ہاتھ، طوطوں کا “رن وے”/مرزا یاسین بیگ

ہاتھ نہ ہوتے تو ہم ایک دوسرے کو ہاتھ کیسے دکھاتے؟ یہ ہاتھ ہی ہے جو ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ ہاتھ کی بدولت ہی ہمارے ہر طرح کے کام انجام پاتے ہیں خاص طور پر اگر مٹھی گرم ہو۔ جن کے ہاتھ تنگ ہوں ان سے ہر کوئی تنگ ہوتا ہے یا پھر انھیں تنگ کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قانون کے ہاتھ سب سے لمبے ہوتے ہیں مگر اب سب سے چھوٹے محسوس ہوتے ہیں۔

قمیض کہاں ٹکتی اگر بازو سے ہاتھ نہ لگا ہوتا۔ ویسے کسی کو بھی ہاتھ لگانا بُرا فعل تصور کیا جاتا ہے۔ صرف یہ اللہ میاں ہی ہیں جو ہر ایک کو “دو ہاتھ” لگا کر دنیا میں بھیج دیتے ہیں۔

اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا اچھی بات ہے۔ ہر اس ہاتھ کی کمائی حلال ہے جس نے کماتے وقت ہاتھ میں غیر قانونی پستول نہ پکڑی ہو۔ چھری چاقو معاف ہے اگر آپ شیف یا سرجن ہیں۔

پیسے کا گہرا تعلق ہاتھ سے ہی ہوتا ہے کیونکہ پیسہ ہاتھ کا میل کہلاتا ہے۔ جس کے پاس یہ میل جتنا زیادہ ہو معاشرہ اس سے اتنا ہی زیادہ میل ملاپ رکھتا اور اس کی عزت کرتا ہے۔ ہاتھ کا میل جہاں محفوظ کیا جاتا ہے اسے بینک کہتے ہیں۔ ہاتھ کے علاوہ جسم کے کسی اور حصے کے میل کی کوئی قدر نہیں۔

ہاتھ ملانا ہم سب کا محبوب مشغلہ ہے۔ دل اتنا جلدی نہیں ملتا جتنا جلدی ہاتھ۔ مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا۔ چلیں دوست نہ سہی باس بھی ہو تو برائی کیا ہے۔

ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر محبوب چلتے ہیں یا متحد قومیں۔ بعض لوگوں کو انگلی پکڑاؤ تو وہ ہاتھ پکڑلیتے ہیں اور ہاتھ دے دو تو گلا۔

لڑکیوں کے ہاتھ میں پرس لازمی ہوتا ہے۔ جو لڑکیاں کام چور ہوتی ہیں وہ ہر وقت ہاتھ میں مہندی لگائے بیٹھی رہتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو سب کچھ مل جائے پھر بھی وہ ہاتھ مانگنا نہیں بھولتے۔ کسی کی مدد کرنی ہو تو ایسے کریں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو بےشک سارے فیس بک کو ہوجائے۔

ہاتھوں سے چھوٹتی تو بہت سی چیزیں ہیں مگر اڑتے صرف طوطے ہیں گویا ہاتھ طوطوں کے رن وے ہیں۔

ہاتھ صرف چھری چاقو سے نہیں کٹتا بلکہ بعض مرتبہ وعدہ اور دستخط کرکے بھی ہاتھ کاٹ لئے جاتے ہیں۔ ہاتھ دھوکر پیچھے پڑنے والے عجیب مانے جاتے ہیں یا پھر عاشق۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاتھ کی کارستانیاں اتنی ساری ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنا سب سے مشکل کام محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا دماغ بھی مصروف رہتا ہے اور ہاتھ بھی۔ اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے آنکھیں اچھی طرح مل لیں یہ نہ ہو کہ آخر میں صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply