مارٹن سیموئیل برق (حصّہ اوّل)۔۔اعظم معراج

مارٹن سیموئیل برق (حصّہ اوّل)۔۔اعظم معراج/یہ 2011ء کی بات ہے۔ ان دنوں میں تحریکِ شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے پاکستانی معاشرے کو بنانے سنوارنے میں شاندار کردار ادا کرنے والے ہیروز کی تلاش میں سرگرداں تھا۔میرے ریسرچر (میرے بچے) ابھی چھوٹے تھے۔ پھر بھی اپنے اسکول کی مصروفیت سے وقت نکال کر کبھی کبھار میرے لیے کوئی ای میل کر دیتے یا اگر مجھے کسی روشن مثال کا کوئی کھوج ملتا تو مجھے اسے گوگل وغیرہ پر تلاش کرنے میں مدد دیتے۔ میرا کمپیوٹر کے بارے میں علم آج کی طرح اس وقت بھی معمولی سا تھا۔ انہی دنوں اس تلاش کے دوران بریگیڈیئر سیمسن سائمن شرف کا نام سامنے آیا۔ یہ مسیحی فوجی افسر بقول اسرار کسانہ واقعی اسکالر سولجر لقب پر پورا اترتا ہے۔ شاندار فوجی کیرئیر گزارنے کے بعد یہ قومی اور بین الاقوامی اخبارات کے لیے لکھتے بھی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ٹیم کے اہم رکن بھی تھے۔ انہی کے بارے میں ایک دن مزید ریسرچ کرتے ہوئے ان کا مارٹن سموئیل کے بارے لکھا ہوا ایک آرٹیکل میری نظروں سے گزرا۔ یہ آرٹیکل انگریزی زبان میں تھا اور برصغیر کے کروڑوں اردو میڈیم خواتین و حضرات کی طرح انگریزی سے میری شد بد بھی واجبی سی ہے لیکن اس کے باوجود میں نے انتہائی توجہ سے یہ آرٹیکل پڑھا۔بریگیڈیئر صاحب نے جس طرح اس عظیم شخصیت کی سفارت کاری کو بیان کیا تھا اور ننکانہ صاحب مارٹن پور سے اس عظیم شخصیت کے تعلق پر اپنے لیے حیران کن اور قابل فخر کردار دیا تھا اس نے مجھے بھی جوش ولولے سے بھر دیا۔ ان دنوں پاکستانی مسیحی نوجوانوں کی روشن مثالیں ڈھونڈنے کا میرا جنون اپنے عروج پر تھا۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب کے اس آرٹیکل کو بار بار دھیان سے پڑھا جو کہ حیران کن طور پر مجھے پورا سمجھ آ رہا تھا۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ تک بندی سے انگریزی پڑھنے کی میری مشق نے اس سے پہلے کبھی اتنے شاندار نتائج دیے ہوں۔یہ رات گیارہ کے بعد کا وقت تھا۔ بچے سو چکے تھے۔
میں عموماً سارے انگریزی سے مرعوب اور نابلد برصغیری باشندوں کی طرح اپنی اس کمزوری کا کسی کو پتہ لگنے نہیں دیتا تھا۔ لہٰذا ای میل یا میسجزپر بچوں سے ہی انگریزی میں جواب لکھواتا ہوں۔ لیکن میں اس آرٹیکل کے سحر میں اور خاص کر اس کھوج کو جب میں تحریک شناخت کے اغراض مقاصد سے جوڑتا تو مجھے یہ کھوج کسی طرح بھی کسی خزانے سے کم نہ لگتی۔ اسی جوش اور ولولے میں، میں نے غلط سلط انگریزی میں بریگیڈیئر صاحب کو ای میل کی، آرٹیکل کی تعریف کی، اپنے احساسات کا اظہار کرنے کی کوشش کی اور ان سے ان کا نمبر مانگا۔ اس طرح مسیحی نوجوانوں بلکہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے اس روشن مثال سے میرا تعلق بنا۔ اس آرٹیکل میں مارٹن سموئیل برق کے آبائی گاؤں مارٹن پور کا ذکر تھا۔ اس گاؤں سے میرا غائبانہ تعارف76-1975ء میں ہوا۔ جب میں چوتھی جماعت میں نارویجن گورنمنٹسیکنڈری اسکول میں داخل ہوا تو میری دوستی اپنے بچپن کے دوست امین صدیق کے ذریعے رفیق سے ہوئی۔ رفیق ایم خان (ایم سے مسیح یا مختار) بھی ہمارا محلے دار تھا۔ اس کے خاندان نے شاید بہاولپور کے کسی علاقے سے ہجرت کی تھی۔ اسکول کے بعد میرا باقی دو دوستوں امین اور اشرف کے ساتھ سارا وقت رفیق کے گھر کے باہر گزرتا تھا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ ان کی گلی کشادہ اور غیر آباد تھی۔ ہمارے ٹھاہ فٹ کلب کی پریکٹس اور اکثر چھوٹے موٹے میچز بھی وہیں ہوتے تھے۔ کھیل کے بعد سب گھروں کو چلے جاتے لیکن ہم تین دوست رفیق کے گھر یا گھر کے باہر لگی کیکر کی سوکھی جھاڑیوں کی باڑ میں بیٹھ جاتے۔ اکثر میں رفیق، امین اور اشرف مل کر رفیق کی دادی کی گالیوں کے ساتھ ان کے گھر کا کھانا بھی کھاتے۔ یہ جھاڑیوں کی باڑکراچی شہر میں گاؤں کا منظر پیش کرتی تھی۔ رفیق کے والد چاچا مختار مسیح ریلوے میں ملازم تھے۔ وہ دو تین بجے نوکری سے آ جاتے۔ پھر وہاں کشمیر کالونی کے

ساتھ بہتے گندے نالے کے پار موجودہ اقراء یونیورسٹی ڈیفنس ویو والے علاقے میں کیکر کے جنگلات سے لکڑیاں کاٹ لیتے جن کو وہ گھر کے باہر ہی اسٹور کرتے۔ ان لکڑیوں  کی حفاظت کے لیے وہ باڑ بنائی گئی تھی۔ اس باڑ کے اندر ہی وہ روز مرہ کے ایندھن کے لیے لکڑی مزید چھوٹی کرتے۔ ہم بھی شوق سے اس کام میں حصہ لیتے اور کئی بار جب رفیق اپنے والد کے ساتھ لکڑیوں کی کٹائی کے لیے گندے نالے کے پار جنگل جاتا تو ہم بھی ساتھ ہو لیتے۔ ہمارے گھروں میں مٹی کے تیل والے اسٹوو استعمال ہوتے تھے لیکن شہر کے بیچوں بیچ لکڑ ہاروں والا یہ کام ہمیں بڑا ہی مزہ دیتا۔ ہمارے لیے ساری کراچی صرف کراچی کے یہ تین محلے اختر کالونی، اعظم بستی، کشمیر کالونی ہی تھے۔ کراچی کے اس علاقے میں پاکستان بھرسے آئے ہوئے ہر علاقے کے لوگ رہتے تھے۔یہ ایک منفرد علاقہ ہے۔ یہاں پاکستان بھر کے ہر رنگ و نسل جغرافیہ مسلک سے تعلق والے لوگ بستے ہیں۔ لیکن مسیحی زیادہ وسطی پنجاب سے آئے دیہاتوں کے لوگ تھے۔ پنجاب میں دیہاتوں میں عموماً مسیحیوں کے چند گھرانے ہی ہوتے ہیں۔ جن میں سے اکثر کھیت مزدور کچھ حصے ٹھیکے پر زمین لے کر کاشت کاری کرتے ہیں۔ کچھ برصغیر میں تاریخ کے جبر ذات پات والے دھرم کے زیر اثر پستیوں میں دھکیلے گئے ٹھکرائے ہوئے پیشے (یعنی شعبہ صفائی ستھرائی) سے وابستہ ہیں۔ 1972ء سے ہماری یہی روٹین تھی۔ اسکول سے گھر،گھر سے گراؤنڈ جو شروع میں کشمیر کالونی کی رفیق ایم خان کے گھر کے سامنے والی بڑی سڑک ہی تھااور بعد میں جنگل کے درمیان درختوں کی کٹائی کے بعد جنم لینے والا میدان جہاں اب ڈیفنس ویو آباد ہے، منتقل ہو گیا۔ کبھی کبھار خصوصی میچ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز I کے خالی پلاٹوں میں ہوتے۔ یہ عجیب اتفاق ہے۔ پچھلے پندرہ سال سے فیز ون کے انہی گراؤنڈ میں سے ایک پر میری رہائش ہے۔ یہ 1978یا 1977 کی کوئی سہ پہر تھی جب ہم رفیق کے گھر پہنچے تو وہاں دو اجنبی مہمان تھے کیونکہ ان کے سب روایتی مہمانوں کو ہم جانتے ہیں۔ پتہ چلا یہ رفیق کی والدہ کے رشتے کے بھائی ہیں یعنی رفیق کے ماموں ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام قمر تھا اور رفیق نے بتایا یہ گریجویٹ ہیں۔ دوسرے بوڑھے سے تھے ان کا نام میں بھول گیا ہوں۔ کچھ دنوں بعد ایک تیسرا غیر معمولی لمبا چوڑا اور وجیہہ نوجوان مائیکل بھی آ گیا۔ رفیق نے بتایا کہ”یہ تینوں آپس میں کزن ہیں۔ میری امی کے بھی کزن ہیں اس طرح میرے ماموں ہیں اور ینگسن آبادسے ان کا تعلق ہے۔ ینگسن آباد اور مارٹن پور ننکانہ صاحب کے پاس دو جڑواں مسیحی گاؤں ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی ا پنی زرعی زمینیں ہیں۔ وہاں سب لوگ مسیحی رہتے ہیں۔ بڑے اچھے اسکول، ہاسٹل اور گراؤنڈ ہیں۔ ان دونوں دیہاتوں سے بڑے لوگ افسر بھی بنتے ہیں۔ بہت سے یورپ امریکا میں بھی رہتے ہیں“۔ اس طرح میرا مارٹن پور سے یہ پہلا تعارف تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ہم تینوں کو ان تینوں نے بھی لفٹ کروانا شروع کر دی۔ مائیکل شاید نوکری کی تلاش میں نکل جاتا جو ذرا بزرگ تھے وہ رفیق کی والدہ والی سلائی مشین پر سارا دن کپڑے سیتے رہتے۔ قمر صاحب صاف ستھرے کپڑے پہن کر سارا دن گھر میں ہی رہتے، شام کو ہمارے ساتھ تاش کھیلتے۔ مائیکل تو اپنے کاموں میں مصروف رہتے لیکن باقی دونوں ہمارے ساتھ گھل مل گئے اور ہمیں اپنے گاؤں کے قصے سناتے جو ہمیں حیران کر دیتے کہ پاکستان میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مسیحی زمیندار ہوں سارا گاؤں مسیحیوں کا ہو، بڑے بڑے اسکول، گراؤنڈ ہوں،وہاں سب مسیحی رہتے ہوں، افسر بنتے ہوں اور بے تحاشا بنتے ہوں۔ ہم نے تو دوردور تک ایسا کوئی واقعہ نہیں سنا تھا کہ مسیحی افسر ہو حالانکہ ہمارے اسکول میں کراچی کے اور بھی کئی علاقوں کے مسیحی بچے پڑھنے آتے تھے۔ وہاں مسلمان بچوں سے افسری شفسری کی باتیں سنی تھی۔ جن دیہاتوں سے ہمارے والدین نے ہجرت کی تھی وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا گو کہ کچھ حصے ٹھیکے پر کاشت کاری کرنے والے گھرانے معاشرے میں اچھے خاصے عزت دار تھے۔ لیکن اپنا نمبر دار، اپنے چوہدری اور بڑے بڑے گراؤنڈ اور ہوسٹل کبھی کبھی یہ سب ہمیں جھوٹ فریب لگتا اور خاص کرمیری شک کی وجہ یہ بھی تھی جس کا میں نے کبھی اظہار نہ کیا کہ اگر ایسا ہی سب ہے تو پھر یہ تینوں یہاں بہن کے گھر شہر میں کیوں پڑے ہیں۔لیکن شک کی یہ لہر ایک لمحے کے لیے آتی۔ اور پھر جلد ہی گزر جاتی۔ ہمارے لیے بالکلغیر معمولی ان تین مسیحیوں کی باتوں کا سحر ہمارا ہر شک دور کر دیتا۔
زیادہ تر ہم ان کی باتوں سے مسحور ہو جاتے۔ آج احساس ہوتا ہے کہ ہم فخر کے لیے ترسے ہوئے بچے تھے۔ جب مسیحی بچے کہیں اکٹھے ہوتے تو وار ہیروز کا ذکر چھڑتا تو مثلاً مسیحیوں، مسلمانوں کے مشترکہ ناموں والے ہیروز کا ذکر چل نکلتا تو کئی حسرت سے کہتے یار یہ یونس مسیحی تو نہیں ہے۔ حیران کن طور پر پچھلی دو دہائیوں سے رول ماڈل تلاش کرکے انہیں معاشرے میں پھیلانے کے باوجود پاکستانی مسیحیوں کی خود انحصاری کو جنم دیتی خود آگاہی و خود شناسی کی اس آگاہی مہم سے بے اعتنائی اور ہزاروں سالوں کی غلامی کی بدولت ایک خاص ذہنی کیفیت میں چلے جانے کا رویہ ایسا ہے کہ چند دن پہلے آج اس وقت نومبر 2020ء میں بھی کل برطانیہ میں مقیم ایک دیسی بشپ گلہ کر رہے تھے کہ برطانیہ میں انہوں نے کسی پاکستانی مسیحی گھرانے میں ذکر کیا کہ ”میرا بھتیجاپاکستان آرمی میں کیپٹن ہے اور میجر ہونے والا ہے تو انہوں نے مذاق اڑانے کے انداز میں کہا آپ کا بھتیجا آرمی میں کپتان ہے یا کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان“۔ جس طرح بچپن میں ہم تینوں چاروں قمر صاحب سے قصے سن کر مسحور ہو کر فخر سے بھر جاتے اسی طرح بریگیڈیئر صاحب کی مارٹن سموئیل برق صاحب کی سفارتکاری کی بصیرت و برق رفتاری، علوم تاریخ پر دسترس، دلیر ایڈمنسٹریٹر، کامیاب ترین آئی سی ایس افسر،ایمان دارجج اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اولین معماروں میں ہونا، ان کے بارے میں تحریر پڑھ کر میرا دل دماغ مسحور اور دل مسرور ہوتا رہا۔ اس کے بعد سے آج تک تحریک شناخت کے لیے میرے چھ نکاتی ایجنڈے کو اْجاگر کرنے والی تحقیق میں سے دھرتی سے نسبت کی کھوج کو نکال کر باقی آزادی ہند میں مسیحیوں کے سینکڑوں کرداروں میں سے آزادی ہند کا برصغیر کے مقامی باشندوں میں بیج بونے والا شاعر ہنری لوئیس رچرڈ ڈریوزو، قیام پاکستان میں ہزاروں کرداروں میں سنگا صاحب تعمیر پاکستان کے لیے شب و روز محنت کرنے والے ماضی و حال کے کرداروں میں اول مارٹن سمودئیل برق ہی ہیں۔ اسی طرح دفاع پاکستان میں سے مارون لیسلے مڈل کوٹ اور دوئم ایئر کموڈور نذیر لطیف ہیں۔ میری اس عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر کے کئی اسکولوں میں میں نے روشنی کے جن مینار شخصیتوں کے پورٹریٹ لگوائے ہیں۔ روشنی کے میناروں کی اس فہرست میں مارٹن سموئیل برق ضرور ہوتے ہیں۔

عمران جولیس تحریک شناخت مارٹن پورکے رضا کار اور مارٹن پور ہائی اسکول کے پرنسپل ہیں۔ وہ اسکول آنے والے ہر خاص و عام کو یہ بتاتے ہیں کہ تحریک شناخت کے پلیٹ فارم سے پہلی دفعہ مارٹن سیموئیل برق کے اسکول میں ان کا پورٹریٹ اور تعارف تحریک شناخت نے لگایا ہے۔جبکہ 1928 میں ان کے آئی سی ایس پاس کرنے کی کامیابی اس بات کی حقدار تھی۔ تحریک شناخت کے یہ پورٹریٹ 2014 میں لگوانے سے 86 سال پہلے ہی ان کی اس کامیابی کو اسکول میں بطور روشنی کے مینار کے استعمال کرکے پاکستانی مسیحی نوجوانوں کی روحوں کو اس روشنی سے منور کیا جاتا۔ لیکن افسوس مسیحیوں کی بھلائی میں شب و روز مصروف مذہبی، سماجی و سیاسی ورکروں کو اس چیز کا ادراک نہ تھا۔ یقیناًیہ ہوس زر کے مارے بھی اس لاپرواہی برتنے میں حق بجانب ہیں کہ ہزار، پانچ سو روپے کی کسی روشنی کے مینار کی تصویر اور کہانی اسکول میں لگانے کے لیے بین الاقوامی شہروں میں جا کر چندہ مانگنے کا جواز بھی نہیں رہتا اور بچوں کو خود شناسی، خود آگاہی کا درس تو خود انحصاری کی طرف لے جاتا ہے اور خود انحصاری آ گئی تو پھر چندہ مافیا کاکیا رہ جائے گا۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مارٹن سیموئیل برق (حصّہ اوّل)۔۔اعظم معراج

Leave a Reply