نوحہ ۔۔ محمد خان داود

ماں کو تو اس کے چہرے پر سُرخ گلابوں کا سہرہ باندھ کر اسے دُلہا بنانا تھا،پر آج ماں اس کے آدھے مدفون جسم کو دولہا دریا کی بستی سے نکال رہی ہے۔
ماں نے تو اس کی شادی کے گیت گا نے تھے،پرماں اس پر ماتم کر رہی ہے
ادھورا ماتم!
آنسوؤں سے تر ماتم
نیم بے ہوشی کا ماتم
ماں تو اس کے لیے دلہن تلاش  کررہی تھی
ہائے! آج اس ماں کی بد قسمتی کہ  اداس مقتل جیسے ٹھٹھہ کی ویران سڑک پر بیٹھ کر چیختی ایمبولینس کی راہ تک رہی ہے،
ماں نے تواس کے ہاتھوں اور پیروں کو مہندی سے لال کرنا تھا،پر یہ کیسا ظلم ہے کہ ماں اس کے لہو لہو جسم پر ہاتھ پھیر کر اپنے ہی ہاتھ لہو لہو کر بیٹھی ہے۔
کیا یہ مہندی،یہ لہو لہو رنگ ماں کے ہاتھوں سے اُتر  پائے گا؟
اس رنگ کو اُترنے کے لیے ماں کو ایک زندگی نا کافی ہے
ان بوڑھے ہاتھوں کے اس عذاب سے جان چھوٹنے کے لیے سورج جتنے دن چاہیں
لاتعداد
طویل!
ماں تو اس کی آنکھوں پر واری واری جا تی تھی
یہ کیسا ظلم ہے جب ماں نے اسے دیکھا تو یہ آنکھیں دھول آلود تھیں
ماں تو اس کے چہرے کو پیار سے چوما کرتی تھی
جب ماں نے اس چہرے کو دیکھا تو یہ چہرہ دولہا دریا کی دھرتی میں ایسے دھنسا ہوا تھا جیسے دولہا دریا کے دیس کے ہا ری بیج  زمیں میں دھنسا دیتے ہیں جو کئی پانیوں کے بعد زمیں پر پھول بن کر لہرانے لگتے ہیں۔
کہیں سُرخ
کہیں زرد
پر اس ماں کوکو  ن سی بولی میں دلاسہ دیا جائے کہ یہ چہرہ پھول بن کر دھرتی کے دامن میں کھل اُٹھے گا
سُرخ؟
زرد؟
نہیں پر  اس کے سوجے چہرے کو جب دفن کیا جائے گا تو ماں اس کے سوجے چہرے پر سُرخ پھول ڈال آئے گی، خود کو جلانے کے لیے!
ماں تو اس کے پیروں کی آہٹ پر جاگ جا تی تھی
اب جب وہ پیر زمیں دوز تھے تو ماں جاگی نہیں
پر ہائے اللہ!کہہ کر ماں کا دل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گیا
ماں تو اس کے آنے اور جانے پر پیروں کے نشان تلاشا  کرتی تھی اور اپنے آپ سے کہتی تھی کہ”جب وہ جاتا ہے تو مجھے بے چین کر جاتا ہے اورمجھے انتظار کی صلیب پر مصلوب کر جاتا ہے اور جب آتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ زندگی لوٹ آئی “
پر کیا اب بھی و ہ لوٹ آئے گا؟
جب اس کا گوشت،پوشت کا جسم مٹی میں دفن کر دیا گیا تھا اور دو دن سے وہ مٹی سے مل کر مٹی ہو رہا تھا اگر ماں ٹھٹھہ کی گلیوں میں نہیں پہنچتی تو وہ مٹی ہو ہی جاتا پر خیر اب بھی تو وہ مٹی ہی ہو جائے گا،
پر کیا جب ماں اپنے بہت سے آنسوؤں سے اسے رخصت کریگی تواس کی قبر پر سُرخ پھول کھلیں گے؟
نہیں ہر گز نہیں، جب بارش برسے گی جب بھی نہیں
جب اوس دھرتی کی اداسی بن کر برسے گی جب بھی نہیں
جب ماں کے آنسو تمام تر درد سے اس قبر کو گیلا کریں گے جب بھی نہیں
پرماں کا کیا ہے وہ تو روئے گی،اسے یاد کرے گی ماتم کریگی اس کا نوحہ پڑھے گی،اسے یاد کرے گی
اور پوری زندگی موم بتی بن کر اپنے بیٹے کی یاد میں جلتی رہے گی!
اداس آنکھوں سے
گیلے گالوں سے
منتظر روح سے
بھیگے نینوں سے
اور ڈوبتے،تیرتے دل سے
اگر ماں گلاب ہوتی تو اپنے بیٹے کے لیے پتی پتی  ہو جا تی اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بیٹے کی لہو لہو لاش پر بکھر جا تی پر وہ ماں گلاب نہیں آنسو ہے اور اب وہ آنسو ہمیشہ موم بتی بن کر اپنے شہید بیٹے کے لیے جلتی رہی گی
ابھی تو ماں نے اس کے ناز اُٹھانے تھے پر اس سے پہلے ماں اس کے تابوت کو اُٹھا رہی ہے
تابوت درد سے کھلا تھا
اور ماں اس تابوت میں آخری بن کر لگ چکی ہے
اب ماں اس سرد لاشے والے تابوت کے ساتھ دفن ہو جائے گی
یہ تو افسانہ ہے
بس الفاظوں کا افسانہ
کاش ایسا ہوتا
اور ماں اس دفن ہونے والے بیٹے کے لہو لہو کفن کا آخری دھاگہ ہو تی
ماں اس لہو لہو بیٹے کے تابوت کا تختہ ہو تی
ماں اس دفن ہو تے بیٹے کے تابوت کا آخری کیل ہو تی
اور تمام دردوں کے ساتھ دفن ہو جا تی
پر افسانہ بس افسانہ ہوتا ہے
اور الفاظ بس الفاظ!!
اور ماں کا درد؟
بس درد!
ماں نے اسے تلاشا  ہے
ماں اسے دفن کر دے گی
کیا ماں اسے دفن کر پائے گی؟
کیا ماں اسے بھول پائے گی
پہلے بچے بن ماؤں کے یتیم ہو تے تھے
اب تو ہم اس زمانے میں جی رہے ہیں کہ
مائیں بن بچوں کے یتیم ہو رہی ہیں
اور ایک اور بلوچ ماں یتیم ہو ئی ہے
اور نوحہ بارشوں کی مانند اس ماں کے دل پر اتر رہا ہے
وحی بن کر
دمِ عیسیٰ بن کر
”ہم بے وطن،دربدر،خاکِ بہ سر
قافلہء شام میں
بجتے کسی نوحہ کی طرح
قافلہء وصل ووقت ملاقاتِ یاراں گزرا
بغل جدائی کا بجا
کارواں پھر سے اُٹھا کوہِ ندا کی جانب
صبحِ کاذب سے بہت پہلے
بہت پہلے
بہت پہلے
بہت پہلے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply