‘‘مولاچھ’’-ایک خوبصورت پہاڑ ی ناولٹ۔۔قمر رحیم خان

‘‘مولاچھ’’-ایک خوبصورت پہاڑ ی ناولٹ۔۔قمر رحیم خان/انسان نے کم و بیش تین ساڑھے تین ہزار قبل مسیح میں مٹی سے اعدادو شمارکی باقاعدہ شکلیں بنانے کا آغاز کیا۔پھر ان شکلوں کو مٹی کی تختیوں پر منتقل کیااورایک وقت ایسا آیا کہ ان شکلوں نے حروف تہجی کی معراج حاصل کر لی۔ مٹی اور پتھر کی تختیوں کی جگہ درختوں کی چھال، جانوروں کی کھال، کپڑے اور دیواروں نے لی۔ حتیٰ کہ دوسری صدی عیسوی میں چین نے کاغذ ایجاد کر لیا۔جو ساتویں صدی عیسوی میں جاپان پہنچا ،آٹھویں صدی میں سنٹرل ایشیا ، دسویں صدی میں شمالی افریقہ ،بارہویں صدی میں اسپین ، تیرہویں صدی میں شمالی یورپ اور تیرہویں صدی میں ہی عرب تاجروں کے ذریعے بر صغیر تک پہنچا۔موصوف ہمارے خطے میں کب وارد ہوئے، یا یہاں پر حرف نے تحریر کا لبادہ کب اوڑھا،یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ بدھ مت دور کے کھنڈرات البتہ یہاں پر ایک قدیم تہذیب کا پتہ دیتے ہیں۔جو اس امر کی کافی و شافی گواہی ہے کہ یہاں پر ہم سے پہلے جولوگ تھے وہ زبان و ادب کے وارث تھے۔ادب کا کوئی نمونہ ہمارے ہاتھ نہ آسکا البتہ زبان ، جو ہم تک پہنچی ہے، پتھروں سے یقینا نہیں پھوٹی ، اس کا تعلق اسی گم گشتہ ثقافت اور ختم شدہ تہذیب سے ہے۔اس کا رنگ و بوجہاں صدیوں پرانا ہے ، وہاں اس کی خزاں بھی شاید صدیوں پر محیط ہے۔

ماں بولی کی حد تک یہ کل تک معتبر تھی۔مگراس کا یہ اعتبار،وقار و حرمت حالیہ نو آبادیاتی تعلیمی نظام نے اس سے چھین لیا ہے۔بڑی مچھلیوں کی طرح بڑی ریاستیں،زبانیں اور ثقافتیں بھی چھوٹی ریاستوں ،زبانوں اورثقافتوں کو کھا جاتی ہیں۔انسان اپنی زبان و ثقافت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ پہچان انسان کی آزادی کی بنیادی ضامن ہے۔ اس کے بغیر وہ غلام ہی نہیں لاوارث بھی ہو جاتا ہے۔آزادی کا سفر پہچان کے اسی پڑاؤ سے شروع ہوتا ہے۔اور ہم اس پڑاؤ کو تیزی سے کھوتے چلے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر صغیر خان اپنی ثقافت کے خمیر سے پھوٹا ہوا وہ شجر ہے جس پر اترتے پھلوں کی خوشبو‘‘بہی’’ کی جیسی ہے۔مگر جب ناک بندہو توانسان ماں کے آنچل کی خوشبو بھی محسوس نہیں کر سکتا۔ڈاکٹر صغیر پہاڑی زبان کی بقا کے لیے کم و بیش تین دہائیوں سے بر سر پیکار ہیں۔اس لیے کہ وہ آزادی کی قدر جانتے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ اگر یہ کام نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں بے چہرگی کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گی۔اس ضمن میں وہ تحقیق و تدوین کے مراحل سے ہوتے ہوئے تخلیق کے میدان میں افسانے، نظم، غزل اور اب ناول پر بھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔‘‘مُولاچھ’’ 110صفحات پر مشتمل ناولٹ ہے۔ یہ دلاور اور طیبہ کی محبت کے گرد بنی ایک خوبصورت کہانی ہے۔ کہانی کے آغاز میں مر کزی کردار اپنے ماضی کی یادوں میں کھویا ہوا ہے۔ وہ اس دور کو یاد کرتا ہے جب مکان کچے ہوتے تھے، کھیتوں میں بیل جوتے جاتے تھے، لوگ سادگی پر اور زندگی ایک خوبصورت ڈگر پر تھی۔وہ اس دور کی اقدار ،حیا اور اخلاق کو یاد کرتا اور سوچتا ہے ، وہ وقت کدھر چلا گیا۔وہ ایک عام سے گھرانے کا نوجوان ہے ،جہاں تعلیم کا کوئی رواج نہیں ہے۔اس کا والد اسے میٹرک کے بعد فوج میں بھرتی کروانا چاہتا ہے ۔لیکن بڑے بھائی اسے اور اس کی چھوٹی بہن کو پڑھاتے ہیں۔وہ کالج اور یونیورسٹی کی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا ہے لیکن اصل مقصد کو نہیں بھولتا۔ وہ ایم کام کر کہ بنک میں ملازمت اختیار کرلیتا ہے۔اس کے بھائی ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں۔ بہنوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی ماں کے ساتھ اکیلا رہ جاتا ہے۔سلیم ان کا ملازم ہے جو گھر کے سبھی کام کرتا ہے۔ طیبہ اس کے بنک کے ریجنل آفس میں کام کرتی ہے ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے۔ کہانی اتنی خوبصورت ہے کہ دل چاہتا ہے اس کا مکمل خلاصہ لکھ دوں ۔ مگر پہاڑی میں لکھی تحریر کو پڑھنے سے اپنائیت کا جو احساس دل میں پیدا ہوتا ہے اس احسا س، جذبے یا کیفیت کو بیان کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ماں کی مامتا کو بیان کرنا۔دلاور کی ماں مجھے اپنی ماں لگی ہے۔ ماں کے بولے ہوئے الفاظ جب تحریر کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو وہ روح میں سرایت کر جاتے ہیں۔دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ان الفاظ کی حدت سے پگھل کر پانی بن جاتی ہے۔مجھے پہلی بار احساس ہوا ، ماں کی ترجمانی ماں بولی کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔اس کہانی میں بہن کا کردار بھی ہے۔ بہن جو ماں کا پرتو ہوتی ہے۔اس کہانی میں بہت کچھ ہے مگر ولن نہیں ہے۔ کورٹ میرج ہے، جعلی نکاح،پولیس چھاپے، جھگڑے، لٖفڑے، نہ چوری چھپے کی ملاقاتیں۔اتنی سولائزڈ محبت آپ کو ‘‘مولاچھ’’ کے علاوہ کہیں نہیں ملے گی۔ محبت کے مولاچھ البتہ قدم قدم پہ ملیں گے۔لیکن ان تمام رنگینیوں اور قمقموں کے بغیر بھی یہ سیدھی سادی اور پرسکون محبت قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ اتنے میچور کرداروں کے چناؤاور جھیل جیسی محبت کو لکھ کر گویا مصنف نے یہ پیغام دیا ہے کہ محبت یوں بھی کی جاسکتی ہے۔ ہمارا اس سے کوئی اختلاف نہیں لیکن کیا اس سے پہلے ،یعنی میچور ہونے سے پہلے ،آدمی کو ‘کھاری ’کے نیچے رکھنا پڑے گا۔ بہرحال محبت کے بارے میں یہ ایک مختلف اور منفرد زاویہ نگاہ ہے۔ اور یہ فقط زاویہ نگاہ ہی نہیں ، حقیقت بھی ہے۔یہ ہمارے معاشرے کی کہانی ہے۔جسے محتاط اندازاور لطیف پیرائے میں لکھا گیا ہے۔زبان سادہ  ،پہاڑی کے اصلی رنگ میں ڈوبی ہوئی اور مقامی لہجے سے مزیّن ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریر میں اپنائیت کا عنصر زیادہ ہے۔ دوران مطالعہ قاری اپنے گردو نواح سے کافی حد تک بیگانہ ہو کر کہانی کے محل وقوع کی تلاش میں کھو جاتا ہے۔حتیٰ کہ وہ کہانی کے اختتام تک پہنچ جاتا ہے۔مگر اس کی تشنگی باقی رہتی ہے۔یہ اعزاز کم کتابوں کو حاصل ہو پاتا ہے۔ پہاڑی لکھنا ہی نہیں، پڑھنا بھی مشکل کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مشکل کام کو جس خوبصورتی سے انجام دیا ہے وہی اس کتاب کی انفرادیت ہے۔ناول میں مصنف نے کئی ایسے پہاڑی الفاظ کو استعمال میں لایا ہے جو اب تقریبا ً متروک ہو چکے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ ناولٹ، ناولٹ سے کہیں بڑھ کر ہے۔البتہ الفاظ کے تلفظ پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ یہ گنجائشیں ہر جگہ اور ہر کام میں موجود رہتی ہیں۔اور انہی کی بنیاد پرًجستجو کا سفر جاری رہتا ہے۔ اس ناولٹ کا کلائمکس اس کا اختتام ہے۔ بالکل منفرد،دلچسپ، خوبصورت اور فکر انگیز بھی۔ یہ اپنے اختتام پر قاری کو چوراہے پر کھڑا کر دیتا ہے۔ یہ خوبی اعلیٰ پائے کے ناولوں کا خاصہ ہے، ناو لٹ میں جس کی توقع کم ہی رکھی جاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پہاڑی کے پہلے ناولٹ کوایک بہترین ناولٹ کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے۔

ڈاکٹر صغیرمحقق بھی ہیں، ادیب بھی، شاعر،کالم نگاراور نقاد بھی۔ادب کے میدان میں اتنی نسبتوں کا مل جانا کوئی سہل بات نہیں ہے۔ ایک عمر کی ریاضت کے بعدہی انسان اس مقام تک پہنچ پاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پہاڑی میں لکھ کر آنے والوں کے لیے جہاں ایک میدان مہیا کیا ہے ،وہاں اس بات کو بھی ثابت کیا ہے کہ پہاڑی میں ادب کی ہر صنف پر کام کرنے کی استعداد موجودہے ۔ انہوں نے دم توڑتی اس زبان کے احیائے نو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔‘‘مولاچھ’’ اس ضمن میں اہم اضافہ ہے۔ جس پر وہ صدہا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ٹیکنالوجی اور انڈسٹریلائزیشن نے ہماری ثقافت کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے۔یہ ایک فطری امر ہے، جس سے فرار ممکن نہیں ۔ ہماراا صل چیلنج ہماری زبان کو لاحق خطرات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس خطرے کی بروقت نشاندہی کی ہے ۔ اور اس نشان دہی میں انہوں نے جس طبقے کو مخاطب کیا ہے وہ معاشرے کا سنجیدہ ترین طبقہ ہے۔اسی لیے ان کے کردار میچوراور محبت سولائزڈ ہے۔انہوں نے ادب کی نمایاں اصناف پر پہاڑی میں لکھ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ پہاڑی ایک سولائزڈ زبان ہے ۔اور سولائزڈ لوگوں کی زبان ہے۔ہمیں اسے فخریہ طور پر اگلی نسل کو منتقل کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(قمر رحیم خان)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply