کینسر (70) ۔ ریٹرووائرس/وہاراامباکر

ٹیمن کینسر کو لیبارٹری ڈش میں لے آئے تھے اور اب وہ ایسے تجربات کر سکتے تھے جو جانداروں پر کرنا ناممکن ہوتا۔ 1959 میں ان کے پہلے تجربے نے غیرمتوقع نتیجہ دیا۔ عام طور پر جب وائرس خلیات کو انفیکٹ کرتے ہیں تو یہ مزید وائرس بناتے ہیں اور پھر مزید خلیات کو انفیکٹ کرتے ہیں۔ لیکن یہ خلیے کے جینیاتی میک اپ کو تبدیل نہیں کرتے۔ اس کا ڈی این اے ویسا ہی رہتا ہے۔ مثلا، فلو کا وائرس پھیپھڑے کے خلیات کو متاثر کرتا ہے اور نئے فلو وائرس بنتے ہیں لیکن ہماری جین میں کوئی مستقل نشان نہیں چھوڑتا۔ جب وائرس چلا جاتا ہے تو ڈی این اے پر کوئی فرق نہیں پڑا ہوتا۔ لیکن روس کا وائرس ایسا نہیں تھا۔ جب یہ خلیے کو انفیکٹ کرتا تھا تو اس کے ڈی این اے میں جینیاتی تبدیلی کر دیتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ خود میں ایک دلچسپ دریافت تھی، لیکن جو مسئلہ اس سے پیدا ہوتا تھا، یہ اس سے زیادہ دلچسپ تھا۔
کئی وائرس ڈی این اے نہیں رکھتے بلکہ اپنے جین آر این اے میں رکھتے ہیں۔ اور وائرس کی پروٹین اس سے ہی بنتی ہیں۔ ٹیمن کو معلوم تھا کہ روس کا وائرس ایسا ہی تھا۔ لیکن اگر وائرس کے جین آر این اے سے شروع ہوئے تو پھر یہ ڈی این اے تک کیسے پہنچ گئے؟ بائیولوجی کا مرکزی ڈوگما کے مطابق یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ بائیولوجیکل انفارمیشن صرف ایک سمت میں جاتی تھی۔ ڈی این اے سے آر این اے سے پروٹین کی طرف۔ آخر آر این اے الٹ کر یہ کرتب کیسے کر رہا تھا۔ یہ کاپی اس کی صریح خلاف ورزی تھی!!
ٹیمن نے فیتھ کی بنیاد پر تخیل کی چھلانگ لگائی۔ اگر ان کا مشاہدہ فٹ نہیں ہو رہا تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈوگما کو تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے؟ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ روس سارکوما وائرس میں کوئی خاص صفت ہے۔ کوئی ایسی خاصیت ہے جو کسی اور میں نہیں۔ یہ آر این اے کو ڈی این اے میں واپس لے جا سکتا ہے۔
لیکن ٹیمن کے پاس جو شواہد تھے، وہ کمزور تھے جنہوں نے کسی کو بھی قائل نہیں کرنا تھا۔ اسے پیش کرنے پر ان کا مذاق بن جانا تھا۔
انہیں اپنے خیال کا تجرباتی ثبوت درکار تھا۔ ٹیمن نے اس پر 1960 میں کام شروع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آر این اے سے ڈی این اے؟ اس خیال کو سوچ کر وہ خود گھبرا رہے تھے۔ کیا ایسا مالیکیول بائیولوجی کی انفارمیشن کے بہاوٗ کو الٹ کر سکتا ہے؟ اس کو ثابت کرنے کے لئے انہیں ٹیسٹ ٹیوب میں وائرس کا انزائم الگ کرنا تھا جو یہ ریورس ٹرانسکرپشن کر سکے اور ثابت کر دے کہ یہ آر این اے سے ڈی این اے کاپی بنا سکتا ہے۔
اگلے برسوں میں جاپانی سائنسدان ساتوشی مزوتانی کے ساتھ ملکر کئے گئے تجربات میں وہ اس تک پہنچ گئے۔ آر ایس وی عام وائرس نہیں تھا۔ یہ جینیاتی انفارمیشن کو پلٹ کر لکھ سکتا تھا۔ یہ “ریٹرووائرس” تھا۔
بوسٹن میں ایک اور نوجوان وائرولوجسٹ ڈیوڈ بالٹی مور نے بھی ایک اور وائرس میں ایسا ہوتے دیکھ لیا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply