خدا مرتا نہیں۔۔زکی مرزا

جو آیا اس نے اپنے گھروندے کی طرف لوٹنا بھی ہے۔ کہانی شروع ہوتی ہے اور کہانی کا اختتام بھی ہوتا ہے۔ کچھ کہانیاں بڑے کردار جنم دیتی ہیں کہ وہ کہانیاں ان کرداروں کی وجہ سے کلاسک کا مرتبہ پا لیتی ہیں۔ انسان بھی خدائی کہانی کا کردار ہوا کیے۔

اس طویل کہانی میں کتنے بڑے بڑے کردار آئے۔ادب، سائنس، معاشیات، معاشرت، نفسیات و فلسفے کے نابغہ روز گار آئے کہ عقل کے منطقی نقط آخر تک کئی محترم ہو کر گزر گئے۔ دنیا کا یہ چھوٹا سا گولہ جس کا سیاق و سباق کائنات کی اتھاہ بے قرار وسعت ہے میں “میں” ایک کردار۔ عقل کے اطمینان خیال کے لیے عقل کو دلیل ہی کی ضرورت پڑی۔ پختہ خیالی کے لیے انسان کو خدا کی آنکھ کی کمی محسوس ہوئی۔ اپنے سوچ و خیال کے کینوس کو خدا سے ہمکنار کر نے کی جدوجہد میں انسان مارا جانے لگا۔

سفر جاری تھا اور جاری ہے۔ کائنات کے سٹیج پر “میں”، “تم”، “ہم”، “وہ” کا کردار اپنے اپنے شعور کی انتہائی اپچ پہ بھی صرف خدا کے سہارے کا محتاج رہا۔ موت کہانی میں ایک نیا موڑ لے آتی ہے جہاں موجود کائنات کا مکمل کینوس ختم۔ مگر کہانی نامکمل ہے۔ تمام عاقلین، دانشمند اقرار کیے بنتے ہیں کہ اس کہانی میں کوئی سب سے بڑا ہے جو بول پڑتا ہے “إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ”۔ کائنات کی تمام تر وسعت کے باوجود، جستجو و خیال کی شعوری جہتوں کے باوجود کردار لوٹ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں بتاؤں مجھے اس دلیل کی تلاش ہے جہاں پہ زندگی و کائنات کی محدودیت اور موت کے دروازے کے اس پار کی تمام لامحدودیت کے ساتھ “میں” ضم ہو جاؤں۔ خدائی وصف کی آرزو نے انسان کو خدا کی تلاش پہ منتج کر دیا۔ “عشق” برسات کی بوندوں کی طرح ٹپکتا ہے۔ خدا مرتا نہیں ۔۔ مجھے مرنا پڑے گا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply