• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان پاکستان کی سٹرٹیجک دلدل؟۔۔۔ ایمل خٹک

افغانستان پاکستان کی سٹرٹیجک دلدل؟۔۔۔ ایمل خٹک

تحریک طالبان افغانستان کا دارلحکومت کابل پر قبضے سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ھورہا ہے ۔ چاہے پاکستانی پالیسی ساز یہبات تسلیم کرے یا نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بین القوامی رائے عامہ پاکستان کو ابھی تک طالبان کا سب سے بڑا حمایتی سمجھتیہے اور اگر طالبان کوئی اچھا کام کرینگے جس کی ان سے امید رکھنا بیوہ قوفی ھوگی تو وہ طالبان کے کھاتے میں مگر  بُرا پاکستان کےکھاتے میں جائیگا ۔ 

امریکہطالبان مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کو ایک طاقت کے طور پر تسلیم کیاگیا اور افغان حکومت کو مذاکرات سے باھر رکھ کراس کی رٹ کو کمزور کیاگیا ۔ اس طرح امریکہ نےگیینب ت اپنی فوجی انخلاء کو کامیاب بنانے کیلئے افغان حکومت کی طالبان کےمقابل ایک مشترکہ موقف اپنانے اور افہام وتفہیم کی کوششوں کو مختلف افغان سیاسی گروپوں سے الگ الگ ڈیل کرکے سبوتاژ کیا۔ اور وسیع البنیاد حکومت اور پاورشئیرنگ کے نام پر درپردہ ڈیلیں ھوئی ۔ صوبوں پر راتوں رات قبضے دراصل ان درپردہ خفیہ ڈیلوںکا نتیجہ ہے ۔ 

ڈاکٹر اشرف غنی نے خاموشی سے اور  اچانک اقتدار چھوڑنے کا مقصد افغانستان کو خانہ جنگی سے بچانے اور  اپنی قتل کی سازشناکام بنانے کا دعوی کیا ہے ۔ دوسری طرف بعض داخلی اور خارجی حلقوں کی جانب سے ڈاکٹر اشرف غنی کے خلاف زبردستکردارکشی مھم شروع کی گئی ہے ۔ طالبان سے لڑنے کی بجائے سابق افغان صدر کی خاموشی سے اقتدار چھوڑنے کے عمل نےامریکی انتظامیہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ امریکی دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے اور فوجی انخلاء کے فیصلے کی تاویلات اور وضاحتیںدینے پر مجبور ہے ۔ 

بہت سے عوامل کی وجہ سے پاکستان کی اسٹرٹیجک اھیمیت کم ھوئی ہے۔ مغربی دنیا افغان مسلے کے حوالے سے پہلے پاکستان کومسلے کو بگاڑنے والا اور اسے حل کرنے والا دونوں سمجھتی تھی ۔ اب اس سوچ میں تبدیلی کے آثار ھیں ۔ اسے اعتماد کی کمی کہیےیا تعلقات میں گرم جوشی کا فقدان کہ ماضی کی نسبت  اب امریکہپاکستان کی اسٹیجک مشاورت کی وہ سطح اور اھمیت نہیں رہی۔اس طرح سیکورٹی کونسل کی افغانستان کے حوالے سے حالیہ خصوصی اجلاسوں میں اسلام آباد  کی خواھش کے باوجود اس کو شرکتکی دعوت سے اجتناب پاکستان کی گرتی ھوئی اسٹرٹیجک اہمیت کی عکاسی کرتی ہے ۔ 

پالیسی ساز حلقوں میں افغان طالبان کے حوالے سے اسٹریجک کنفیوژن موجود ہے ۔  اور وجوھات کے علاوہ اس  کنفیوژن کی ایکوجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک افغان پالیسی پاکستان کی انڈیا پالیسی کے زیر اثر اور تابع ہے۔ طالبان اب پاکستان کا اسٹرٹیجک اثاثہنہیں بلکہ بوجھ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بوجھ بھاری ھوتا جارہا ہے۔ ایک طرف اسے تحریک طالبان پاکستان کےساتھ ایک پلڑے میں ڈالا جارہا ہے اور اھم بریفنگز میں یہ فقرہ باربار تکرار ھورہا ہے کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان ایک سکے کے دورُخ یعنی دونوں ایک جیسے دہشت گرد گروہ ھیں جبکہ دوسری طرف طالبان پیش قدمی میں ان کی سہولت کاری کی گئی ۔ 

مسلح طالبان جتھوں کو بلا روک ٹوک سرحد پار کرنے دیا گیا ، جنگی زخمیوں کو پاکستانی اسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولت حاصلرہی ۔ سینکڑوں پاکستانی عسکریت پسندوں کے لاشیں سرحد پار سے لائی گئی ۔ اس طرح منظم انداز میں طالبان کے حق میںپاکستانی میڈیا پر خبریں اور تجزیے پیش ھوتے رہے ۔ اب حوالدار میڈیا  طالبان کو مسیحا کی طور پر پیش کررہی ہے اور اس کیکامیابی پر شادیانے بجارہی ھیں ۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ وہ پاکستانی میڈیا اور اینکرز جو میاں نوازشریف جیسے قومی راھنما کیانٹرویو کرنے سے قاصر ہے ھر چھوٹے بڑے طالبان کا انٹرویو کررہے ھیں ۔

پُل کے نیچے سے بہت سا پانی گزرچکا ہے ۔ ایک تو طالبان ایک فائر شدہ کارتوس ہے ۔ انھیں اندرون ملک پہلے کی طرح عوامیمقبولیت حاصل نہیں ۔ وہ بیلٹ کے زریعے نہیں بلکہ بُلٹ کے ذریعے برسراقتدار آئے ھیں ۔ طالبان کو اب زیادہ باشعور اور بیدارعوام اور متحرک اور فعال سول سوسائٹی اور میڈیا سے واسطہ پڑئیگا۔ اگرچہ طالبان اپنے اپ کو میانہ رو ثابت کرنے کی کوشش میںہے مگر  افغان عوام کی اکثریت ان کے بارے میں کئ خدشات اور تحفظات رکھتی ہے ۔ افغان عوام کی اکثریت کو طالبان حکمرانیکسی طور قابل قبول نہیں ۔ عام افغان ابھی تک سکتے میں ہے ۔ اور ان میں تشویش پائی جاتی ہے ۔

ماضی کے برعکس اس بار طالبان زیادہ محتاط ھیں مگر ان کا صیع امتحان اس وقت شروع ھوگا جب  حکومت بنی گی ۔  طالبان کےدو ابتدائی اقدامات یعنی نیا قومی ترانہ اور نیا قومی جھنڈا متعارف کرانے سے عوامی غم وغصہ بڑھا ہے ۔قومی جھنڈا بحال کرنے کیلئےجگہ جگہ احتجاجی مظاھرے ھورئے ھیں ۔  افغان عوام کی اکثریت طالبان کو پاکستانی پراکسی سمجھتی ہے ۔ نیا قومی ترانہ پاکستانیقومی ترانے کے دھن پر بنایا گیا ہے ۔ اس طرح ابپنجابی طالبانکے بارے میں  افغان عوام میں بہت زیادہ  حساسیت پائیجاتی ہے ۔

ملا عمر کے بعد طالبان گروہ بندیوں کا شکار ہے ۔ اور سیاسی اور فوجی قیادت میں بہت سے امور پر شدید اختلاف نظر موجود ہے ۔طالبان کو افغان عوام کو قابل قبول وسیع البنیاد حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد اور نظریاتی مسائل پر ھمآھنگی  پیدا کرنے کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ طالبان پر اس وقت تسلیم شدہ انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق ایک قابلقبول وسیع البنیاد حکومت بنانے کیلئے عالمی اور علاقائی طاقتوں کا شدید دباؤ موجود ہے ۔

بین القوامی رائے عامہ ابھی تک طالبان کی انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں اور زیادتیاں نہیں بھولی ۔ طالبان کا امیج اتنا مسخھوچکا ہے کہ اسے علاقے یا عالمی سطح پر قبولیت اور پزیرائی ملنا مشکل ہے ۔ علاقائی اور عالمی طاقتوں کی طالبان کو  انگیج کرنے کیخواھش یا کوشش اور انکی سیاسی یا سفارتی حمایت یا اقتصادی امداد میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ 

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو بہت سی وجوھات کی بناء پر پاکستان اب پہلے کی طرح طالبان حکومت کی کھلم کھلا اقتصادی ،سیاسی اور اخلاقی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔  پاکستان اقتصادی طور پر بدحال اور سفارتی تہنائی کا شکار ہے ۔پاکستان ابمغربی ممالک اور باآثر خلیجی ملک  کی علاقائی اور بین الاقوامی سٹرٹیجک منصوبہ بندی کا حصہ نہیں رہے ۔ اور کئ روایتی دوست ممالککے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار ھے ۔ اب سعودی عرب یا متحدہ امارت پاکستان کے کہنے پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکرینگے ۔

پاکستان اور طالبان کے تعلقات پہلے کی نسب زیادہ مثالی نہیں ۔  طالبان کے حلقوں میں کئی حوالوں سے پاکستان کے بارے میںکئ قسم کی خدشات اور بدگمانیاں موجود ھیں ۔ کچھ سینیئر طالبان کو چھوڑ کر اکثر افغان طالبان پاکستانی پالیسی سازوں یا پالیسیچلانے والے اداروں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ھیں اور ان پر کئ سینئیر طالبان کی ھلاکتوں کا الزام لگاتے ھیں۔ افغانطالبان حلقوں میں یہ خدشہ موجود ہے  کہ شاید پاکستان اپنی قوت سودابازی بڑھانے کیلئے طالبان کارڈ استعمال کرنا چاہتا ہے اوراسلام آبادمطلوبہ مفادات حاصل ھونے کے بعد انھیں کسی بھی وقت بیچ راہ چھوڑ  سکتا ہے ۔ 

دوسرا ماضی کے برعکس جب طالبان قابل رسائی نہیں تھے اور زیادہ تر پاکستان کے زریعے ان سے رسائی ممکن تھی اب طالبان اوربیرونی دنیا کے تعلقات قائم ھوچکے ھیں ۔ طالبان بیرونی دنیا خاص کر مغربی دنیا اور چین ، روس جیسے اھم ممالک سے براہ راسترابطے میں ہے ۔ ماضی کے برعکس طالبان راھنما پاکستانی جہاز یا ھیلی کاپٹر میں نہیں بلکہ ملا غنی برادر اور ان کے ساتھیوں کو  امریکیفوجی طیارے میں قطر سے لایا گیا ۔

اسٹبلشمنٹ کی ملکی معاملات میں ستر سال کی ماوراء آئین اور قانون بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت اور تنگ نظر اور ناعاقبت اندیشپالیسیوں کی وجہ سےملک تباہ حال ، معیشت کمزور اور سماج مذھبی جنون کے سرطان میں مبتلا ھوچکا ہے ۔ اسٹبلشمنٹ خود بند گلیمیں پہنچ چکا ہے ۔ پاکستانی پالیسی سازوں کی پریشانی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی سلامتی ایشیوز پر باربار قومیراھنماوں ، میڈیا اور دیگر اھم حلقوں سے تعاون اور حمایت کیلئے رجوع کررہی ہے ۔ 

پالیسی سازی کے عمل کی مکمل اورھالنگ کی ضرورت ہے ۔ علاقائی اور عالمی بدلتے حالات نئی سوچ کا تقاضا کرتی ہے۔ بدقسمتیسے اس نازک اور مشکل مرحلے پر ایک طرف پالیسی ساز ماضی کے قیدی ھیں اور پرانے جنگجویانہ اور جیواسٹر ٹیجک مائینڈ سیٹسے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے ۔ دوسری طرف حکومت انتہائی نالائق اور نااہل افراد کے ھاتھوں میں ہے ۔طالبان خانکے نامسے پکاری جانے والی شخصیت ملک کا وزیراعظم ہے جو بونگیوں اور سطحی باتوں کے تو ماھر ھیں مگر اسٹر ٹیجک وژن سے مکملعاری ہے ۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کو درپیش سنگین داخلی اور خارجی چیلنجوں پر غور کیلئے اور ایک قومی پالیسی اور بیانیہ تشکیل دینے کیلئے قومی سلامتی کونسلایک محدود اور ناکافی فورم ہے ۔ اس کیلئے صاحب الرائے  قومی شخصیات پر مشتمل وسیع مشاورت کی ضرورت ہے۔ قومیسلامتی کونسل کا اجلاس محض خانہ پُری اور جاری ناعاقبت اندیش پالیسیوں پر مہر تصدیق ثبت کرنا ہے ۔ اس سے جاری مختلفالجہتی بحران حل نہیں بلکہ شدت اختیار کرئیگا ۔ پاکستان کے اندر ایک دفعہ پھر انتہا پسندی کو تقویت ملے گی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply