کینسر (58) ۔ طب کا فن/وہارا امباکر

ولیم کارلوس ولیمز نے ایک بار لکھا تھا، “جب ایک شخص مرتا ہے تو اس لئے کہ موت اس کے ذہن پر حاوی ہو چکی ہوتی ہے”۔ ایک ڈاکٹر کا کام مریض کے ذہن پر موت کو حاوی ہونے سے بچانا بھی ہے۔ اور یہ ایک نازک اور پیچیدہ ذمہ داری ہے۔ پیچیدہ سچائی کی مدد سے ایسا کرنا دشوار کام ہے جبکہ جھوٹی تسلیاں اور وعدے کرنا آسان ہے۔ اچھے ڈاکٹر کے لئے یہ ایک مشق ہے۔ مریض کا نفسیاتی تنفس برقرار رہے۔ غلط وعدے غلط امید بندھاتے ہیں۔ جبکہ ناامید کر دینا سانس گھونٹ دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوزن سونٹاگ کے بیٹے نے اپنی والدہ کی یادداشت میں سونٹاگ کی نیویارک کے ایک نامور ڈاکٹر سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ سونٹاگ نے یوٹرس اور چھاتی کے کینسر سے نجات پائی تھی لیکن اب انہیں مائیلوڈسپلاسیا تشخیص ہوا تھا۔ یہ کینسر سے پہلے کی بیماری ہے جو عام طور پر مکمل لیوکیمیا کی طرف لے جاتی ہے۔ (اس کے ہونے کی وجہ ہائی ڈوز کیموتھراپی تھی جس نے ان کے کینسر کا علاج کیا تھا)۔ ڈاکٹر نے بہت تاریک تصویر دکھائی تھی۔ صاف بتا دیا تھا کہ کوئی امید نہیں۔ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ صرف انتظار کیا جا سکتا ہے کہ کب کینسر ہڈی کے گودے سے امڈ کر جسم میں پھیل جائے گا۔ کوئی چارہ کار نہیں۔ اور یہی آخری اور نہ تبدیل ہونے والی حقیقت ہے۔ وہ لکھتے ہیں، “وہ ہم سے ایسے بات کر رہے تھے جیسے بچوں سے کی جاتی ہے۔ لیکن انہیں ہماری کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اپنے الفاظ کے چناوٗ پر کوئی دھیان نہیں تھا”۔
ایسا غیرلچک دار طریقہ سونٹاگ کے لئے آخری مہلک ضرب ہو سکتا تھا۔ ناامیدی نے ان کی سانس بند کر دی تھی۔ لیکن پھر انہیں ایک اور ڈاکٹر ملے جن کا رویہ بہت مختلف تھا اور وہ نفسیات سے مذاکرات کرنے کو تیار تھے۔ پہلے ڈاکٹر شماریاتی لحاظ سے ٹھیک تھے۔ سونٹاگ کی ہڈیوں کے گودے سے لیوکیمیا کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ اور ہاں، اس کو روکنے کے لئے کچھ خاص نہیں تھا۔ لیکن نئے ڈاکٹر، جنہوں نے بالکل یہی انفارمیشن دی، کا طریقہ یہ نہیں تھا۔ سٹینڈرڈ ادویات سے تجرباتی ادویات تک اور تجرباتی ادویات کی ناکامی کے بعد علامات پر قابو کرنے کی ادویات تک جانا بہت مہارت سے کیا تھا۔ موت کی قبولیت کی طرف رفتہ رفتہ سفر تھا۔ نہ کہ شماریات کے بوجھ تلے مریض کو جیتے جی مار دینے کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکھرجی ایک ایسے ہی ماہر تھامس لنک کا ذکر کرتے ہیں جن کے ساتھ وہ کلینک جایا کرتے تھے۔ تھامس پھیپھڑوں کے کینسر کے ڈاکٹر ہیں۔ مریضوں کے ساتھ ان کا معاملہ آرٹ تھا۔
مثلاً، ایک صبح ایک چھیاسٹھ سالہ خاتون ان کے پاس آئیں جن کے پھیپھڑے سے سرجری کے ذریعے بڑا ٹیومر نکالا گیا تھا اور یہ کینسرزدہ نکلا تھا۔ وہ آنے والے وقت اور اقدامات سے دہشت زدہ لگ رہی تھیں۔
لنک نے ان کا سکین اور رپورٹس کو تفصیل سے دیکھا۔ یہ واضح تھا کہ دوبارہ کینسر آ جانے کا خطرہ بہت زیادہ تھا۔ لیکن فرٹز کی نظر صرف سکین پر نہیں بلکہ مریضہ پر بھی تھی جو خوف سے دہری تھیں۔ لنک نے زیرِ لب کہا کہ “ہم نے ان کی زندگی بجھا نہیں دینی، واپس لانی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔،
اور پھر کسی ماہر فنکار کی طرح لنک نے یہی کیا۔ غلط بیانی اور جھوٹے دلاسوں کے ذریعے نہیں۔ انہوں نے آخری نتیجے کے بجائے فوکس پراسس پر رکھا۔ اور تمام انفارمیشن مریضہ کو منتقل کر دی۔ ٹیومر کا بتایا۔ سرجری کی اچھی خبر دی۔ ان کی فیملی کے حالات معلوم کئے۔ اپنے بتائے۔ اپنے بچے کے سکول کا بتایا۔ مریضہ کے پوتے کا پوچھا۔ یہ معلوم کیا کہ کیا ان کے گھر کے قریب ان کا بیٹا یا بیٹی رہائش پذیر ہیں؟ اور اس سب کے درمیان اعداد و شمار ڈالتے رہے۔
“آپ نے شاید کہیں پر یہ پڑھا ہو گا کہ آپ والے کینسر میں اس کے واپس آ جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ پھیل جانے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ شاید ساٹھ فیصد سے کچھ اوپر”
مریضہ نے سر ہلایا، پریشانی چہرے سے نمایاں تھی۔
“جب یہ واپس آئے گا تو ہم اس کا دھیان کر لیں گے”۔
یہاں پر انہوں نے “اگر واپس آیا” نہیں بلکہ “جب واپس آیا” کا لفظ استعمال کیا تھا۔ “ہم اس کا دھیان کر لیں گے” استعمال کیا گیا تھا، نہ کہ “ہم اس کو ختم کر دیں گے”۔ اس جملے میں جھوٹی تسلی نہیں تھی۔ علاج کا دلاسہ نہیں تھا۔ لیکن پرواہ تھی۔
ایک گھنٹے تک گفتگو چلتی رہی۔ ڈاکٹر کے ہاتھ اور زبان میں انفارمیشن زندہ تھی۔ تراشی جا رہی تھی۔ سختی نہیں تھی۔ ویسے تھا جیسے شیشہ گر کے ہاتھ میں شیشہ بنایا جا رہا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹیج تھری کے کینسر کی بے چین مریضہ کے ذہن اور تصور کو پہلے قابو کرنا پڑتا ہے تا کہ جب کیموتھراپی کا وقت آئے، جو ان کی عمر میں اضافہ کر سکے، تو وہ درست فیصلہ کر لینے کے قابل ہوں۔ جارحانہ اور جان لیوا لیوکیمیا کا شکار پچھتر سالہ مریض کو جارحانہ تجرباتی کوشش سے پہلے اس کے ذہن میں حقیقت سے سمجھوتہ کروانا ضروری ہے۔ اسے معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ اس کا علاج نہیں۔ تجربے کی کامیابی کا امکان کم ہے لیکن تجربہ نہ کرنے کا مطلب یقینی شکست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بقراط نے کہا تھا، “طب کے پیشے میں موقع کی کھڑکی کچھ دیر کے لئے ہے۔ کامیابی کی امید نازک ہے۔ اور ہمارے فیصلے ناقص۔ طب کا فن طویل ہے۔ اور زندگی مختصر”۔
طبیب کی وفاداری، آخر میں، مریض سے ہے۔ میڈیکل کا فن صرف ادویات، نشتر اور اعداد و شمار ہی نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply