اخلاص، اخلاص اور اخلاص/ڈاکٹر اظہر وحید

ایک دیرینہ قاری کا سوال موصول ہوا۔ سوال انتہائی اہم ہے۔ سوال اور اس کا جواب یا پھر جواب نما تاثرات اپنے دیگر قارئین کے ذوق و شوق کی نذر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سوال ہے ”میں اللہ کے لیے اپنا خالص پن کھو دیتا ہوں، مجھ میں کھوٹ بہت ہے، اس کھوٹ کو کیسے کم یا ختم کیا جا سکتا ہے“۔
سچی بات تو یہ ہے کہ کسی فانی انسان کے لیے بھی خود کو خالص کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے…… کجا یہ کہ قائم دائم اور حی و قیوم ذات کے لیے خود کو خالص کرنا۔ بالعموم انسان کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ میں مخلص ہوں، خالص ہوں، لیکن اگر میزانِ اخلاص میں خود کو تول کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو گا کہ انسان کس قدر خسارے میں ہے۔ بندہِ اخلاص اور ہے اور بندہِ اغراض اور! بندہِ اغراض بالعموم بندہِ نفاق ہوتا ہے۔
اخلاص ایک ایسے ناتے کا نام ہے جس میں کوئی چور دروازہ نہ رکھا جائے، اور اس کے برعکس خود غرضی اپنے ناتوں میں چور دروازے ڈھونڈنے کا نام ہے۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ تعلق میں اپنا ذاتی مفاد نہ رکھا جائے۔ اخلاص کی ایک تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ اخلاص اپنے مفاد اور مزاج کی نفی کا نام ہے۔
جہاں تک کھوٹ کی بات ہے، اپنے من کی کھوٹ کا علم ہو جانا بھی رب کا ایک فضل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رب کی ذات جس پر مہربانی فرماتی ہے، اس پر اُس کے نقائص و عیوب کھول دیتی ہے۔ یعنی وہ بندوں میں عیب ڈھونڈنے کے بجائے اپنے اعمال و کردار میں عیب تلاش کرتا ہے۔ ہماری میڈیکل اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ تشخیص آدھا علاج ہوتا ہے۔
چاہیے کہ انسان اپنے کاموں میں اخلاص سے کام لے، اور جہاں دیکھے کہ اس کے تعلق میں کسی ذاتی مفاد کی نقب لگنے لگے، وہیں چوکنا ہو جائے۔ اخلاص کا عمل نیت سے شروع ہو جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنی نیت کی جانچ پڑتال کرتے رہنا چاہیے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کہتے ہیں: ”اللہ کے دوست نیت کی پاکیزگی کے بغیر کوئی عمل نہیں کرتے۔ اُن کے اعمال اچھی نیّات کی وجہ سے درست ہیں“۔ اللہ کے لیے خالص ہونے کی تمنا بھی ایک خوش نصیبی ہے۔ یہ تمنا ہی مبارکباد کے لائق ہے۔
اخلاص ایک خوشبو ہے…… یہ روح کی خوشبو ہے۔ جب انسان اپنے مادّی مزاج اور مفاد سے خود کو پاک کر لیتا ہے تو یہ خوشبو اُس کے رگ و پے میں اُتر جاتی ہے اور بالآخر اس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے، گاہے گاہے عود کر باہر بھی آ جاتی ہے۔ اس کے بعد جس میں جتنا اخلاص ہوتا ہے، وہ اس سے اتنا ہی شناسا ہو جاتا ہے۔ اخلاص کو اپنا تعارف کرانے کی چنداں ضرورت پیش نہیں آتی۔ اخلاص تو خود میں مگن ہے، وہ اپنی خوشبو میں خود ہی سرمست ہے۔ کسی
خود مست اور خدا مست کو باہر کی مدح و ذم سے کچھ سروکار نہیں رہتا۔ اس کا اپنا وقت ہے، وہ اپنے وقت میں سرمست ہے۔ اسے باہر کا وقت اور موسم کچھ پریشان یا پشیمان نہیں کرتا۔
اخلاص ایک پاکیزگی ہے، پاکیزہ لوگ ہی اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ پاک وہ ہے جو مفاد سے پاک ہے اور ناپاک وہ جو اپنی اغراض میں لتھڑا ہوا ہے۔ اخلاص ایک ایسا طاہر و مطہر دُرِّمکنون ہے کہ صرف مطہرون کو اسے مس کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جاتی ہے۔
دنیا کی نظر میں مخلصین ناکام ہیں اور خود غرض کامیاب، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مخلصین کامیاب نہیں بلکہ کمیاب ہوتے ہیں۔ اخلاص نایاب ہے اور مخلصین کمیاب۔ کامیابی اور ناکامی سے بے نیازی ہی مخلصین کو درجہئ اخلاص تک لے جاتی ہے۔ مخلص اپنے مقصد سے مخلص ہوتا ہے، یا پھر مقصد دینے والی ذات سے۔
اخلاص اور اخلاق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ شخص جو اخلاص سے دور ہے وہ اخلاق سے بھی دور ہوتا ہے۔ محرومِ اخلاص جس ”اخلاق“ کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ محض معاشرتی روابط کا ایک ہنر ہوتا ہے۔ اخلاق کسی معاشرتی نارم میں خود کو ڈھالنے کا نام نہیں بلکہ فی سبیل اللہ مخلوق کے لیے متواضع ہو جانے کا نام ہے۔
اخلاص اور احسان معنوی اعتبار سے ہم مشرب و ہم مسلک ہیں۔ احسان کرنا صرف ایک مخلص بندے کی استعداد ہوا کرتی ہے۔ کسی مفاد کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والا کسی پر احسان نہیں کر سکتا۔ اس کا احسان کاروبار کی ایک شکل ہوتی ہے، وہ کسی پر ”احسان“ اس امید پر کرتا ہے کہ کل کلاں یہ میرا احسان سود سمیت واپس کرے گا۔ جس طرح احسان فی سبیل اللہ ہوتا ہے، اسی طرح اخلاص کی اصل بھی فی سبیل اللہ ہوتی ہے۔
اللہ خالص اللہ ہے…… اُس میں بندگی و احتیاج کا کوئی شائبہ نہیں۔ بندہ جب تک خالص بندہ نہ بنے بات نہیں بنتی۔ راہِ اخلاص دراصل راہِ محبت ہے۔ بندہئ اخلاص بندہئ عشق ہوتا ہے۔ محب کی نگاہ میں محبوب کی ذات کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہوتا، وہ محبوب کی دید کو کل پر نہیں ٹالتا۔ راہِ طلب میں ایک بندہ جس کا دعویٰ اخلاص اور بندگی ہو، وہ اپنے رب کا حکم کل پر کیسے ٹال سکتا ہے؟
بندہ اپنے رب کی بندگی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن وہ بندگی میں بھی کہاں پورا اُتر سکتا! بندہ محتاج ہے، رب بے نیاز ہے۔ بندے کی دنیا جائے کثرت ہے، اُس کا رب وحدت میں عرش نشیں ہے۔ کثرت میں رہنے والا ہمہ حال متوجہ نہیں رہ سکتا۔ کثرت کے بچھونے پر اسے کبھی نیند آ جاتی ہے اور کبھی بھوک کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔ وحدت نشیں کے لیے نہ نیند ہے نہ اونگھ، وہ کھاتا نہیں بلکہ کھلاتا ہے، وہ ہر احتیاج سے بالا ہے، ہر سبب سے بے نیاز ہے، ہر نتیجہ اس کا من چاہا ہوتا ہے، سبب کچھ بھی ہو نتیجہ اس کی منشا کے مطابق ہی برآمد ہوتا ہے۔ سائیں شاہ حسینؒ کہتے ہیں:
من اٹکیا بے پروا دے نال
یہی وارفتگی اقبالؒ پر وارد ہوتی ہے تو یہ من موہنی بات یوں سننے کو ملتی ہے:
تُو ہے محیطِ بیکراں، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر، یا مجھے بے کنار کر
ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے اخلاص ہی صبغۃ اللہ ہے…… یہ ہے وہ احسن ترین رنگ جسے اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اللہ اور اس کا بندہ اسی ایک رنگ میں ایک دوسرے سے ہمراز ہوتے ہیں۔ اخلاص کے بغیر اپنے رب سے مکالمہ ممکن نہیں۔ اخلاص سے دُور انسان دعا کے پردے میں اپنی حاجات و خواہشات ہی بیان کرتا رہتا ہے، وہ گفتگو نہیں کر سکتا۔ بس خالص اللہ کو خالص بندے درکار ہیں۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اخلاص ایک حجام سے سیکھا۔ میں اس وقت مکہ معظمہ میں تھا، وہ حجام کسی رئیس شخص کے بال بنا رہا تھا۔ میرے مالی حالات نہایت شکستہ تھے۔ میں نے حجام سے کہا: ”میں اُجرت کے طور پر تمہیں ایک پیسہ نہیں دے سکتا، بس تم اللہ کے لیے میرے بال بنا دو“ میری بات سنتے ہی اس حجام نے رئیس کو چھوڑ دیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا۔ تم بیٹھ جاؤ! مکے کے رئیس نے حجام کے طرزِ عمل پر اعتراض کیا تو وہ معذرت کرتے ہوئے بولا: ”جب اللہ کا نام اور واسطہ درمیان میں آ جاتا ہے، تو میں پھر سارے کام چھوڑ دیتا ہوں“ حجام کا جواب سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا۔ اس نے میرے قریب آ کر میرے سر پر بوسہ دیا اور بال بنانے لگا، اپنے کام سے فارغ ہو کر حجام نے مجھے ایک پڑیا دی جس میں کچھ رقم تھی۔ ”اسے بھی اپنے استعمال میں لائیے“ حجام کے لہجے میں بڑا خلوص تھا۔ میں نے رقم قبول کر لی اور اس کے ساتھ یہ نیت کی کہ مجھے جو پہلی آمدنی ہو گی وہ حجام کی نذر کروں گا۔ پھر چند روز بعد جب میرے پاس کچھ روپیہ آیا تو میں سیدھا اس حجام کے پاس پہنچا اور وہ رقم اسے پیش کر دی۔ ”یہ کیا ہے؟“ حجام نے حیران ہو کر پوچھا۔ میں نے اس کے سامنے پورا واقعہ بیان کر دیا۔ میری نیت کا حال سن کر حجام کے چہرے پر ناگواری کا رنگ بھر آیا۔ وہ کہنے لگا ”اے بھلے آدمی! تجھے شرم نہیں آتی! تُو نے اللہ کی راہ میں بال بنانے کو کہا تھا اور اب کہتا ہے کہ یہ اس کا معاوضہ ہے۔ تُو نے کسی بھی مخلص مسلمان کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کام کرے اور پھر اس کی بھی مزدوری لے“۔ حضرت جنید بغدادیؒ اکثر فرماتے تھے، میں نے اخلاص کا مفہوم اسی حجام سے سیکھا ہے۔
انسان کی قدر اس کے درجہئ اخلاص سے متعین ہوتی ہے۔ ایک مخلص بندہ جہاں ہے، جس حالت میں ہے قابلِ تعریف بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ اخلاص صفات کی دنیا میں ذات کی خوشبو ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply