لفنگا راج۔۔۔ ہما جمال

مینار پاکستان

آج سے 80 پچاسی سال پہلے اس مینار پاکستان میں پاکستان کا تصور قبول کیا گیا تھا
اس وقت ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت نے ایک مسلمان مملکت کا خواب دیکھا اور عہد و پیمان باندھے تھے ۔۔
گو کہ پاکستان بن جانے کے کچھ ہی عرصے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ وہ اسلامی مملکت نہیں جس کے خواب آنکھوں میں سجاکر ایک علیحدہ ملک بنایا گیا تھا
یعنی یہاں عصمتیں اب بھی غیر محفوظ تھیں، یہاں انصاف ملنا اب بھی ناممکن تھا، یہاں حقوق کی ادائیگی اب بھی ایک خواب تھی
پھر بھی یہ بات سب کے اذہان میں محفوظ رہی کہ یہ مملکت اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ہے
اسی لئے کبھی ڈنڈا بردار شریعت کا نفاذ کیا جاتا اور کبھی اس ڈنڈا بردار شریعت کے خلاف مزاحمتی ڈنڈا اٹھایا جاتا رہا
پاکستان کے قائم ہونے کے پچھتر سال بعد بھی چوہا بلی کا یہ کھیل جاری ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ چوہا بلی کا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا
کیونکہ ہمارے ہاں اتفاق رائے تقریباً ناممکن ہے، ہم کبھی کسی مؤقف پر ایک پیج پر جمع ہوکر یک زبان نہیں ہوسکتے
ہمارے ہاں اختلاف کرنا ایک ٹرینڈ ہے، اپنی کہنا اپنی بات برتر رکھنا یہی رواج یہاں عام ہے ۔۔

اب آتے ہیں اصل مدعے پر ۔۔۔
چودہ اگست 2021 کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارلحکومت لاہور کے تاریخی میدان میں ایک ٹک ٹاکر لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے ۔۔

ویڈیو میں ایک جم غفیر نظر آتا ہے جو ایک لڑکی سے ہر حد تک محظوظ ہونے کی کوششوں میں مگن ہے ۔

لڑکی بیچارگی میں یہاں سے وہاں ایک کرکٹ گیند کی مانند نظر آتی ہے ۔۔۔

ہجوم کا ہر سال تاریخی دنوں پر تاریخی مقامات پر پایا جانا عام سی بات ہے
ہم نے جب کبھی اپنے گھروں میں تاریخی دنوں میں تاریخی مقامات پر جانے کی فرمائش کی تو گھر والوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ آج تو سب لفنگے وہاں موجود ہوں گے آج نہیں جاسکتے ۔۔

یعنی تاریخی ملک کے تاریخی مقامات اہم تاریخوں پر فقط لفنگے ہی انجوائے کرسکتے ہیں ۔۔

خیر چودہ اگست کو ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ اس اندوہناک واقعے کے بعد جب آہ و بکا مچائی گئی تو جواب یہی ملا

کہ آخر یہ لڑکی وہاں کرنے کیا گئی تھی، اور یہ ٹک ٹاکر ہے شہرت کے حصول کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے

اس دل دہلادینے واقعے کے بعد لوگوں کے تنقیدی رویے کی وجہ سے ملک عظیم کی عظمت دل میں شدید گھر کرگئی

کہ اس آذاد ملک کی فضاؤں میں عورت اگر گھر کی چار دیواری میں قید رہے گی تو تب ہی محفوظ ہے

ٹک ٹاکر عائشہ نے اس واقعے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی اور فوراً میڈیا کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا
اور ٹک ٹاک کے ذریعے ہی اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کی لوگوں سے شکایت سے کی
عائشہ کی بعد کی ویڈیوز کے بعد جو لوگ اس کا ساتھ دینے کیلئے چیخ رہے تھے سب نے دانتوں میں انگلیاں دبالیں کہ یہ کیا ماجرا ہے؟؟؟

ایک لڑکی جس کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا وہ اس قدر فریش حلئے میں آکر لوگوں کو سب بتارہی ہے،
پوری ایمانداری کے ساتھ مجھے بھی عائشہ کے لفظ معیوب محسوس ہوئے کہ کوئی بھی لڑکی اس قسم کے واقعے کے بعد اس طرح خود کو پبلک کرے اور ایسی زبان میں بات کرے
عائشہ کو چاہئے تھا کہ جو لوگ اس کی حمایت کررہے ہیں وہ ان کا بھرم رکھتی
خودکشی نہ بھی کرتی تو کم از کم چند نشہ آور گولیاں کھاکر سر پر خاک ڈال لیتی اور پھر میڈیا کے سامنے آکر اپنا چہرہ چھپانے کی فرمائش کرتی
تاکہ اس کے لئے بولنے والوں کے پاس اس کی حمایت جاری رکھنے کے لئے کچھ تو مواد ہوتا ۔۔

عائشہ ٹک ٹاکر مشہوری چاہتی تھی، اور اس نے اپنے فالورز بڑھانے کے لئے یہ سب کچھ کیا

اگر عائشہ کے لئے یہ سب مان بھی لیا جائے تب بھی وہ ویڈیو کلپ جس میں بہت سے لفنگے مرد ایک عورت پر پبلک مقام پر ہجوم میں جھپٹ رہے ہیں ایک جھرجھری سی پیدا کررہا ہے
یہ وہ ویڈیو اور وہ مناظر تھے جن کے دیکھنے کے بعد وہاں موجود لوگوں کی لئے دل نے بے اختیار لعنت بھیجی تھی

کیونکہ اس تمام واقعے نے ملک کی ہر لڑکی ہر عورت جو پہلے ہی بہت سی پابندیوں کا سامنا کررہی ہے اسے شدید اذیت سے دوچار کیا تھا
کہ یہ ہے ہمارا آذاد اسلامی ملک؟؟؟
جہاں عورت کو ہر سال آٹھ مارچ کو درس دیا جاتا ہے کہ اسے مزید حقوق کی ضرورت نہیں جو حق اسے اسلام دے چکا وہ اس کے لئے کافی ہیں
جناب آپ اس مملکت میں عورت کو اس کا حق دے ہی نہیں سکتے
ہاں حقوق کی ادائیگی کے بغیر اس پر فرائض کا بوجھ ڈال دینا آپ اسلام کے نام پر بخوبی کرسکتے ہیں
مثلا اللہ نے عورت کو باپردہ رہنے کا حکم دیا کہ اس سے اس کو شناخت ملے گی اور یہ اس کے تحفظ کا ضامن ہوگا ،

یاد رکھئے پردہ عورت پر فرض ہے جس کی ادائیگی پر ہمارے اسلامی مرد بہت زور دیتے ہیں

جب کہ عورت کا کچھ حق بھی موجود ہے؟؟؟؟
کیا ہے عورت کا حق؟؟ عورت کا حق مردوں پر فرض احکام ہیں
جن میں سے ایک یہ ہے کہ
“”مومن مرد اپنی نگاہیں نیچے رکھیں “””

نگاہیں نیچی رکھیں کا مقصد یہی ہوا ناں کہ اپنے نفس پر قابو رکھیں؟
عورت کا حلیہ اور اس کی ادائیں نیچی نگاہ رکھنے والے مرد بخوبی نظر انداز کرسکتے ہیں
لیکن یہاں عورت کو عزت دینے کے پیمانے مختلف ہیں ۔۔۔

مدینہ ثانی بنائے جانے کے دعویدار ملک میں عورت کو سمجھایا جاتا ہے کہ جہاں لاء اینڈر آرڈر کی سچویشن ہو وہاں جانے سے گریز کریں
کیا واضح کیا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں کہاں لاء اینڈ آرڈر کا نفاذ ہے؟؟؟؟

یہاں تو درسگاہوں کا ماحول تک سازگار نہیں رہا، یہاں عورتیں محفوظ نہیں، ہر کچھ دن بعد ایک پھول جیسی بچی کا چہرہ مسخ ہوکر سامنے آتا ہے یہاں بچے جو مذکر ہوتے ہیں وہ غیر محفوظ ہیں جبکہ تیسری جنس کی حالت زار تو مت پوچھئے

المختصر مینار پاکستان واقعے کو فقط عائشہ کے کردار سے منسوب نہ کیجئے کہ اس کے ساتھ ایسا ہوگیا تو یہ زندہ کیسے ہے؟
عائشہ کو ایک ایسا کردار سمجھ لیجئے جس کی وجہ سے ہمارے چہروں کے نقاب کھینچے گئے اور بتایا گیا کہ آپ کی بیٹی اور بہن بھی یہاں غیر محفوظ ہے، آپ کی بیٹی یا بہن کے ساتھ خدا نخواستہ ایسا کچھ ہوگیا تو وہ یقیناً عائشہ کی طرح مشہوری کیلئے سامنے نہیں آئے گی، بلکہ وہ خودکشی کو ترجیح دے گی اور اس کی خودکشی آپ کو ضرور مشہور کرسکتی ہے
ہمارے ملک میں آج بھی لفنگہ راج ہے ،اس لئے اس لفنگہ راج کے خاتمے کیلئے یک زبان بولیں،
پبلک تاریخی مقامات مزار قائد ہو ،اقبال پارک یا کوئی اور جگہ وہاں سیکیورٹی کا بھرپور انتظام کرکے لفنگوں کو لگام ڈالی جائے، سزاؤں کا نظام نافذ کیا جائے
تاکہ آذاد وطن کی فضائیں ہر ایک کیلئے آذاد ہوں، یہاں سکون کا راج ہو وحشتوں کا خاتمہ ہو

Advertisements
julia rana solicitors

اور اس اسلامی ملک کی آذادی کو حقیقی معنوں میں آذادی تصور کیا جائے۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply