ماں کی محبت انسانی فہم میں ایک ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ ماں کے متعلق یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی تکلیف میں دیکھے، لیکن یہی ماں اپنے بچے کی بہتری کے لیے اسے انجیکشن لگواتی ہے، وہ جانتی ہے کہ حفاظتی ٹیکوں سے بخار ہو جاتا ہے لیکن وہ خود جا کر بچے کو ٹیکہ لگواتی ہے، بسا اوقات وہ بچے کا آپریشن تک کروا دیتی ہے، یعنی اپنے معصوم بچے کا پیٹ بھی کھلوا دیتی ہے۔ کم فہم اور لاتعلق مخلوق یہی گمان کرے گی کہ ماں کو بچے پر ذرا ترس نہیں آتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ضد کرتا ہے، چاقو اور دیا سلائی سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے، ماں فرطِ محبت میں اس کے رخسار پر ایک طمانچہ رسید کرتی ہے ، اور اپنے لختِ جگر سے اس کے دل پسند کھلونے چھین کر کسی ایسی جگہ چھپا دیتی ہے جو اس کی دسترس سے باہر ہو۔ بچہ دن چڑھے دیر تک سونا چاہتا ہے، اپنے بہن بھائیوں کے درمیان “خوش و خرم” رہنا چاہتا ہے لیکن ماں ہر روز اُس پر یہ عجب “ظلم” ڈھاتی ہے کہ صبح سویرے اُسے نرم گرم بستر سے اپنے پہلو سے جدا کردیتی ہے، روتے ہوئے بچے کا ہاتھ منہ دھلوا کر بستہ اُس کے ہاتھ میں دیتی ہے اور خود اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔ بچہ گھر سے باہر جانے پر راضی نہیں ہوتا ،لیکن وہ اپنے لاڈلے کی ایک نہیں سنتی۔ روز مرہ ڈسپلن سکھانے کے لیے اگر اسے دھول دھپا کرنا پڑے ٗ تو وہ سراپا ناز یہ شیوہ بھی اختیار کر لیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اِسے جانور سے اِنسان بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اِسے اِس کی من چاہی زندگی نہ گزارنے دی جائے۔ ایک بچے ایسا شعور رکھنے والا ماں کے اِس عمل کو محبت کے منافی تصور کرے گا، لیکن ماں کی محبت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بچے سے اُس کی مرضی چھین لے ٗاور اُس پر اپنی مرضی مسلط کر دے۔ یہاں غم کی ایک جامع تعریف بھی سمجھ میں آتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں “اللہ کی مرضی اور بندے کی مرضی کے درمیان فرق کا نام غم ہے”

باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشادِ گرامی ہے : من عرفت ربی بفسخ العزائم” میں نے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا”۔ گویا وہ شخص جسے معرفت کے سفر کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے اُس کے ارادے قدم قدم پر ٹوٹیں گے، جب اس پر اپنے ارادے کا پردہ چاک ہو گا تو حجاب اُٹھے گا اور وہ اپنے رب کے ارادے کو پہچان پائے گا۔ رب کے ارادے کو پہنچاننا دراصل رب کی مشیت کو پہچاننا ہے۔ معرفت مشیت آشنائی ہی تو ہے۔ مرشد نے تصوف کی ایک تعریف یہ بھی کی “تصوف دراصل اپنی زندگی میں اللہ کے عمل کو دریافت کرنا ہے” یعنی جب ہم اپنی زندگی میں اپنی مرضی کا عمل چھوڑ دیتے ہیں تو ہم پر اُس کا ارادہ اور عمل منکشف ہوتا ہے۔

خوشی میں تصنع ہو سکتا ہے ، غم کبھی مصنوعی نہیں ہوتا ۔ خوشی انسان کو باہر کی دنیا سے متعارف کرواتی ہے اور غم اسے اندر کی دنیا کی راہ دکھاتا ہے، اور یہی اندر کی دنیا دراصل حقیقی دنیا ہے۔ رب اندر کی دریافت ہے۔ ظاہرٗ جلوۂ صفات ہے — باطنٗ خلوت کدۂ ذات!! غم انسان کو اپنے آپ سے متعارف کرواتا ہے۔ جسے اپنا تعارف میسر آ گیا ٗاسے اپنے رب کی معرفت کا راستہ مل گیا۔ مسکراہٹ، ہنسی، قہقہہ سب نقلی ہو سکتے ہیں، لیکن غم ہمیشہ اصلی ہوتا ہے—— اشیاء کی اصل تک لے جاتا ہے۔ غم میں انسان خود کو بھی پہچان لیتا اور اپنے ارد گرد انسانوں کو بھی جان لیتا ہے۔ خوشی میں شریک یاد نہیں رہتے، غم کے شریک یاد کا حصہ بن جاتے ہیں۔ غم کے جہان میں سب سے بڑا غم ٗغمِ جاناں ہوتا ہے۔ غمِ جاناں ٗغمِ دوراں بھلا دیتا ہے۔ بہرطورٗ غمِ جاناں ہو یا غمِ دوراں ٗ داستانِ غم اپنے محبوب کی مرضی سے عدم رضا کا باب ہے۔ دل میں درد ہو یا پیٹ میں ٗ آنسو ایک جیسے ہوتے ہیں — اور آنسو وہ موتی ہے جسے شانِ کریمی خود چن لیتی ہے۔ اب اس میں راز یہ ہے کہ اللہ کے چنیدہ بندے اس کی مرضی پر لبیک کہتے ہیں، عدم موافقت کو درمیان سے اُٹھا دیتے ہیں اور یوں غم سے نجات کا مژدہ پاتے ہیں۔ بات تعلق کی ہے، تعلق قائم ہو تو غم ٗغم نہیں رہتا۔ دوست سے موصول ہونے والا ہر پیغام ٗپیغامِ محبت ہی سمجھا جاتا ہے۔
ہے بات تعلق کی، تعلق ہو تو واصفؔ
مائل بہ کرم ہوں یا ستم، اُن کا کرم ہے

ربِ ذوالجلال اپنے کلام میں فرماتا ہے : وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ “اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟” رونا پسند کیا گیا ہے۔ خاموش آنسو کی قیمت کسی کھنکتے ہوئے قہقہے سے زیادہ ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے ” زیادہ نہ ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

ہنسنی غفلت ہے، غم بیداری ہے۔ غم دل کی غذا ہے۔ اِس سے منہ نہیں موڑنا نہیں چاہیے۔ غم خود شناسی کا ایک آسان راستہ ہے۔ غم غفلت سے نجات دینے کا ذریعہ ہے۔ مرشدِ خیال فرمایا کرتے کہ غم فقیر بنانے والا ایک ایمرجنسی کمیشن ہے، کہا جاتا ہےٗ بھئی ! یہ بندہ زیادہ عبادت نہیں کرسکتا، اسے فقیری عطا کرنی ہے، چلو ٗ اسے فوری طور پر غم سے گذار دو۔ دراصل اللہ کریم اپنے بندوں کو غم سے نہیں ٗ بلکہ آزمائش سے گزارتا ہے—— اور آزمائش رب کا اپنے بندوں کو انعام عطا کے ایک جواز کا نام ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply