• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اشیاء خوردونوش ہی نہیں واٹر فلٹریشن پلانٹ سے ملنے والا صاف پانی بھی مہنگا ہونے جا رہا ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

اشیاء خوردونوش ہی نہیں واٹر فلٹریشن پلانٹ سے ملنے والا صاف پانی بھی مہنگا ہونے جا رہا ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

عرصہ ہوا کہ راقم نے گوشت ، پھل اور دودھ کی قیمتوں میں اضافہ پر کُڑھنا اور دل جلانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اِس کا آسان حل یہ ہے کہ ان کا استعمال ترک کر دیا جائے۔ لیکن زندہ رہنے اور جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے آٹا، سبزی، دالیں، چینی، چاول، گھی (خوردنی تیل) لازمی عناصر ہیں۔ ان میں ہونےوالی مہنگائی کا مطلب یہ ہے کہ پھر زندہ رہنے کی عادت ترک کرتے ہوئے مرنا پڑے گا جو کسی کو بھی منظور نہیں ہو گا۔ کوئی ہے جو اس نااہل اور جھوٹی حکومت کو بتائے کہ پچھلے کچھ دنوں میں ہی لاہور میں آٹا 40 روپے سے بڑھ کر 80 روپے کلو، تندوری روٹی فی عدد 6 روپے سے بڑھ کر 12روپے، چینی 75 روپے سے بڑھ کر 100 روپے کلو، فارمی انڈے 125 روپے سے بڑھ کر 165 روپے درجن (آج کا ریٹ 195 روپے درجن) اور ٹماٹر 50 روپے سے بڑھ کر 160 روپے کلو ہو چکے ہیں؟- تصدیق شدہ اعداد و شمار کے مطابق آٹے کی قیمت میں گذشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں اس سال ستمبر تک 50 سے 60 فیصد اضافہ ہوا، چینی کی قیمت میں 20 سے 30 فیصد، دال مسور کی قیمت میں 25 فیصد، مونگ کی دال میں 40 فیصد سے زائد، دال ماش کی قیمت میں 30 فیصد سے زائد، کوکنگ آئل کی قیمت میں 10 فیصد، خشک دودھ کی قیمت میں پانچ فیصد، گوشت کی قیمتوں میں تقریباً 10 فیصد، دودھ کی قیمت میں 10 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا اور چاول کی قیمت بھی 10 فیصد سے زائد بڑھ چکی ہے۔ یاد رہے کہ برائلر چکن، انڈوں، ٹماٹر، پیاز اور پھلوں کی قیمتیں سیزن کے آف اور آن ہونے کے بعد بڑھتی گھٹتی ہیں تاہم سپلائی چین میں تعطل ان کی قیمتوں کو خراب کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔مگر پچھلے 73 سالوں میں یہ پہلی حکومت ہے جس کے دور میں عین سیزن کے بیچ میں بھی سبزی اور پھلوں کی قیمتیں آسمان کو چھوتی رہیں۔

غذائی اشیا کی قیمتوں میں اس اضافے کی وجہ اگر سپلائی چین میں تعطل، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور حکومت کی بدانتظامی کو نہ قرار دوں تو راقم کو سمجھائیے کہ کسے کہا جائے؟۔ میڈیا چیخ چیخ کر رپورٹنگ کرتا رہا تھا کہ زندگی کی بنیادی اشیائے ضروریات کی سپلائی چین میں بہت زیادہ تعطل آ رہا ہے جس سے قیمتوں میں شدید اضافہ متوقع ہے مگر ہمارے حکمران آنکھوں پر پٹی باندھ کر سوئے رہے۔ سبزی کو ہی لے لیجیے ،کہ ٹماٹڑ، ادرک، لہسن کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی ایک ہی وجہ رسد میں بہت زیادہ تعطل آنا تھی جبکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ اُن کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ ہے۔ جیسے ہی ان اشیاء کی قیمتوں میں سپلائی چین میں تعطل آنے کی وجہ سے تھوڑا سا اضافہ ہوتا تو ذخیرہ اندوز فوراً سے پہلے ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں اور اس دوران تحریک انصاف حکومت پنجاب میں اربعین واک کرنے والوں کے خلاف مقدمات کے اندراج کرنے اور خواتین عزاداروں کی مردانہ پولیس کے ہاتھوں گرفتاریاں کروانے میں مشغول رہتی ہے۔اس سے بڑھ کر حکومت کی نااہلی کیا ہو گی کہ اس سال تقریباً  چار پانچ سال کے بعد انڈوں اور دودھ کی قیمتوں میں اضافہ بھی حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ آٹے اور چاول جیسی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ زرعی شعبے کا مسلسل نظر انداز ہونا بھی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر حکومت ایسے ہی سوئی رہی تو مستقبل قریب میں گندم کی فصل کی پیداوار میں مزید کمی آئے گی جس کی وجہ سے اُس کی ذخیرہ اندوزی میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔ حکومت کی طرف سے گندم اور چینی کی بیرون ممالک سے درآمد میں تاخیر میں روا رکھی جانے والی بہت زیادہ دیر بھی اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ اگرحکومت اجناس کی رسد و طلب کا صحیح اندازہ لگا کر اُن کی درآمد کا فیصلہ بر وقت کر لیتی تو عوام کو اس قدر مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

ضروری غذائی اشیاء کی اب اگر درآمد ہو بھی رہی ہے تو ان کی قیمتوں کو واپس معمول پر لانے میں انقلابی اور پرفیکٹ منصوبہ بندی کی ضرورت ہو گی جس کے لئے یہ حکومت نا اہل ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب سے یہ سلیکٹڈ حکمران عوام پر مسلط کئے گئے ہیں تب سے کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب مہنگائی میں کمی کے حوالہ سے کوئی خبر آئی ہو۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی وزارت کے دوران مہنگائی کو 4 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیا۔ اُن کا یہ بیان غلط ہے یا صحیح، اس پر پھر تجزیہ کر لیں گے مگر یہ جان لیں کہ مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے والے سرکاری ادارے وفاقی ادارہ شماریات نے ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں 9.04 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا جو اگست کے مہینے میں 8.02 فیصد تھی۔پاکستان میں مالی سال 2018-19ء میں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 6.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو مالی سال 2019-20 ءکے اختتام پر 10.7 فیصد کی شرح پر بند ہوئی۔اب یہ سال 2020-21ء میں کس سطح پر ختم ہو گی، اِس کا سوچ کر ہی جھرجھری آ جاتی ہے۔ سوائے اپوزیشن کو دبانے اور اُن کے خلاف بیان بازی کرنے کے ملک بھر میں حکومت کا کنٹرول کہیں نظر نہیں آ رہا۔ نہ تو یہ حکومت مانیٹری پالیسی زمینی حقائق کے مطابق ڈھال کر کاروباری سرگرمیاں بڑھا سکنے کے اہل نظر آتی ہے اور نہ ہی مہنگائی کو قابو میں رکھنے کا ہنر اسے آتا ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جب بھی وزیر اعظم عمران خاں بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اور اُن کی کمیابی پر نوٹس لینے کا اعلان کرتے ہیں، ویسے ہی یہ اشیاء مزید مہنگی بھی ہو جاتی ہیں اور کمیابی بھی مزید بڑی قلت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مہنگائی سے شدید ستائے لوگ تو اب یہ کہتے ہیں کہ اگر عمران خاں کسی معاملہ میں نوٹس نہ لیا کریں تو وہ عوام کے لئے زیادہ بہتر ہو گا۔

مہنگائی جانچنے کا پیمانہ کنزیومر پرائس انڈیکس ہے جسے عام طور پر سی پی آئی کہا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کے ذریعے مہنگائی کی شرح کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے اعداد و شمار کے مطابق ایک پاکستانی اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے، 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر، تقریباً سات فیصد ہوٹلنگ، تقریباً چھ فیصد نقل و حمل، چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ اس حکومت کے 2 سالہ دور میں میاں بیوی اور بچوں سمیت 4 سے 5 افراد پر مشتمل چھوٹے سے خاندان کے گھی، چینی، آٹا، چاول، دالیں اور کچھ دوسری اشیاء مثلاً  مصالحوں وغیرہ پر اٹھنے والے ماہانہ اخراجات حالیہ دنوں میں لگ بھگ 8 ہزار سے بڑھ کر ایک ہی جست میں تقریباً 13 ہزار تک جا پہنچے ہیں۔پھر یاد دلاتا چلوں کہ ان میں دودھ، دہی، انڈوں اور گوشت کے اخراجات شامل نہیں جن کی قیمتیں بھی پچھلے 2 سالوں کے دوران بہت بڑھ چکی ہیں۔ جب یہ ساری قیمتیں بڑھ رہی تھیں اور میڈیا سمیت عوام دہائی دے رہے تھے کہ مہنگائی سے لوگ پِس رہے ہیں تو اُس وقت حکومتیں کہاں سو رہی تھیں؟۔ کیوں انہوں نے اس سنگین صورتحال کے تدارک کے لئے مؤثر اقدامات نہیں کئے؟۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ زندہ رہنے کے لئے ان تمام ضروری بنیادی اشیاء کےیکا یک اتنا زیادہ مہنگا ہونے کا مطلب غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھین لینے کے برابر ہے؟۔ غریب عوام کے منہ سے حکمرانوں کے زیر سایہ پلنے والے یہ سرمایہ داران اگر روٹی بھی چھین لیں گے تو انجام اُن کا بھی اچھا نہیں دکھائی دے رہا۔

ان بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اب ایک اور بری خبر یہ ہے کہ پینے والا فلٹر واٹر سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنی قیمتوں میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ جس طرح زندہ رہنے کے لئے آکسیجن انتہائی ضروری ہے ویسے ہی پانی بھی اہم ہے اس کے بغیر بھی کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا یہی وجہ ہے کہ موجودہ وقت میں پانی کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک نے پانی کو ذخیرہ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاکہ پانی کی کمی کی صورت میں اِس کو استعمال میں لایا جاسکے ،پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز کی رپورٹس کے مطابق پانی کا مسئلہ “واٹر بم” بنتا جارہا ہے۔ سی پی آر ڈبلیو آر کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2025ء تک ملک بھر میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے ملک بھر میں دستیاب 142 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 42 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال ہورہا ہے باقی 100 ملین ایکڑ فٹ پانی مختلف طریقوں سے ضائع ہورہا ہے ۔ پینے کے قابل پانی کی کمی بڑھتی چلی جارہی ہے، جوپانی دستیاب ہوتا ہے وہ آلودہ ہونے کی وجہ سے انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کا 80 فیصد پانی آلودہ ہے۔ مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت ہی ہوگا۔ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کے لوگوں کو بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ خاص طور پر پینے کا پانی آلودگیوں سے پاک نہیں  ہے، جس کی وجہ سے آج شہر وں کے تقریباََ 95فیصد لوگ پینے کے لئے واٹر فلٹریشن پلانٹ سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں صاف پانی کی فراہمی کے لئے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے تھے جن کی اکثریت سیاسی مخالفتوں کی بھینٹ چڑھ کر بند پڑے ہیں اور جو چند ایک چل رہے ہیں ان کےفلٹرز انتظامیہ نے کبھی تبدیل نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اتنے عرصے سے ان پلانٹس کی کوئی صفائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے فلٹرز بدلے گئے جس کی وجہ سے لاکھوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے واٹرفلٹریشن پلانٹ صحت کی بجائے بیماریا ں بانٹنا شروع ہو گئے۔مختلف سرکاری عمارتوں کے واٹرفلڑیشن پلانٹس کی ٹونٹیاں، موٹریں اور جنگلے تک چوری ہوگئے جبکہ واٹرفلڑیشن پلانٹ کے کمروں پر منشیات کے عادی افراد نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ سرکاری سطح پر لگائے گئے واٹرفلڑیشن پلانٹ بند ہونے سے متبادل کے طور پر عوام کو نجی طور پر چلائے جانے والے کاروباری واٹر فلٹر پلانٹس کی طرف رجوع کرنا پڑا۔

اب سے 2 سال پہلے سپریم کورٹ کی طرف سے نیسلے، ایکوا فینا، گورمے، کیکس & بیکس اور دُوسے وغیرہ جیسی بڑی کمپنیوں سمیت گلی محلوں میں ریورس اوسموسس (آر -او) واٹر فلٹریشن پلانٹس لگانے والوں کو واٹر & سینی ایشن ایجنسی کی طرف سے مفت یا سستے داموں پانی سپلائی مہیا نہ کرنے کی رولنگ جاری ہونے کے بعد یا تو محکمہ نے سپلائی جاری رکھنے کے لئے رشوت کے ریٹس بڑھا دئیے ہیں یا پانی سپلائی کے اوپر میٹر لگانے کا اعلان کیا ہے جس پر فی لٹر 2 روپے تک کے چارجز لینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔عوام سے کسی بھی طریقہ سےے پیسے بٹورنے کی عادی حکومت کی اس پالیسی کا نقصان واٹر فلٹریشن والوں کو تو ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ وہ قیمتوں میں اس اضافہ کو عام آدمی پر منتقل کرتے ہوئے 19 لٹر پانی کی بوتل کی فلنگ میں اضافہ کر دیں گے۔ یاد رہے کہ واٹر فلٹریشن پلانٹ سے پانی سپلائی کرنے والی بڑی کمپنیاں نیسلے اور اقوایکوفینا تو پہلے ہی 19 لٹر کی بوتل 225 روپے میں فلنگ کر کے دیتی ہیں جبکہ گورمے، کیکس & بیکس اور دوسے وغیرہ سے یہی بوتل 110 روپے میں فلنگ کر کے مل جاتی تھی۔ دوسری طرف نجی طور پر چلنے والے کاروباری آر او واٹر فلٹریشن پلانٹ سے ملنے والا پانی اپنی کوالٹی میں نیسلے اور ایکوافینا یا گورمے، دوسے وغیرہ کے ہم پلہ ہی ہوتا ہے۔ ان فلٹر پلانٹس سے لاہور میں 19 لٹر پانی والی بوتل پہلے جب واٹڑ فلٹریشن پلانٹ سے بھرواتے تھے تو اُس کےلئے 50 روپے لگا کرتے تھے۔ پھر عمران خاں حکومت کے آتے ہی اس کی قیمت 60 روپے کر دی گئی جبکہ گزشتہ سال سے یہ قیمت 70 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ لاہور میں واسا حکام کی طرف سے واٹر فلٹریشن پلانٹ کو پانی کی سپلائی 2 روپے فی لٹر کرنے کی منصوبہ بندی اگر لاگو ہو گئی تو یہی بوتل کم از کم 100 روپے تک ملا کرے گی۔جبکہ نیسلے، ایکوافینا، گورمے، دوسے، کیکس & بیکس وغیرہ اپنے صارفین کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں، اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں نجی طور پر آر او واٹر فلٹریشن چلانے والے کئی مالکان سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا ہے کہ یہ پالیسی صرف واسا لاہور میں ہی لاگو نہیں کر رہی بلکہ اس کا اطلاق پورے ملک میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک سال پہلے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک روپے میں ایک لٹر پانی فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر ) کے ٹیسٹ سے پتا چلا کہ پاکستان میں منرل واٹر بنانے والی 83 فیصد کمپنیاں پینے کا غیرمحفوظ پانی فراہم کر رہی ہیں۔ اُن کی وزارت نے ملک بھر میں ہر تحصیل سے پانی کے نمونےلے کر مختلف جگہوں پر موجود پانی کے مسائل کا پتہ چلایا تھا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے وزارت نے ہم ہر جگہ کے حساب سے الگ فلٹریشن پلانٹ بنانے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ یہ پلانٹس بنا کر وزارت نے عام لوگوں کے گھروں میں لگانے کا عندیہ دیا تھا۔ اس پراجیکٹ کی کامیابی ہونے کی صورت میں نیسلے اور ایکوافینا جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بہت نقصان ہونا تھا۔ اس لئے وفاقی وزیر کے اس اعلان کے بعد اس منصوبہ پر کیا ہوا، کسی کو خبر نہیں ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں صحت کے بجٹ کا 70 فیصد پانی سے متعلق امراض پہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بھی طرح حکومت عوام کو صاف پانی دینے میں کامیاب ہو جائے تو اِس کی وجہ سے ہمارا نظام صحت کافی بہتر ہو سکتا ہے جس کا ہمارے  ہسپتالوں پر بہت مثبت اثر پڑے گا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا یہ مجوزہ منصوبہ معلوم نہیں کہ کب کامیاب ہو گا مگر تب تک حالت یہ ہے کہ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا 80٪ زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی غیر معیاری پانی کی فروخت میں ملوث مافیا زیر زمین پانی نکال کر اسے منرل واٹر کی پیکنگ میں پیک کرنے کے بعد شہر کے بڑے سپر سٹورز اور د کانوں پر سپلائی کر رہے ہیں جہاں سے یہ پانی شہریوں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ مختلف علاقوں میں عام موٹر سے زیر زمین غیر معیاری پانی نکال کر اس میں کیمیکل ڈالا جاتا ہے اور اسے منرل واٹر کا نام دیکر شہر وں میں جگہ جگہ سپلائی کیا جاتا ہے ۔ ۔اس کاروبار میں ملوث افراد نے گھروں کے اندر واٹر فلٹریشن پلانٹ کے چھوٹے چھوٹے یونٹ بنا رکھے ہیں ۔متعلقہ محکمے چیکنگ کرنے کی بجائے صرف خانہ پوری کرتے ہیں ۔ محکمہ کوالٹی کنٹرول اور فوڈ اتھارٹی دونوں ہی ملک بھر میں غیر معیاری پانی کی فروخت اور سپلائی ختم کرنے میں ناکام ہیں۔فوڈ اتھارٹی اگر کسی واٹر پلانٹ پر چھاپہ مار کر اسے سیل کرتی بھی ہے تو واٹر پلانٹ چلانے والا مافیا شہر میں موجود واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری کے عملے کو پیسے دیکر پانی کا سیمپل کلیئر کرا لیتے ہیں اور دوبار ہ سے غیر معیاری پانی کی شہر میں سپلائی شروع کر دیتے ہیں۔غیر معیاری واٹر پلانٹس سے شہری پیٹ کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں لیکن تمام متعلقہ محکمے غیر معیاری پانی کو منرل واٹر کا نام دیکر بیچنے والے مافیا کے سامنے بے بس ہیں۔عوام کو ان مسائل سے کب چھٹکارا ملے گا، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ حکومت میں عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں ہے، بیوروکریسی اور مقتدرہ یہ مسائل حل کروانا ہی نہیں چاہتی اور اپوزیشن مہنگائی کے خاتمہ اور پینے کے پانی کی کم یابی جیسے عوامی مسائل حل کروانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی بجائے اپنے اوپر درج کیسوں کے خاتمہ کی طرف ہی متوجہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply