بے نظیر بھٹو کی دو بار جلاوطنی(4)۔۔عامر حسینی

بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی کے دو دور
بے نظیر بھٹو نے 1997ء میں اٹھارہ نشتوں کے ساتھ عددی اعتبار سے پارلیمنٹ میں انتہائی کمزور اپوزیشن کے ساتھ بھی رجائیت کے ساتھ نواز شریف کو جمہوری ٹریک پہ چلانے کی جو کوشش کی تھی اُسے دوتہائی اکثریت کے نشے میں بدمست نواز شریف کے منتقم مزاج غیر لچکدار رویے نے کامیاب نہ ہونے دیا- اور نواز شریف نے اس دور میں ہر سیاسی مخالف کا ناطقہ بند کرنا شروع کردیا – 18 اگست 1998 میں ایسی تمان جماعتیں جو نواز شریف کے آمرانہ طور طریقوں سے تنگ تھیں انہوں نے مل کر پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے ایک اتحاد کی داغ بیل ڈالی اور اس کے مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بنے اور بعد ازاں یہ اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائینس جی ڈی اے بن گیا-
نواز شریف نے اس اتحاد کو سڑکوں پہ زیادہ جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ دی اور کئی قائدین صوبہ بدر ہوئے – اس الائنس سے آغاز کار میں اے این پی سمیت بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں الگ رہیں – بی بی شہید کی نقل و حرکت پہ پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں انھیں سندھ سے باہر جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی –
نواز شریف اسٹبلشمنٹ ریاستی اسٹبلشمنٹ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جس مہم پہ نکلی ہوئی تھی وہ اس وقت بھی نواز شریف سے صلح اور مفاہمت کا راستا تلاش کررہی تھی – عدلیہ کی تسخیر کے بعد عسکری اسٹبلشمنٹ کی تسخیر کا ہدف مقرر ہوا –
جیسا کہ پہلے زکر ہوا کہ نواز شریف اسٹبلشمنٹ نے عسکری اسٹبلشمنٹ کی تسخیر کے لیے جو منصوبہ بنایا اُس کا ایک حصہ نواز شریف کو امریکی انتظامیہ کے اہداف و مقاصد کے لیے موزوں ترین سیاست دان ثابت کرنا تھا- امریکہ خطے میں بھارت کی چودھراہٹ اور چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے ضروری سمجھتا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے حکمران قریب آئیں – اور امریکہ، بھارت اور پاکستان کے درمیان علاقائی اتحاد بنے – نواز شریف کے جو بھی مشیر تھے انھوں نے نواَ شریف کو امریکہ کی حمایت کے حصول کے لیے اور عسکری اسٹبلشمنٹ میں اُن کے زیر اثر نہ آنے والے جرنیلوں کو سبق سکھانے کے لیے پاک – بھارت امن کا نعرہ لگایا اور بیک ڈور چینل سے مذاکرات کے بعد جس میں امریکی سہولت کار تھے اور فروری 1998ء میں ہندوستان کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو لاہور براہ راست واہگہ اٹاری بلوالیا-
اس پروسس کو شروع کرنے سے پہلے میاں نواز شریف نہ تو پارلیمنٹ میں کمزور اپوزیشن سے کوئی مشاورت کی، نہ ہی وسیع اتفاق رائے کے لیتمے کل جماعتی کانفرنس بلائی اور نہ ہی عسکری اسٹبلشمنٹ سے مشاورت کی- تنہائی میں اٹھایا گیا یہ اقدام نواز شریف نواز شریف اسٹبلشمنٹ خالص بس اپنے مفاد کے لیے اٹھایا تھا یہ پالیسی سے کہیں زیادہ نام نہاد سمارٹ چاَل تھی جو بعد ازاں الٹی پڑگئی –
جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کو پرانی اتحادی جماعت اسلامی اور اس کی پراکسی جہادی تنظیمیں یاد آئین جس نے اس محاذ پہ اچانک سے متحرک ہوکر نواز شریف حکومت کو ٹف ٹائم دینا شروع کردیا-
ابھی یہ پراسس جاری تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے امن پروسس پہ ہونے والی اندر اور باہر سے تنقید اور مخالفت کو کم کرنے کے لیے راجھستان کے علاقے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کردیے –
ان ایٹمی دھماکوں نے نواز شریف حکومت کو بہت مشکل میں ڈال دیا-وہ تو خطے میں بھارت کے ساتھ کھڑے ہوکر امریکی پشت پناہی مکمل طور پہ چاہتا تھا تاکہ فوج کو اپنے زیرنگوں کرلے (ناکہ اُسے آئین کی حدود میں رہنے پہ مجبور کرے کیونکہ یہ خود بھی پندرہویں ترمیم کے زریعہ سے امیرالمومنین بننے جارہا تھا اور 73ء کا آئین لپٹ جاتا) امن پسند نواز شریف کی امیج بلڈنگ میں ان دھماکوں نے کھنڈت ڈال دی اور نواز شریف پہ کلنٹن انتظامیہ سمیت مغربی طاقتوں کا زبردست دباؤ پڑا کہ وہ ایٹمی دھماکے نہ کریں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس صورت میں عسکری اسٹبلشمنٹ اُس پہ چڑھ دوڑتی اور حب الوطنی اور اینٹی انڈیا جذبات میں سرشار پنجاب میں بہت بڑی سپانسرڈ احتجاجی تحریک سامنے آجاتی – نواز شریف نے ایٹمی دھماکے مئی کے مہینے میں کرڈالے- اس عمل سے نواز شریف اپنے سب سے بڑی حمایتی امریکی کلنٹن انتظامیہ کی حمایت سے محروم ہوگئے اور اس سے شاید امریکی انتظامیہ کو یہ بھی گمان ہوا ہو کہ عسکری اسٹھبلشمنٹ کو اہنے زیرنگوں لاکر بھارت کے کیمپ میں پاکستان کو شامل کرنے کی طاقت نواَز شریف رجیم میں نہیں ہے –
ایٹمی دھماکوں نے پاکستان کے لیے امریکی امداد بھی روک دی اور ایک طرح سے پریسلر ترمیم کو مزید اضافوں کے ساتھ واپس لاگو کردیا-
اس سے پاکستان کی معاشی مشکلات بڑھ گئیں، نواز شریف نے اس زمانے میں معاشی ایمرجنسی کا نفاز کرکے حالت اور پتلی کردی –
جی ایچ کیو اور ایوان وزیراعظم میں معاملات کشیدگی کی طرف بڑھنے لگے – 3مئی 1999ء کو کارگل وار کا معاملہ سامنے آگیا-
عسکری اسٹبلشمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا ویسا ہی ایک منصوبہ روبہ عمل کردیا جیسا وہ سب سے پہلے 1948ء میں سامنے لیکر آئی تھی اور پھر آپریشن جبرآلٹر کے دور میں سامنے آیا تھا اور یہ کارگل وار کا منصوبہ شہید بی بی کے دوسرے دور حکومت میں بھی اُن کے سامنے پیش کیا گیا تھا لیکن بی بی نے چند سوالات میں اس منصوبے سے پیدا ہونے والی سفارتی مشکلات کے تناظر میں اسے رد کردیا تھا- عسکری قیادت کہتی ہے کہ ایک اجلاس میں کارگل وار کا منصوبہ نواز شریف کے سامنے پیش کیا گیا اور انہوں نے اس کی منظوری دی – نواز شریف کا موقف ہے کہ اُن کو اس منصوبے کا علم ہی نہیں تھا- نواز شریف کارگل وار پہ ٹرتھ کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اپنے دور حکومت میں انھوں نے ایسا کوئی کمیشن قائم نہیں کیا جبکہ انھیں دیگر سیاسی جماعتوں نے سپورٹ بھی کیا-
مئی 1999ء سے اکتوبر 1999ء تک نواز شریف میڈیا منیجمنٹ کرکے کارگل وار کا ملبہ جنرل مشرف اور اُن کے ساتھیوں پہ ڈالتے رہے جبکہ جنرل مشرف بلکہ یوں کہیں کہ عسکری اسٹبلشمنٹ کے قلم کار، تجزیہ نگار اس کا سارا ملبہ نواز شریف پہ ڈالتے رہے-
عسکری اسٹبلشمنٹ کی نواز شریف اسٹبلشمنٹ سے سرد جنگ شروع ہوئی اور پہلی بار ہمیں اخبارات میں نواز شریف کے خلاف شدید تنقید دیکھنے کو ملی – نواز شریف کے خلاف عسکری اسٹبلشمنٹ یہ بیانیہ لیکر آئی کہ نواز شریف نے عسکری محاذ پہ جیتی جنگ کو سیاسی محاذ پہ مذاکرات کی جنگ میں ہار دیا- عسکری اسٹبلشمنٹ پہلی بار نواز شریف کو ایک فرد سے کہیں زیادہ دیکھنے میں سنجیدہ نظر آنے لگی کیونکہ اس دوران بین الاقوامی پریس میں پاکستان فوج کو “روگ آرمی” جیسے القاب کے ساتھ اشتہارات چھپنا شروع ہوگئے –
نواز شریف نے کارگل کی جنگ کے تناظر میں اپنے دورہ امریکہ کے وقت امریکی صدر سمیت حکومت کے دیگر انتہائی اہم عہدے داران کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ جنگ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے اُن کے خلاف چھیڑی ہے جو بھارت سے امریکی خواہشات کے مطابق تعاون کرنے کے سبب سے اُسے زیر کرنا چاہتی ہے –
نواز شریف اگر واقعی پاکستان کو ایک آزاد خارجہ، داخلی سلامتی، معاشی پالیسی دینے کے خواہاں ہوتے اور مقصود اپنا ذاتی اقتدار اور سلطنت مضبوط بنانا نہ ہوتا تو وہ سیاسی تنہائی کے ساتھ اس راستے پہ نہ چلتے بلکہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو ساتھ لیکر چلتے لیکن انھوں نے تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن کو دیوار سے لگادیا تھا اور ساتھ ساتھ وہ سول سوسائٹی (صحافی، وکیل، ٹریڈ یونینسٹ، انسانی حقوق کے رضاکار) کے اشراف پرت کو بھی اپنے وظیفہ پہ رکھ چکے تھے –
وہ پی پی پی کی قائد بے نظیر بھٹو کو ہر صورت جیل میں ڈالنے پہ تلے بیٹھے تھے – یہی حشر وہ دوسرے سیاسی مخالفین کے ساتھ کرنا چاہتے تھے –
جب عسکری اسٹبلشمنٹ دفاعی موڈ سے جارحانہ موڈ میں آگئی تو اس وقت نواز شریف کے ابا جی اور کچھ اور ساتھیوں کو معاملات کی سنگینی کا اندازہ ہونا شروع ہوا- انہوں نے شریف خاندان اور مشرف کے درمیان مفاہمت کرانے کی ایک کوشش کی –
بظاہر نواز شریف نے صلح جُو رویہ اختیار کیا لیکن درونِ خانہ انھوں نے مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا جس سے ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی آگاہ تھی-
دیکھا جائے تو میاں نواز شریف نے اپنی طاقت کا محل کس قسمت پہ تعمیر کیا تھا؟
انھوں نے سیاسی کارکنوں، پارلیمنٹ کے ممبران کو، سول ایڈمنسٹریشن، باوردی ایڈمنسٹریشن، عدلیہ اور ریاست کا پانچوان ستون صحافت میں بدترین کرپشن کا زھر گھول کر یہ محل تعمیر کیا- اور سیاست میں اُن کا اپنا نظریہ کیا تھا؟ صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد مقدم رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ پیسے سے ہر کسی کو خریدا جاسکتا ہے – انھوں نے پنجاب میں اپنے آپ کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ہر ایک سیاسی جماعت کے فعال کارکنوں خریدنے کی ہر ممکن کوشش کی جو قلم کار عوامی رائے پہ اثرانداز ہوسکتا تھا اُسے خریدنے کی ہرممکن کوشش کی جو نہیں مانا اُس کی زندگی حرام کردی-
ایسا شخص کس قدر سیاسی تنہائی کا شکار ہوگا اس کا اندازہ لگایا جانا مشکل نہیں ہے – اُس کے 85ء سے 99ء تک نواز رجیم نے جرنیلوں کو یہ موقعہ دیا کہ وہ اقتدار پہ قبضہ کرلیں –
نواز شریف کے اندر ہمیشہ مطلق العنان بادشاہ بننے کی خواہش غیرجمہوری راستے پہ چلنے پہ اُسے مجبور کرتی رہی – اس کی سیاست جسے اُس کے وظیفہ خوار اینٹی اسٹبلشمنٹ کہتے ہیں وہ اُس کی اپنی ذات اور خاندان سے آگے کبھی نہیں گئی –
مشرف دور میں کئی بار وہ صرف زاتی مفاد کے سبب اداروں کو آئینی حدود میں رکھے جانے کی مین سٹریم تحریک سے بھاگ گیا-
اگلے حصے میں ہم مشرف دور میں نواز شریف کی سیاست کو لیکر بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی میں سیاست کا جائزہ لیں گے –

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply