نوٹ: یہ سلسلہٴ مضامین پروفیسر ڈینس ہرمن کے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو اقساط کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ اس سلسلے کی آخری قسط ہے۔اصلی نسخے اور حوالہ جات کو دیکھنے کیلئے اس لنک کو کلک کریں:
Akhund Khurasani and the Iranian Constitutional Movement
حاصلِ بحث
(آخوند خراسانی کی رحلت کے پچانوے سال بعد 2006ء میں)نئی سامنے آنے والی دستاویزات تک دسترس ہمارے لئے اس چیز کو ممکن بناتی ہے کہ ہم نہ صرف تحریکِ جمہوریت میں آخوند خراسانی کے کردار کو زیادہ واضح طور پر سمجھ سکیں، بلکہ مشروطہ خواہ علما کے درمیان ظریف اختلافات کا بھی احاطہ کر سکیں ۔ان خطوط اور بیانات کے مطالعے سے جو بات قاری کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے وہ آخوند خراسانی کے دلائل کا بہت سادہ ہونا ہے ۔قانون کے بڑے علما کی طرح آخوند خراسانی، آیت الله عبد الله مازندرانی اور آیت الله میرزا محمد حسین تہرانی کی ہمراہی میں، نظریات اور سیاست کے میدان میں میانہ روی کے ساتھ داخل ہوئے اور چونکہ وہ سکوت کو ترجیح دیتے تھے، لہذا صرف اس وقت مداخلت کا فیصلہ کرتے تھے جب سماجی ضابطے (حسبیہ) کو خطرہ ہوتا تھا ۔پس آخوند خراسانی کا اصل کردار شرعی جواز کا تعین کرنے والی قوت کا تھا، جو آئین، ارکانِ پارلیمنٹ، علماء اور صوبائی تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے ساتھ ہی پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے اور ملک کو جدت کے راستے پر ڈال کر مغربی تسلط سے بچنے کی ضرورت کا احساس دلاتی رہتی تھی ۔
نتیجتاً آخوند خراسانی نے کبھی آئین سازی کی بحث میں حصہ نہ لیا ۔ان کے بیانات کی نوعیت ہمیشہ کلی رہی اور انہوں نے اپنے قاریوں کو یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ آئین بنانا شریعت کے مطابق ہے اور ایک پارلیمانی حکومت ہی اسلام کی بنیادوں کے تحفظ کا بہترین طریقہ اور قرآن کی اس تعلیم کے مطابق ہے کہ جس میں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کا کہا گیا ہے ۔انہوں نے شیخ فضل الله نوری اور دوسرے جمہوریت مخالف علما کی طرف سے نئے سیاسی انتظام پر اٹھائے گئے اعتراضات کا کوئی جواب نہ دیا، جن میں خدا کے نازل کردہ احکام اور عوام کی منشا میں تضاد [148] کی صورت میں پیدا ہونے والاسوال اور یہ سوال کہ نئی آئینی حکومت کیلئے امورِ شریعت یا امورِ عامہ کے بارے میں قانون سازی نہ کرنا ممکن نہ ہو گا، بھی شامل ہے ۔[149] کہا جاتا تھا کہ موٴخر الذکر صورت میں آئینی جمہوریت علماء کے اختیارات محدود کرے گی اور اس کیلئے امورِ عرفیہ تک محدود رہنا ممکن نہ ہو گا ۔
درباری علما کیلئے انتظامیہ کا شاہ کے ہاتھوں میں ہونا اور عدلیہ کا ان کے اپنے ہاتھوں میں ہونا ہی کافی اور ضروری تھا ۔لہذا انہیں ایسا لگا کہ مقننہ کا قیام یا تو شاہ کے اقتدار کے منافی یا پھر دین کی مخالفت ہے ۔اس موضوع پر جمہوریت مخالف عالم محمد حسین تبریزی کا جملہ نقل کیا جا سکتا ہے:
”لیکن ہم، جو اہلِ اسلام و ایمان ہیں، شریعت کے احکام کو کافی سمجھتے ہیں اور ہمیں مقننہ کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ بادشاہ اور اس کی رعیت شریعت کے مطیع ہیں ۔ہم بادشاہ کی نافرمانی کرنےکی اجازت کسی کو نہیں دیں گے ۔“ [150]
تاہم جب بات نہ بنی تو کہنے لگے کہ پارلیمنٹ بادشاہ کی مرضی سے مذہبی گھرانوں کے افراد میں سے بنائی جائے ۔ان کے مطابق پارلیمنٹ کا ہر کام علماء کی توثیق اور فتوے کے بعدہی آگے بڑھنا چاہیے ۔20 اپریل 1907ء میں شیخ فضل الله نوری نے یہ مشورہ دیا کہ پانچ مجتہدین کی ایک کمیٹی بنا دی جائے جو پارلیمنٹ میں رائے شماری سے پہلے ہر قانون کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے کہ وہ شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس قسم کی کونسل کے قیام کی تجویز کو ان مجتہدین نے اپنی توہین سمجھا جو انتخاب جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے تھے ۔[151] اس کے علاوہ شیخ فضل الله نوری کو آئین کے آرٹیکل آٹھ اور انیس پر بھی اعتراض تھا ۔اس تحقیق میں جن دستاویزات پر کام کیا گیا ہے ان میں اس موضوع پر آخوند خراسانی کا کوئی جواب موجود نہیں ہے ۔آرٹیکل آٹھ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آئین کی نگاہ میں برابر کا شہری قرار دیا گیا تھا اور آرٹیکل انیس ریاست کو اس بات کا پابند بناتا تھا کہ وہ سب کیلئے تعلیمی ادارے قائم کرے گی ۔اس سے علمائےکرام کی تعلیم پر اجارہ داری خطرے میں پڑتی تھی اور دوسرے اس سے لڑکیوں کو بھی تعلیم کے مواقع میسر آ سکتے تھے ۔ہمیں معلوم ہے کہ آرٹیکل آٹھ کی مخالفت تو جمہوریت پسند مجتہد سید عبدالله بہبہانی نے بھی کی تھی ۔آخوند خراسانی نے شیخ فضل الله نوری کی طرف سے پریس کی آزادی کے خلاف دئیے گئے دلائل کا بھی کوئی جواب نہیں دیا جبکہ ثقۃ الاسلام تبریزی نے کہا کہ قلم و زبان اور پریس کی آزادی کا مثبت رخ یہ ہے کہ ان کو قرانی حکم کے مطابق اچھائی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔[152]
واضح ہے کہ آخوند خراسانی نے جمہوریت خواہ علما کی بھی بہت سی نظریاتی اور عملی تجاویز پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا ہے ۔مثال کے طور پر مجتہد سید عبد الحسین لاری کا مطالبہ کہ پارلیمنٹ کے اراکین صرف مجتہدین ہونے چاہئیں اور ان کا سربراہ کسی مرجع تقلید کو ہونا چاہیے، [153]اور عماد العلما خلخالی کی رائے کہ مقامی تنظیموں کے طریقہ کار کو شفاف بنایا جائے یا یہ کہ دو مجالس قانون ساز بنائی جائیں جن میں ایک کے ارکان عوام سے منتخب ہو کر آئیں اور ایک کے ارکان بادشاہ کی طرف سے چنے جائیں ۔
بدیہی ہے کہ سب سے بڑے مرجع اور عتبات کے مجتہدوں کی بڑی تعداد کا تحریکِ جمہوریت کی غیر متزلزل حمایت کرنا ایران میں سیاسی عمل کے ارتقاء پر گہرے اثرات مرتب کر رہا تھا ۔ہر پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد آخوند خراسانی کے فتووں کا حوالہ دیا کرتے تھے تاکہ اپنے مقصد کی مذہبی توجیہ کر سکیں ۔اگرچہ آخوند خراسانی نے نظریۂ سیاست پر کوئی کتاب نہیں لکھی، لیکن سیاسی گروہ ان کو آیت الله محمد حسین نائینی کے نظریات کا موٴید قرار دیتے تھے، اگرچہ جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے، ان کے نظریات آیت الله شیخ اسماعیل محلاتی کی کتاب کے زیادہ قریب معلوم ہوتے ہیں ۔
باوجود اس کے کہ آخوند خراسانی نے تحریکِ جمہوریت میں بڑا فعال کردار ادا کیا، ان کو مورخین نے کما حقہ جگہ نہیں دی، اس سلسلے میں ایرانی مورخین کا قصور زیادہ ہے ۔آخوند خراسانی کو ایک بڑے فقیہ اور اصولِ فقہ کی ایک اہم کتاب کے مولف سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا ۔اس غفلت کی توجیہ کیلئے یہ کہنا کافی نہیں کہ انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کو ایک کتاب کی شکل میں نہیں لکھا ۔فقہا کے بیان کردہ شرعی مسائل کی تنگناؤں سے نکل کر ان کا مسلم دنیا کے بارے میں اقدامات اٹھانا؛ ان کا ایران آ کر سیاسی طاقت کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے بجائے نجف میں رہنے کو ترجیح دینا؛اور ان کا مذہبی کٹر پن سے آزاد ہونا؛ یہ سب اس بات کے اسباب میں سے ہیں کہ موجودہ دور میں اسلام کی اخوانی تعبیر کے پیروکار ان کے ذکر سے گریز کریں ۔1979ء کے انقلاب کے بعد اس غفلت میں اضافہ ہوا، جب آخوند خراسانی کے مخالف شیخ فضل الله نوری کو تحریکِ جمہوریت کے دوران مقاومت کا ہیرو بنا کر پیش کیا جانے لگا ۔
ختم شد۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں