عمران خان اور کوئی عقل کی بات ؟۔۔سیّد علی نقوی

گذشتہ چند روز سے عمران خان بے سر و پا گفتگو کے ریکارڈ پر ریکارڈ توڑ رہے ہیں، گذشتہ ہفتے کا شاید ہی کوئی دن گیا ہو کہ جب عمران خان نے کوئی ایسی بات نہیں کی کہ جس پر انسان غصہ، جھنجھلاہٹ اور ہنسے بغیر رہ سکے، یہ اعزاز بھی صرف عمران خان کو ہی حاصل ہے کہ انکا ایک بیان آپ پر یہ تینوں کیفیات ایک ساتھ طاری کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے…
بہت سے دوستوں کے پوچھا کہ عمران خان کے بیانات پر آپ نے کچھ لکھا نہیں میں ہر ایک کو یہی کہتا رہا کہ اب مجھے اس آدمی کے کسی بیان میں نہ تو دلچسپی ہے اور نہ ہی میں اس آدمی کی بات کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ اس پر کمنٹ بھی کیا جائے، لیکن کیا کریں کہ خان صاحب اس بار ایسے سٹارٹ ہوئے ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے بیان پر بیان آ رہا ہے اسُ اسُ سوئچ میں انگلی دے رہے ہیں کہ جہاں کرنٹ چھوڑیئے سوراخ تک نہیں، بات شروع کرتے ہیں اسُ انٹرویو سے کہ جس میں خان صاحب نے امریکہ کو دھمکیاں دیں اور اس کے بعد یہاں تک کہا کہ اگر جو بائیڈن بات نہیں کرنا چاہتے تو یہاں بھی کوئی بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا خان صاحب سے انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ امریکہ کو اڈے دیں گے تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا Absolutely Not پھر ایک خبر آئی کہ عمران خان کی کابینہ نے 1800 ارب روپے کے حصول کے لیے اسلام آباد، لاہور اور ملتان کے ایئرپورٹس اور تین موٹر ویز گروی رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن PTI کے سوشل میڈیا پیجز اور عمران خان کے حامیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر خان آج بھی ڈٹ کے کھڑا ہے اور Absolutely Not کی گونج نے امریکہ اور جو بائیڈن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں، خان صاحب نے فرمایا کہ ہم امریکہ سے برابری کا تعلق چاہتے ہیں ویسا تعلق کہ جیسا اس کا برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ہے اب یہاں ذرا کچھ دیر کو رکیے! میرے برادرِ بزرگ ڈاکٹر اختر علی سید صاحب کا ایک جملہ ہے جو انہوں نے مکرمی ضیغم خان صاحب کو نوے کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کہا تھا کہ جب ضیغم بھائی ڈان اخبار کے ماہنامہ ہیرلڈ میں کام کیا کرتے تھے اور عمران خان کے پہلے سیاسی انٹرویو کی تیاری کر رہے تھے، اور وہ جملہ یہ تھا,
He is combination of ignorance and arrogance
کہ یہ آدمی جہالت اور تکبر کا مرکب ہے ایک ایسا جاہل کہ جس کو اپنی جہالت پر ناز ہو جو اپنی جہالت پر فخر کرتا ہو ایک ماہر نفسیات کے تجزیے کی روشنی میں اگر آپ اس بیان کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنابِ وزیراعظم اپنی جہالت پر رشک بھی کرتے ہیں کوئی جا کر ان صاحب کو بتائے کہ حضور برابری ایک دیومالائی تصور ہے ممالک کی برابری تو کیا ہو گی ان دو بھائیوں میں برابری نہیں ہو سکتی جن میں سے ایک کم کماتا ہو اور دوسرا زیادہ یہاں تک کہ ماں باپ یہ برابری نہیں رکھ پاتے گھر میں اسُ بیٹے کی مرضی چلتی ہے جو زیادہ کما کر لاتا ہے، اسی طرح ایک بَلا کا نام ہے اقوام متحدہ تمام دنیا کے ممالک اس کے رکن ہیں، وہاں بھی کچھ ملک ہیں کہ جن کے پاس ویٹو کا حق ہے… اسی اقوام متحدہ کی ایک سیکورٹی کونسل ہے کہ جس کے مخصوص رکن ممالک ہیں ہر ملک اس میں شامل نہیں ہے اور چاہے وہ ویٹو ہو یا سیکورٹی کونسل ہو اسکے رکن وہی ملک ہیں کہ جو معاشی طور پر مضبوط ہیں، ایک طرف آپ ہیں کہ جو اپنی تمام تر توجہ اور کوشش کے باوجود گرے لسٹ سے نہیں نکل پا رہے اور اس کارکردگی پر آپ برابری کی بات کرتے ہیں اور وہ بھی امریکہ سے وہ امریکہ کہ جو یورپ، سعودی عرب، یو اے ای سمیت آدھی سے زیادہ دنیا کو ڈکٹیٹ کرتا ہو، جو دنیا کی تاحال واحد سپر پارو ہو، وہ ہم سے کہ جو کبھی سعودی عرب کی زکوۃ سے گزارا کرتے ہیں تو کبھی یو اے ای کی ہم سے برابری کی سطح کا تعلق بنائے یہ تو دیوانے کا خواب بھی نہیں ہو سکتا، اس صورتحال کو سب سے اچھا پنجابی کا ایک محاورہ ایکسپلین کرتا ہے
” ذات دی کوڑھ کِرلی تے شہتیراں نوں جپھے”
برابری کی بات اگر روانڈہ، ایتھوپیا، سوڈان، چاڈ اور صومالیہ جیسے ممالک سے کریں تو بات سمجھ بھی آئے اور دوسری بات یہ جو اس وقت ٹوئٹر اور دوسرے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر Absolutely Not کا ٹرینڈ PTI نے بنایا ہوا ہے یہ بھی جہالت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ سیاست میں کچھ بھی Absolute نہیں ہوتا انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ
Politics is a day to day affair
سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہے بلکہ دنیاوی کسی بھی معاملے میں کچھ بھی حتمی یا Absolute نہیں ہوتا حتمی بات مذاہب کرتے ہیں سوائے الہامی صحائف کے کوئی بات کوئی ٹیکسٹ ایسا نہیں کہ جس کے بات میں حتمی ہونے کا دعویٰ کیا جا سکے چہ جائیکہ پاکستان جیسی دوغلی ریاست اور Absolute یعنی کہ واہ بلکہ واہ سے بھی زیادہ…. پاکستان کہ جس کے دوغلے پن کی ایک دنیا نہ صرف یہ کہ شاہد بلکہ متاثرہ ہے وہ ریاست کہ جس کا بجلی کا ٹیرف تک IMF اور ورلڈ بینک طے کریں، وہ ریاست کہ جس کے آرمی اور جوڈیشری چیفس تک امریکہ منتخب کرے وہ کہ جس کی بات پر افغانستان جیسا ملک بھروسہ نہ کرے اس ملک کا وزیراعظم امریکہ کو کہتا ہو (اس امریکہ کو کہ جس کے آپ نے 33 ارب ڈالر دینے ہوں) کہ ہم برابری کی تعلق چاہتے ہیں تو یقننا اس ملک کے لوگوں کو سنجیدگی سے اپنے لیڈرز کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے، یہ تو ایسے ہے کہ ایک آدمی کہ جس نے میرے لاکھوں روپے دینے ہوں جس کی زمین میرے پاس گروی پڑی ہو جو اپنے بچوں کی تعداد کا انتخاب کرنے تک میں آزاد نہ ہو جس کا شناختی کارڈ میرے قبضے میں ہو جس کی بہن میری اور ماں میرے باپ کی خدمت پر مامور ہو وہ کہے کہ وہ اور میں برابر ہیں تو یہ بات مذاہب اور اخلاقیات کے پیمانوں میں تو شاید مناسب لگے لیکن دنیا ان سب باتوں پر صرف ہنس سکتی ہے، ویسے تو مذہب میں بھی یہ گنجائش ہے کہ اگر ایک شخص سے کسی کا قتل ہو جائے اور خون بہا ادا کر دے تو وہ اسُ سخت ترین سزا سے بچ سکتا ہے کہ جس سے وہ نہیں بچ سکتا کہ جس کے پاس خون بہا ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہے، اسی طرح اگر ایک صاحبِ استطاعت روزہ چھوڑ دے تو اس کا کفارہ اسے گناہ سے بچا لیتا ہے، حج اسی لیے صاحبِ استطاعت پر واجب کیا گیا کہ اگر ایک غریب حج پر نہ جا سکے تو وہ گناہ کا مرتکب نہ ہو یہ وہ تمام حکمتیں ہیں کہ جن کو مذاہب تک نے ملحوظ رکھا لیکن یہ تمام باتیں سمجھنے کے لیے کسی شخص کا صاحبِ مطالعہ ہونا، عقل کا ٹھکانے پر ہونا، اپنی اوقات کی درست شناخت ہونا اور اپنے عہدے کی نزاکت کا علم ہونا ضروری ہے لیکن خان صاحب ان چار کے چار عناصر سے بلکل بے بہرہ ہیں….
آئیے اب اگلے دو بیانات کو ایک ہی باری میں سمیٹ لیتے ہیں خان صاحب فرماتے ہیں کہ عورتوں کے چھوٹے کپڑے مردوں کے جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں مرد کوئی روبوٹ تو نہیں ہوتے یہ بات خان صاحب کے اپنے حوالے سے تو بلکل ٹھیک ہے کہ ان پر آج تک یہی بیتی، پلے بوائے میگزین کے کور پر جس کی تصویر چھپتی رہی ہو وہ اسی ذہنیت کا مالک ہو سکتا ہے ویسے تو ریحام خان نے اپنی کتاب میں اس ضمن میں کئی واقعات درج کیے جن کی صحت پر بہر حال شک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ بیان پڑھنے کے بعد آپ وہ واقعات پڑھیں تو مناسبت ثابت ہوتی ہے خان صاحب کی تکبر آمیز جہالت اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کی اس معاشرے سے لا تعلقی ایک بار پھر آشکار ہو جاتی ہے کہ یہ گذشتہ ہفتے ہی کی خبر ہے کہ سیالکوٹ میں ایک جوان لڑکی دفنائی گئی اگلے دن جب گھر والے فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان گئے تو لاش قبر سے باہر بغیر کفن کے ادھڑی پڑی تھی یہ وہ ملک ہے جہاں عورت کفن میں محفوظ نہیں ہے، یہاں کا وہ مرد کہ جس کو خان کہتا ہے کہ روبوٹ نہیں ہے اس سے بکری، گدھی، کتیا، کچھ محفوظ نہیں ہے لیکن ہمارے وزیراعظم اس سب کا الزام عورت کے کپڑوں پر دھرتے ہیں، اسی طرح خان نے نوزائیدہ فلم میکرز سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انگریزی بولنا اور سوٹ پہننا سوفٹ امیج نہیں ہے بلکہ مرعوبیت ہے بالی وڈ اور ہالی وڈ کی فلموں نے یہاں فحاشی پھیلائی ہے آپ لوگوں کو چاہیے کہ پاکستانیت کو فروغ دیں، ایک نالائق ترین فلم کے سٹوڈنٹ کے طور پر میں آپ کو یہ پورے وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ اس بیان سے کچھ اور ثابت ہو یا نہ ہو ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ خان کو موجودہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی الف بے کی بھی خبر نہیں ہے پہلے ذرا مرعوبیت پر بات کر لیتے ہیں ایک ایسا آدمی کہ جو پاکستان میں ایچیسن کالج میں پڑھا ہو، اسکے بعد آکسفورڈ گیا ہو، انگلینڈ میں کرکٹ کھیلی ہو، جس نے کرکٹ کے زمانے میں پاکستانی گرل فرینڈ تک نہ بنانی پسند کی ہو جس نے پہلی شادی ایک یہودی انگریز النسل عورت سے کی ہو اور آج بھی جس آدمی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی کہ جس کی پیدائش بھی ہمارے پیمانے کے مطابق حلال نہ ہو اور وہ بھی ایک انگریز عورت کے پیٹ سے جنم لے وہ کہے کہ سوٹ پہننا اور انگریزی بولنا مرعوبیت ہے تو ان باتوں پر یقین کریں دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے کہ کیا اس آدمی کو کچھ یاد نہیں؟؟ کیا کرکٹ کھیلنا، آکسفورڈ میں پڑھنا اور ساری زندگی اسکا پرائیڈ لینا، انگریز عورت سے شادی کرنا یہ سب مرعوبیت نہیں ہے؟؟ جناح صاحب اور علامہ اقبال دونوں انگریزوں سے بہتر انگریزی بولتے تھے سوٹ پہنتے تھے کہتے ہیں کہ جناح صاحب کے انتقال کے وقت انکے وارڈ روب میں پانچ سو ہینڈ سٹچڈ (ہاتھ سے سلے ہوئے) سوٹ تھے اسی طرح انہوں نے زندگی میں صرف سلک کی ٹائی پہنی اور کبھی ٹائی دوبارہ نہیں استعمال کی برصغیر میں بھی تقریر کی تو انگریزی میں کی کہ جو یہاں کسی کو سمجھ بھی نہیں آتی تھی، سگار پینا، پُول کھلینا کیا یہ سب خان کی نظر میں مرعوبیت ہے؟؟ وہ آدمی کہ جو پوری قوم کو کل تک ارتغرل جیسا غلیظ جھوٹ سے بھرپور پراپگنڈہ ڈرامہ دکھاتا رہا، وہ کہ جو جس ملک گیا وہاں کا ماڈل اپنانے کی باتیں کرتا رہا کبھی چائنیز ماڈل، کبھی ملیشین ماڈل، کبھی ترک ماڈل، کبھی سعودی عرب کی بادشاہت کا ماڈل وہ باتیں کرتا ہے مرعوبیت کی؟؟ وہ کہ جو عربی بدوؤں کی گاڑیوں کا ڈرائیور بنا رہا، وہ کہ جس کو مودی کے فون نہ اٹھانے کا دکھ کھاتا رہا وہ باتیں کرتا ہے کہ یہ سب مرعوبیت ہے.. اب آئیے ذرا پاکستانی فلم کی بات کر لیتے ہیں خان صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستانیت کو فروغ دیں پہلے خان ذرا یہ فرما دیں کہ پاکستانیت کیا ہوتی ہے؟؟ دو مثالیں اور بات آگے بڑھ جائے گی عاشر عظیم (دھواں جیسے شاہکار ڈرامے کے خالق) نے فلم بنائی مالک کہ جس میں ایک سیاست دان کی کرتوتوں کو واضح کیا گیا تھا فکشن تھی لیکن تھی حقیقت اس پر یہاں پابندی لگی اور ہوا یہ کہ آخر کار عاشر عظیم کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور آج وہ کینڈا میں ٹرک چلا رہے ہیں، مالک کو چلو بعد میں کچھ عرصے کے لیے سنیما گھروں میں چلانے کی اجازت ملی لیکن سرمد سلطان کی فلم زندگی تماشا آج تک ریلیز نہیں کرنے دی گئی کیونکہ مبینہ طور پر اس میں مولویوں کے لواطت بازی سے متعلق بات کی گئی تھی سوال یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں مولویوں کے ویڈیوز نے سرمد سلطان کی بات کو سچ نہیں ثابت کر دکھایا؟؟ ابھی کل ڈی جی رینجرز نے شرمین عبید چنائی جو کہ پاکستان کی واحد اوسکر ونر ہیں پر بیجا تنقید کر کے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کسی بھی اعلیٰ کام کرنے والے کی قدر کر ہی نہیں سکتا انہوں فرمایا کہ پاکستان میں تین تیزاب گردی کے واقعات پر فلم بنا دی گئی میں ڈی جی رینجرز کو یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی دیر میں آپ نے یہ جملہ بولا ہوگا اس ملک میں اتنی سی دیر میں تین عورتیں جلا کر مار دی گئی ہونگی ہمارے اداروں کی یہی غفلت ہے جس نے اس ملک کو یہاں تک پہنچایا ہے اور اگر کوئی اس سب کی نشاندہی کرے تو اس پر چڑھ دوڑتے ہیں، یہ سب اسی ملک میں ہو رہا ہے جہاں کے وزیراعظم عمران خان ہیں، اور آج جو کچھ پارلیمنٹ میں شاہ محمود نے کیا اور پھر جو بھرے جہاں میں بلاول جس کو وہ بچہ کہتے رہے کے ہاتھوں اپنی عبرت ناک جگ ہنسائی کرائی وہ بھی تاریخی تھی آج بجٹ سیشن میں عمران خان پہلے تو تاریخ کا وہ سبق سناتے رہے کہ جو نہ جانے کون سے کتاب میں لکھا تھا اور اسکے بعد کی تقریر کو اگر ایک جملے میں سمیٹ دیا جائے تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ مشرف کی کابینہ جو کہ اب انکی کابینہ میں تبدیل ہو چکی ہے اور موجودہ عسکری قیادت کہ جو کل تک مشرف کے ہر غیر آئینی کام میں شریک تھی دراصل امریکہ کے پٹھو ہیں لیکن میں امریکہ کی جنگ میں شامل نہیں ہوں گا اب تو صرف اس بات کا انتظار ہے کہ کب پاکستان کے وسیع تر مفاد میں عمران خان امریکہ کا ساتھ دینے کو عین اسلامی قرار دیں گے اور امریکہ کی جنگ میں شامل ہو کر ریاستِ مدینہ کی تکمیل میں ایک اور قدم آگے بڑھ جائیں گے….

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply