وہ اکیلے گیت کی طرح گونج رہا ہے ۔۔ محمد خان داؤد

کافکا نے کہا ہے ”بس زخموں سے جانا جا سکتا ہے کہ درد کیا ہے“
غربت کا زخم، بے حسی کا زخم، لاچاری کا زخم،تذلیل کا زخم،اپنی ہی دھرتی پہ بے یارو مدگاری کازخم،بے بسی کا زخم،بے عزتی کا زخم،بہت کچھ کرنے کو دل کرے پر کچھ بھی نہ کیا جائے ،بے حسی کے ماتم کا زخم،اپنی ہی دھرتی پر روز یہ باور کرانا کہ میں اسی دھرتی سے ہوں!شناخت کا زخم،تلاشی کے بہانے کئی کئی گھنٹے چیک پوسٹوں پر اذیت سہنے کا زخم،بس وجود ہی نہیں پر جب روح بھی زخمی ہو جائے ،جب کان ایسی آوازیں سنیں کہ”رُکو کہاں جا رہے ہو “ اور دھرتی پیروں سے کھسکتی محسوس ہو توکان کیا   روح بھی درد سے بھر جاتی  ہے۔بھوکے پیٹوں کا زخم،بیمار تڑپتے وجودو ں کا زخم،اپنے ہی پانیوں کی گہرائیوں میں نہ اترنے کا زخم،جب سمندر کے بیٹوں کو نیلگوں پانی اپنی اور بُلاتا ہو اور پانی اور اس کے درمیان آہنی دروازے آویزاں  ہوں اور بندوق بردار اسے یہ کہہ کر نیلے پانیوں میں اترنے نہ دے کہ
”یہ سکیورٹی رسک ہے “تو دل درد سے بھر جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم نے بس پیٹ بھر کر کھایا ہے،ہم بھوکے پیٹوں کے دردوں سے آشنا نہیں
ہم نے ہر بار پہلے ہی ہر مرض کی تشخیص کر کے احتیاطی تدابیر کر لی  ہیں ہم جان لیوا مرضوں سے آشنا نہیں
ہم نے تیز گاڑیوں کے سیاہ شیشوں سے بس تھوڑا سا باہر جھانکتے سلیوٹ کرتے ہاتھوں کو دیکھا ہے
ہم ان ہاتھوں کو کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ ہاتھ گریبان تک بھی پہنچتے ہیں،عزتوں تک بھی،سَروں سے گرتے دوپٹوں تک بھی،دستاروں تک بھی اور ہم ان ہاتھوں سے آشنا نہیں جو تذلیل کرتے ہیں۔
ہم بس اس بات سے با خبر ہیں کہ ہماری جیبوں میں قومی شاختی کارڈ موجود ہیں ہم معزز شہری ہیں۔
پر ہم اس درد سے کیسے آشنا ہو سکتے ہیں جو ہر بار جیب میں جائے اور قومی شناختی کارڈ ہاتھوں میں تھامے اِن اَن پڑھ سکیورٹی کے اہلکاروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرے کہ یہ دھرتی اس کی ہے۔
ہم بس سمندروں کے پُر تعش کناروں کے ساحلوں سے واقف ہیں، جہاں اپنی محبوباؤں کی  کمروں کو تھامے  چلتے ہیں، ان کے بوسے لیتے ہیں،   اور آتی جا تی لہروں سے مزہ لیتے ہیں۔
ہم ساحلوں،سمندوں،نیلگوں پانیوں اور کناروں کے درد سے واقف نہیں۔
ہم نہیں جانتے جب کوئی سمندر کا بیٹا نیلگوں  پانیوں میں نہ اُتر پائے تو وہ کس درد میں مبتلا ہوتا ہے
ہم نہیں جانتے جب  ساحلی پرندہ نیلے پانیوں سے اُڑ کر کچے گھر پر بیٹھتا ہے تو اپنی بولی میں کیا کیا فریادیں کرتا ہے
ہم نہیں جانتے کہ ساحل اور کنارے کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟
ہم نہیں جانتے کہ ساحلی فرزندوں اور گہرے پانیوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
ہم نہیں جانتے کہ جب کسی ساحلی فرزند کی  آخری لائف لائن  پر بھی بندوق بردار پہرے دار بیٹھ جائیں تو وہ درد کی کس کیفیت میں ہوتا ہے؟
اور ہم اس درد سے بھی آشنا نہیں کہ ”آنکھو ں کے پانیوں میں کشتیاں نہیں اُترتیں “
ہم تو بس با مزہ لو گ ہیں کھا تے ہیں پیتے ہیں اور سوتے ہیں
ہم بے مزہ لوگوں کی کیفیت سے آشنا نہیں اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ بھوک کا درد کیا ہے؟پیاس کا درد کیا ہے اور رت جگے کی تکلیف کیا ہے؟
اس لیے ہم کسی بھی درد سے آشنا نہیں
درد سے آشنا ہونے کے لیے کافکا کی یہ بات سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ
”بس زخموں سے جانا جا سکتا ہے کہ درد کیا ہے “
وہ جو پچیس روز سے گوادر کے ساحل پر پانیوں جیسے لوگوں سے ہم کلام ہے وہ بس یہی کہہ رہا ہے کہ
”یا تو ہر درد کا  معنیٰ ہے
یا تو کسی بھی درد کو کوئی معنیٰ نہیں “
وہ گوادر کے لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب گیا ہے کہ
”ہر درد کا  معنیٰ ہے “
اگر گوادر کے لوگ درد سے آشنا نہ ہو تے تو اپنے گھروں سے باہر ہی کیوں  آتے؟
گوادر کے لوگ درد سے آشنا ہیں اور آج گوادر نیلگوں پانیوں سے نکل کر سُرخ ہو گیا ہے
سورج کی مانند سُرخ!
گندم کے خوشوں کی مانند سُرخ!
گلاب کے پھولوں کی مانند سرُخ
سربلند کے ریزہ ریزہ ہو تے جسم کی مانند سُرخ
آج بس گوادر میں ساحل،کنارہ اور پانی نہیں
پر آج گوادر میں سُرخ سورج،سُرخ لوگ،اور سر بلند کا سُرخ وجود بھی ہے
آج بس گوادر میں ساحل کے نمکین پانی کی نمکین بوُ نہیں
پر آج گوادر کے کنارے پر سر بلند کے مہکتے وجود کی خوشبو بھی ہے
جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”کوئی کئین نہ ڈوڑے مقتل ڈے
آھے رت میں خوشبو مہندی جی!“
کوئی کیوں نہ جائے مقتل کو،ہے لہو میں خوشبو مہندی کی !
آج گوادر شہیدوں کی ماندن سر بلند ہے!
آج گوادر سُرخ سُرخ ہے
سُرخ رنگ!
خوشی کا
بغاوت کا
اور جوانی کا
گوادر!خوشی،بغاوت اور جوانی کے رنگ میں رنگ گیا ہے!
اور مولانا بغیر کسی مصلحت کے سُرخ رنگ میں رنگا جا چکا ہے
وہ اکیلے گیت کی مانند گونج رہا ہے
میٹھا میٹھا
دھیما دھیما
اور اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک رہے ہیں
”دو آنکھوں سے
آنسو کے دو قطرے
شاعر کے رخسار پر ڈھلکے
اک قطرے میں غصے کی بوُ
اک قطرے میں پیار کی خوشبو
اک قطرہ غم کا مظہر
اک میں خوشی کا پیکر
آنسو کے دو قطرے
چھوٹے قطرے
جیسے دو بلور کے منکے
دو قطرے معمولی قطرے
تنہا تنہا بہتے جائیں
بے کس،بے بس قطرے کہلائیں
لیکن جب یہ مل جائیں
چمکیں جیسے بجلی چمکے
برسیں،جیسے پانی برسے“

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply