پہلے عورت کو انسان تو سمجھیں۔۔محمود اصغر چوہدری

روم ٹرین سٹیشن سے باہر نکلا تو ٹیکسی  سٹینڈ پر مسافروں کی لمبی قطار تھی۔ ٹیکسیاں تو تیزی سے آرہی تھیں لیکن مسافر بہت زیادہ تھے ۔میری آدھے گھنٹے بعدسفارت خانہ میں پاکستانی سفیر تسنیم اسلم سے میٹنگ تھی ۔ مجھے ٹیکسی ملنے میں پورے پچیس منٹ لگ گئے۔ یہ ایک مرسیڈیز کار تھی ۔اس میں سوار ہوا تو دیکھا کہ ٹیکسی ڈرائیور ایک اطالوی خاتون تھی۔اسے منزل کا بتایا ہی تھا کہ ایمبیسی سے فون آگیا ۔ پوچھاگیا سر آپ کہاں ہیں ؟ میڈیم آپ کا انتظار کر رہی ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ بس بیس منٹ میں پہنچ گیا ۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج تمہیں اپنی مہارت دکھانا ہوگی ۔ مجھے کسی بھی طریقے سے بیس منٹ میں ایمبیسی پہنچاؤ ۔ میری ایمبیسڈر سے میٹنگ ہے ۔ وہ کہنے لگی کہ پاکستانی ایمبسیڈر تو خاتون ہیں نا ۔ میں نے کہا ہاں ۔کہنے لگی فکر نہ کرو مجھے بہت سے شارٹ کٹ آتے ہیں ۔ اور پھر اس نے واقعی بیس منٹ میں مجھے ایمبیسی کے دروازے پر پہنچا دیا ۔ میں اسے کرایہ دے کر نیچے اترنے لگا تو کہنے لگی ٹھہرو ۔۔۔ اپنی ٹائی ٹھیک کرو ! اور پھر مجھے کہا کہ تمہارے بال بھی اڑے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے بال بنائے۔۔ کہنے لگی یاد رکھو کسی مر د افسر سے ملاقات کرنی ہوتو اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن خواتین بڑی نفاست پسند ہوتی ہیں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھتی ہیں ۔پہلا امپریشن اچھا ہوتو میٹنگ کے نتائج اچھے نکلتے ہیں، میں نے اسے کہا سچ تو یہ ہے کہ یہ سارے ٹپس مجھے کوئی مرد ٹیکسی ڈرائیور نہیں دے سکتا تھا ۔ اس نے دوبارہ ایک تنقیدی نظر ڈالی اور کہا کہ ہاں اب جاؤ ۔ میں ایک عورت کی نظر سے کہہ رہی ہوں کہ تمہاری میٹنگ نہ صرف کامیا ب ہوگی بلکہ تاخیر سے آنے پر وہ خفا بھی نہیں ہوں گی ۔

میں ان دنوں محترمہ تسنیم اسلم سے خوف زدہ بھی تھا ۔ چندہفتے پہلے میں نے ایمبیسی کے خلاف کالم لکھا تھا اور انہیں برائے راست تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے میٹنگ ہال میں پہنچا میڈم تشریف لائیں اور اس سے پہلے کہ  میں معذرت کرتا وہ خودہی کہنے لگیں ۔۔ صبح صبح روم کی ٹریفک بہت مصروف ہوتی ہے۔ بعد میں میری ایک اٹالین بزنس وفد کے ساتھ میٹنگ ہے اسی لئے فون کروایا ۔ میں نے گفتگو شروع کی توانہوں نے چائے منگوا لی ۔ میٹنگ میں کمیونٹی مسائل کے موضوع زیر بحث تھے گفتگو لمبی ہوئی تو میرا چائے کی طرف دھیان ہی نہ گیا ۔اچانک انہوں نے چائے کی طرف دیکھا اورکہنے لگیں ۔۔۔” اوہ چائے تو آپ نے پی ہی نہیں، کیا میں آپ کو چائے بنا دوں ؟“اتنی بڑی آفیسر سے یہ جملہ میرے لئے حیران کن تھا ۔ اس دن مجھے سمجھ آئی کہ عورت چاہے ٹیکسی ڈرائیور ہو یا کسی ملک کی سفیر اس کے  اندر ہمدردی اور احساس کرنے والی ایک اضافی حس ضرور موجود ہوتی ہے جو مردوں میں کمیاب ہوتی ہے۔

عورت اگر جاب پر آپ کی کولیگ ہو تو یہ بھی ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہمارے دفتر کی سیکرٹری جینا کی عمر پچاس سال کے قریب تھی ۔بہت سے ٹپس وہ بطور عورت ہی نوٹ کر سکتی تھی مثلا ً اس نے مجھے سمجھانا ہوتا تھا کہ لائینوں والی شرٹ پر لائینوں والا سویٹر نہیں پہنتے ۔ اگر شرٹ پلین ہوتو سویٹر لائینوں والا یا چیک والا چل سکتا ہے یعنی دونوں ایک جیسے نہیں ہونے چاہیے ۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ مردوں کو پنک شرٹ زیادہ نہیں پہننی چاہیے ۔

رامونا میرے ساتھ والے دفتر میں بیٹھتی تھی اس کاکام تھا کہ اگر کبھی میرے دفتر کا چکر لگے تو میرا کمپیوٹر دیکھ کر کہتی کیا حال بنا رکھا ہے ۔کتنی گندی سکرین ہے ۔ اسی وقت جاتی اور اپنے دفتر سے  سپرے اور ٹشو پیپر لے آتی اور اسے صاف کرنا شروع کر دیتی ۔ میرے دفتر میں کم از کم بیس مرد بھی کام کرتے تھے کبھی کسی نے مجھے شرٹ کے بارے یا کمپیوٹر کی صفائی کے بارے کوئی ہدایت نہیں دی ۔

ایک دفعہ تو یوں ہوا کہ ہم روم ایک مظاہر ے میں شرکت کے لئے گئے تیس لاکھ لوگوں کا ہجوم تھا میں نے سر پر کیپ پہن رکھی تھی ۔ جینا مجھے وہاں ملی اور کہنے لگی یہ تم نے کیپ کیسے پہن رکھی ہے اس نے خود ہی میرے سر سے کیپ اتاری اس کے بٹن کھولے او ر سر پر ٹھیک طریقے سے رکھ دیا، میں نے اسے کہا کہ ان تیس لاکھ لوگوں میں صرف تم ہی یہ نوٹ کر سکتی تھی ۔

زہر کا تعلق مراکش سے تھا وہ عمر میں مجھ سے چھوٹی تھی لیکن چونکہ وہ مسلمان تھی اس لئے ہم سب دفتر والے جہاں کہیں بھی کھانا کھانے جاتے تومجھے محسوس ہوتا کہ وہ میری ماں کاکردار ادا کرنا شروع ہوگئی ہے ۔ میں ابھی مینو پڑھ رہا ہوتا اور وہ خود ہی میرے بھی کھانے کا آرڈر دینے لگتی وہ خود ہی بہرے کو کہنا شروع کر دیتی کہ اس کے لئے فلاں فلاں چیزیں نہیں لانی ۔میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی ،کھانا میرا ہے تو میں نے انتخاب  کرنا ہے یا تم نے ؟ وہ کہتی مجھے پتہ ہے بطور مسلمان تم  کیا کھا سکتے ہو اور کیا نہیں ۔

میری اطالوی دوست جوانا ہرروز دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھاتی تھی لیکن جس دن سے رمضان شروع ہوجاتا اس دن سے وہ بھی دوپہر کا کھانا چھوڑ دیتی میں اس سے پوچھتا کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے رمضان توہمارا ہے تم تو کھانا کھا سکتی ہو ۔ وہ ہمیشہ کہتی کہ نہیں اب تم نے نہیں کھانا تو میں اکیلے کھاﺅں یہ تو اچھی بات نہیں۔ ایک مہینے کی تو بات ہے یہ یوں گزر جائے گا ۔ البتہ کبھی کبھی وہ ضرور کہتی کہ چلو آئس کریم کھانے جاتے ہیں مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔ آئس کریم شاپ پر جاکر جب ہم ایک ہی آئس کریم کا آرڈر دیتے تو دوکاندار حیرت سے دوبارہ پوچھتا ۔ ایک ہی ؟ ہمیں اسے سمجھانا پڑتا کہ ہاں ایک ہی۔۔۔

جن معاشروں میں عورت اور مرد کے اختلاط کوبرا سمجھا گیا اور انہیں تعلیم یا روزگار کے حوالے سے علیحدہ رکھا گیا وہاں شایدعورت کی تحریم اور تقدس زیادہ محفوظ رہتی ہوگی اور ان معاشروں میں دوران تعلیم اور جاب کے دوران ہراساں کئے جانے والے واقعات کا تناسب بھی کم ہوگا ۔ لیکن اس کا ایک نقصان بھی بہرحال ہوا ہے کہ عورت کے بارے ایک عمومی تاثر ذہنوں میں راسخ ہوگیا ہے کہ عورت شاید ایک الگ ہی مخلوق ہے جس کا صرف ایک ہی مصرف ہے ۔ اس لئے عموماًان معاشروں میں صرف ایسی عورت ہی قابل عزت سمجھی گئی  جو گھرکی چار دیواری میں رہے اور ہر ایسی عورت کوجنس کی نظر سے دیکھا گیا جوباہر نکلی ۔مردوں کی محافل میں اس کی موجودگی شہوانیت سے تعبیر کی جانے لگی ۔ اس لئے وہ اگر کہیں تنہا نظر آگئی تو بعض معاشروں میں اس پر چیلوں کی طرح جھپٹنا ضروری سمجھا گیا جیسا کہ ان دنوں پاکستان میں سیاسی جلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین کے بارے ٹی وی رپورٹس نظر آتی رہتی ہیں ۔

اسی طرح اگر کوئی خاتون روزگار یاتعلیم کے لئے باہر نکلی تو اسے بھوکی نظروں سے دیکھا گیا ۔ دوران سفر انہیں ہراساں کیا جانا معمول کی کارروائی سمجھی گئی ۔ اگرغلطی سے کسی عورت نے کسی مرد سے اخلاق کا مظاہرہ کر دیا یا ہنس کر بات کرلی تو مردوں کے دل میں غلط فہمی پیدا ہوگی۔”تو کالج نہ جاتی تو تیرے یہ دیوانے نہ ہوتے “اور ”ہنسی جو ‘وہ پھنسی “جیسے جملے زبان زد خاص و عام ہو گئے

آٹھ مارچ خواتین کے حقوق کا عالمی دن ہے ۔اس سال اگر ہم بحیثیت قوم عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرنے کی بجائے صرف ایک یہی تہیہ کر لیں کہ ہم عورت کو ایک جیتا جاگتا انسان سمجھ کر عزت دینا شروع کردیں گے تو باقی کے حقوق کا سفر بھی شروع ہو جائے گا ۔ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے دنیا کے معاشی مسائل بھی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں سعودی عرب جیسے ممالک میں خواتین کے لیے ڈرائیونگ اور روزگار کے مواقع بنانا ضروری ہو چکا ہے۔جو خواتین گھر میں بچوں کی پرورش اور تربیت جیسا مشکل فریضہ سر انجام دیتی ہیں وہ یقیناً قابل عزت اور قابل ستائش ہیں لیکن اگر کسی عورت کو تعلیم ، روزگار یا دیگر امور کے لئے گھر سے باہر نکلنا پڑے تووہ بھی اتنی ہی قابل عزت ہے ۔

کوئی بھی معاشرہ تہذیب یا تمدن میں کتنا ترقی یافتہ ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہاں کی عورت کتنی محفوظ ہے ۔ہمیں اپنی سوچ کا انداز بدلنا ہوگا یہ وقت ہے کہ ہم صرف بیٹیوں کو ڈر سکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹوں کی بھی تربیت کریں کہ عورت صرف ماں بہن ،بیوی یا بیٹی کی حیثیت سے ہی قابل احترام نہیں ہے بلکہ بطور انسان اس کا ہر روپ اور ہر انداز احترام کے قابل ہے۔ وہ آپ کی ڈاکٹر ہوسکتی ،ٹیچر ہوسکتی ہے ، وہ کسی پبلک آفس میں سیکرٹری ہو سکتی ہے ، کسی سپر سٹور یا بنک میں کیشئر ہو سکتی ہے ۔با امر مجبوری فیکٹری ورکر یا بس ڈرائیور ہو سکتی ہے ۔ سکول میں آپ کی کلاس فیلو یا دفتر میں کولیگ ہوسکتی ہے۔ وہ ہرا نداز میں قابل احترام ہے ۔ وہ کوئی مال غنیمت نہیں جس پر جھپٹا جا سکے ۔ اگر عورت کا لفظ ذہن میں آتے ہی  آپ کے منہ سے رال ٹپک جائے تو یقین کریں کہ جنگل میں مستانہ رقص کرنے والے کسی شہوانے ریچھ میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں!!

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply