اپنا گھر درست کیجیے۔۔۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ خود کو دوسروں کی غلامی میں مت دیں ۔۔۔۔ کہ وہ میرے ساتھ اچھا کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ اچھا کروں گا، اگر ان کا سلوک برا ہو گا تو میں بھی ان سے برا رویہ رکھوں گا۔

گویا آزاد انسان وہ ہے جو اصولی طور پر طے کرتا ہے کہ اسے عمدہ اخلاقیات پر رہنا ہے، قطع نظر اس سے کہ دوسروں کا اس کے ساتھ سلوک کیسا رہتا ہے۔ اخلاقی وجود کا اصل جوہر یہی ہے کہ خارجی عوامل اس پر اثرانداز نہیں ہوتے۔ ایسا انسان ہی حقیقتاً قابل بھروسہ بھی ہوتا ہے اور صاحب کردار بھی۔

کچھ ایسا ہی ایک چیلنج آج ہمیں معاشرتی سطح پر درپیش ہے۔

ہمارے ہاں مرد حضرات کا عمومی رویہ یہ نظر آتا ہے کہ خواتین کے حوالے سے ان کا سلوک یا رد عمل خواتین کے لباس، میک اپ وغیرہ سے متعین ہو گا۔ جس خاتون کو وہ فیشن ایبل خیال کریں تو گویا اب ان پر اس کے حوالے سے اخلاقیات و اقدار کی تمام قیود ساکت ہو گئیں۔ اب وہ مکمل آزاد ہیں کہ جھٹ سے اپنا سفلی وجود اندر سے برآمد کریں اور جو چاہیں کر گزریں۔ گویا ان کی ساری اخلاقیات اس خاتون کے لباس وغیرہ کے ہاتھوں گروی ہیں۔

اس رویہ میں دو مسائل ہیں۔ اول یہ کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا اخلاقی وجود ان کا شعوری فیصلہ نہیں بلکہ وہ بیرونی عوامل کے ہاتھوں رہین ہے ۔۔۔ یہ ایک نہایت بودے وجود کی علامت ہے۔ ایسا انسان دراصل جبلت کا اسیر ہے اور کردار و اخلاق کا لبادہ خود پر چڑھا رکھا ہے۔ گویا ایک چلتا پھرتا بم ہے جو کسی وقت، کہیں بھی پھٹ سکتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایسا انسان رفتہ رفتہ اس نہج پر جا پہنچتا ہے جہاں عورت کا لباس وغیرہ بھی حجت نہیں رہتا اور سب خواتین بلا لحاظ بود و باش اس کی ہوسِ نظر و عمل کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ یہ بلاشبہ سماج کے بکھر جانے کی جانب ایک سنگین پیشرفت ہے۔

معاشرتی مسائل کا اولین حل افراد کی درست تربیت میں ہے، اور تربیت کا پہلا مرکز گھر کا ادارہ ہے۔

والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ اخلاقی اقدار کو بروئے کار لاتے وقت بچوں کے ذہن میں صرف یہ بات ہو کہ انہیں بلا استثناء صورتحال اپنے اخلاقی رویہ کو ایک ہی طرح بروئے کار لانا ہے اور اس کے لیے وہ خود اپنے آپ کو اور اپنے رب کو جوابدہ ہیں۔ بیرونی عوامل کچھ بھی ہوں، وہ خود تو وہی ہیں اور انہیں ہر صورت وہی رہنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری رائے میں بچوں کی تربیت میں اس نقطہ پر اضافی تلقین و اصرار سے غیر معمولی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ انہیں یہ باور کروانا ضروری ہے کہ اہم چیز یہ نہیں کہ دوسرا کیا ہے ۔۔۔ اہم ترین یہ ہے کہ وہ خود کیا ہیں ؟ اور کیا ہر وقت وہ وہی رہ پاتے ہیں ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply