• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے سورج کی شعاعوں کو مدھم کرنے کے منصوبے کے خلاف سائنسدان متحد

بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے سورج کی شعاعوں کو مدھم کرنے کے منصوبے کے خلاف سائنسدان متحد

(نامہ نگار/مترجم:نسرین غوری)ساٹھ سے زائد موسمیاتی ماہرین اور سائنسدانوں نے کہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو کم کرنےاور زمین کی سطح کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششیں مبینہ طور پر ماحولیات کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہیں اور حکومتوں کو چاہیے کہ وہ انہیں روکیں۔ سورج کی  توانائی کی شدت میں تبدیلی لانے کے لیے سب سے زیادہ مقبول عام منصوبہ یعنی وسطی فضا میں گندھک کے اربوں ذرات چھڑکنے کا پروگرام بھی تنقید کی زد میں رہا ۔ سائنسدانوں نے اپنے کھلے خط میں کہا کہ اس کے نقصانات اس کے متوقع فوائد سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔
سائنسی جریدے وائرز کلائمیٹ چینج میں سائنسدانوں کے ایک خط پر تبصرے میں کہا گیا کہ شمسی ارضیاتی انجینئرنگ عالمی پیمانے پر کبھی بھی مناسب طریقے سے ،سب کی شمولیت کے ساتھ اور موثر طور پر نافذ نہیں کی جاسکتی۔ لہذہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومتیں، اقوام متحدہ اور دیگر ادارے اور تنظیمیں شمسی ارضیاتی انجینئرنگ کو بطور ماحولیاتی پالیسی آپشن کے طور پر رائج کرنے کے خلاف فوری طور پر ایکشن لیں۔
انیسویں صدی کے وسط کے مقابلے میں سطح زمین کا درجہ حرارت ایک اعشاریہ ایک درجہ سینٹی گریڈ بڑھنے سے شدید حرارتی لہروں/ہیٹ ویوز، قحط اور طاقتور طوفانوں کی تعداد اور دورانیہ بڑھ گیا ہے ۔ مختلف ممالک زمین کی سطح کا درجہ حرارت انیسویں صدی کے وسط کے اوسط درجہ حرارت سے ایک اعشاریہ پانچ درجہ زیادہ تک محدود رکھنے پر متفق ہوگئے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ سے منسلک سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایک دہائی کے اندر اندر توڑ دیا جائے گا۔
گرین ہاؤس گیسز جو عالمی درجہ حرارت کو بڑھاتی ہیں کے اخراج میں کمی میں ناکامی نے کچھ منصوبہ سازوں کو شمسی ارضیاتی انجینئرنگ کی طرف متوجہ کیا ہے جسے حال ہی میں بڑے پیمانے پر سائنس کے بجائے سائنس فکشن کہہ کر مسترد کردیا گیا ہے تاکہ زیادہ بہتر حل کے لیے مزید وقت حاصل کیا جاسکے۔
کافی پہلےسے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر بیرونی فضا میں روشنی منعکس کرنے والے ذرات پھیلا دیے جائیں تو وہ زمین کے درجہ حرارت کو کم کرسکتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا قدرتی طور پر بھی ہوتا ہے۔ 1991 میں فلپائن میں آتش فشاں کے پھٹنے اور فضا میں راکھ پھیلنے کے باعث ایک سال سے زائد عرصے تک زمین کا اوسط سطحی درجہ حرارت کم رہا تھا۔ لیکن کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ اس لائحہ عمل کو مسترد کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ بہت سی تحقیقات کے مطابق سورج کی شعاعوں کو مصنوعی طور پر مدھم کرنے سے جنوبی ایشاء، اور مغربی افریقہ میں مون سون کی برساتیں متاثر ہوگی اور بارانی فصلیں تباہ ہوجائیں گی جو لاکھوں افراد کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں ۔
ان چاہے نقصانات:
ماحولیاتی تبدیلی کے بین الاقوامی حکومتی پینل[آئی پی سی سی] نے اپنے تازہ ترین سائنسی جائزے میں کہا کہ بالائی فضا میں گندھک پھیلانے سے موسم گرما کی ایشیائی اور افریقی بارشیں متاثر ہونگی ۔اور امیزون کے جنگلات تباہ ہوجائیں گے۔ ایک تحقیق کے مطابق شمسی روشنی و توانائی میں تبدیلی سے دیگر علاقوں کو فائدہ ہوگا اور افریقہ کے جنوبی ممالک میں خشک سالی کا خطرہ قدرےکم ہوجائے گا۔ لیکن سائنسدان فضا میں شمسی روشنی روکنےوالے ذرات کو اچانک روکنےسے اختتامی صدمے سے بھی پریشان ہیں۔
آئی پی سی سی کا کہنا تھا کہ ” اگر کسی بھی وجہ سے شمسی توانائی میں رکاوٹ بننے والے عناصر کو اچانک روکنا / ہٹانا پڑا تو سطح زمین کا درجہ حرارت ایک دم بہت تیزی سے بڑھے گا” اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی سے کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا کرنے والے عناصر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ جمع ہوتی رہے گی جو سمندروں کے کیمیائی عناصر میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس کھلے خط میں یہ بھی تنبیہہ کی کہ موسمیاتی مسائل کے فوری حل کے لیے بڑھتی امیدیں حکومتوں، کاروباری حلقوں اور معاشروں کی کاربن ڈائی آکسائڈ میں کمی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر منفی اثر ڈالیں گی۔ اور سب سے آخری بات یہ کہ ابھی تک ایسا کوئی نگرانی کا عالمی نظام موجود نہیں جو شمسی ارضیاتی انجینئرنگ کے منصوبوں کو نافذ کرسکے اور ان کی نگرانی کرسکے یہ منصوبے کوئی ایک ملک یا کوئی بھی کروڑ پتی انسان شروع کرسکتا ہے جس کے پاس راکٹ موجود ہوں۔
کھلے خط میں ان منصوبوں کے بارے میں “ناقابل عمل ہونے کا معاہدہ” کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جس کے مطابق ایسے منصوبوں کی فنڈنگ روکی جائے، اور کسی کو بھی شمسی توانائی روکنے کی ٹیکنالوجی کو پیٹنٹ کروانے کے حقوق دینےسے منع کیا جائے۔ خط کے مطابق ایسے معاہدےسے فضائی ، موسمیاتی یا ماحولیاتی تحقیقات کا راستہ نہیں رکے گا۔
خط پر سائن کرنے والوں میں یوٹریچ یونی ورسٹی کے عالمی پائیدار نگرانی کےپروفیسر فرانک بیرمین، ویجینین یورنیورسٹی نیدر لینڈ کی پروفیسر برائے موسمیاتی نگرانی آرتی گپتا، سسیکس انگلیڈ کے ادارہ برائے ترقیاتی علوم کی ڈائریکٹر پروفیسر ملیسا لیخ اور جرمن ماحولیاتی ادارے کے صدر ڈرک میسنر کے دستخط ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مترجم: غوری
خلیج ٹائمز

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply