منافقت یا مفاہمت۔۔محمد وقاص خٹک

کہتے ہیں کہ شرک کے بعد دوسرا سب سے قبیح عمل منافقت ہے۔اسی لئے منافق پر بار بار کثرت سے لعنت بھیجی گئی ہے۔اب نقطہ یہ ہے کہ اگر منافقت اتنا ہی ناپسندیدہ عمل ہے تو آجکل اتنی عام کیوں ہے؟؟

زندگی کے ہر شعبے میں انتہا کی منافقت پائی جاتی ہے۔حتی کہ والدین اور اولاد جیسے خونی رشتے بھی اس عمل سے محفوظ نہیں رہے۔ہمارے دادا جان فرمایا کرتے تھے کہ پہلے پہل پورے علاقے میں ایک آدھ منافق ہوا کرتا تھا اور اسکی معاشرے میں دو ٹکے کی عزت بھی نہیں ہوتی تھی جبکہ آج کل ہر دوسرا بندہ منافق ہے۔دادا جان کی بات آجکل کے حالات کے عین مطابق ہے ۔

بچپن میں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے تایا جان ہمارے گھر کے سربراہ تھے،سارے بھائی اپنی جمع پونجی انکے ہاتھ میں لا کر رکھ دیتے کہ تایا جان نے گھر کا سارا سسٹم چلانا ہوتا تھا۔موبائل کے رواج عام ہونے سے پہلے چونکہ بچے واقعی میں معصوم ہوا کرتے تھے۔اسی لئے ہم ایک ہی چار دیواری میں منافقت دیکھ کر ماں کی آغوش میں چھپ کر خاموشی سے گلہ کرتے کہ امی جان اگر تایا جان واقعی میں “ون یونٹ” سسٹم چلا رہے ہیں تو ایک ہی چھت کے نیچے بنگال اور مغربی پاکستان کے حالات میں اتنا فرق کیوں ہے؟ والدہ محترمہ ہمیں دلاسہ دے کر کہتیں کہ بیٹا یہ سسٹم ہر جگہ ہوتا ہے اور اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے لہذا صبر کے عظیم اجر کا بھاشن دے کر ہمیں چپ کروا دیتیں۔ایک دن تو حد ہو گئی کہ چھوٹی عید والے دن تایا جان کے بیٹوں کیلئے بنوں سے سپیشل جوتے اور پٹاخے لائے گئے اور ہمیں کہا گیا کہ چونکہ ہماری عمر کم ہے اور ہم حجرے اور دیگر اجتماعی تقریبات میں جانے کے قابل نہیں لہذا ہم ان لوازمات سے استفادہ کرنے کے قابل نہیں۔اس دن میں نے پہلی بار والد صاحب کو افسردہ اور پیشمان دیکھا کہ میرے والد صاحب بہت اعلیٰ  ظرف انسان ہیں۔والد صاحب ہم دونوں بھائیوں کو اپنے کمرے میں لائے اور تاکید کی کہ کسی طرح بھی اپنی والدہ کو یہ خبر نہ ہونے دیں کہ بقول ابو جان کے “عورتیں  ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے” اتفاق” میں رخنہ ڈال دیتی ہیں۔بڑے بھائی نے میری طرف سے بھی اثبات میں سر ہلا کر سمجھداری کا ثبوت دیا۔عید کی نماز کے بعد جب کھانا تیار ہوا تو دادی اماں نے امی جان کو آڑر دیا کہ وہ اپنے بچوں کو لیکر میکے چلی جائیں ، کیونکہ امی کا میکہ ایک دیوار کی دوری پر تھا اور بقول دادی کے ہمارے حصے کا گوشت “عزیز و اقارب ” کو پیش کیا جانا تھا کیونکہ پشتون ولی اور دادا جان کی پگڑی بھی اونچی رکھنی تھی۔ابو جان ہمیں نانی اماں کے دروازے تک چھوڑنے گئے مگر لاکھ کوشش کے باوجود ہم سے آنکھیں نہیں ملا سکے۔اس طرح سات عدد چچا تایا اور انکے آل و اولاد کی عزت و آبرو کیلئے میرے والد صاحب نے ہماری قربانی دی۔تایا جان اس دن بار بار قرآن و حدیث کی روشنی میں “اجتماعیت کے برکات” بیان کرتے اپنی داڑھی میں ہاتھ پھیر رہے تھے مگر اس پورے اجتماع میں ہماری جگہ نہیں تھی جو ہمارے نزدیک “منافقت ” تھی مگر والد صاحب اسے “مفاہمت” قرار دے رہے تھے۔اسی لئے میں زرداری صاحب کو برا نہیں سمجھتا کہ ہم اس “وسیع تر مفاد والی “مفاہمت” کو بچپن سے دیکھ چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بظاہر ایک معمولی واقعہ لگتا ہے مگر اس سے ہمارے انفرادی اور اجتماعی سوچ اور رویوں کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ بچپن والی “مفاہمت ” جسے ہم لاکھ کوشش کے باوجود مفاہمت نہیں سمجھ سکے،آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ تایا جان پہلے سے زیادہ متقی ہو گئے ہیں اور انکی قرآن و حدیث پر دسترس پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے اور ہمیں آج بھی اس چیز پر قائل کرنے پر بضد ہیں کہ ہم انکی “مفاہمت” کو “منافقت” نہ سمجھیں کہ بقول انکے دلوں کے بھید صرف اور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
“ہوتا ہے ہر روز تماشا میرے آگے۔۔۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply