• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انجمنِ مزارعین پنجاب اور نئی تحریک کی ابتداء۔ آخری حصہ/مترجم اسد رحمان

انجمنِ مزارعین پنجاب اور نئی تحریک کی ابتداء۔ آخری حصہ/مترجم اسد رحمان

یہ مضمون انجمن مزارعین پنجاب میں شائع ہوئے  احمد یوسف کے مضمون کا ترجمہ ہے جو کہ انجمن مزارعین پنجاب کی تحریک کے اتار چڑھاؤ کا احاطہ کرتا ہے
ستار ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور مزارعوں میں موجود ان معدودے لوگوں میں سے تھا جو کہ ماسٹرز کی ڈگری رکھتے تھے۔ اسکا انجمن میں داخل ہونا ایک ذاتی المیے  سے برآمد ہوا۔۔اسکا چھوٹا بھائی اور چچا دونوں کو اوکاڑہ سبزی منڈی میں گرفتار کیا گیا جہاں وہ اپنی آلو کی فصل بیچنے کیلئے گئے تھے۔ لیکن ریاستی اہلکاروں نے نہ صرف یہ کہ انکو حراست میں لیا بلکہ انکے ٹریکٹر اور ٹرالی پہ بھی قبضہ کر لیا اور بعد ازاں انکی پیداوار کو ۴۵۰۰۰ ہزار روپے میں اسی منڈی میں بیچ دیا گیا چنانچہ ستار اس لڑائی میں اس ذاتی نقصان کو سامنے رکھ کر شامل ہوا۔

مہر ستار

نسبتا خاموش طبع ستار ہتھیاروں کو سیکنڈوں میں کھولنے اور جوڑنے کا بے حد شوقین تھا۔اسکا دعوی تھا کہ جو اس جدوجہد کا حصہ ہیں ان سب کو ہتھیاروں سے مسلح ہونے اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انکا دشمن نہایت طاقتور ہے۔ ہتھیار اٹھانا آزادی کا ایک پیمانہ ہے اور یہ کام ستار سب سے زیادہ آسانی سے ہشت نگر میں ہی کر سکتا تھا۔
ہشت نگر جو کہ کل آٹھ گاوں کا ایک اکٹھ ہے ضلع چارسدہ میں واقع ہے۔ یہ جگہ سن ۷۰ کی دہائی کی سب سے کامیاب کسان تحریک کا مرکز بھی ہے۔ بے زمین کسان اپنے خانوں کے خلاف مزارعت کے قانون پہ عملدرآمد نہ کرنے کے باعث اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر ایک مسلح لڑائی کے بعد ان کو اس علاقے سے باہر دھکیل دیا۔ اس بغاوت کو میجر اسحاق کی مزدور کسان پارٹی نے ترتیب دیا تھا اور اسکے بعد سے یہ ملک بھر کی کسان تحریکوں کیلئے ایک مثال بن چکی ہے۔ دہائیوں کے سفر کے بعد اگرچہ یہ تحریک اب اپنی طاقت کھو چکی ہے اور سوشل ازم و پختون نیشنل ازم کے نظریاتی اختلاف میں الجھ کر تنظیمی تقسیم کا شکار ہے۔

انجمن مزارعین پنجاب کی تحریک، ایک جائزہ۔۔۔ یوسف احمد۔حصہ اول
تاہم مزدور کسان پارٹی کے مختلف دھڑوں نے ہشت نگر کے شہیدوں کی یاد کو منانا جاری رکھا ہے۔جیسے ستار کی انجمن کو باقی حلقوں میں متعارف کروایا جا رہا تھا ویسے ہی اس تحریک کو ہشت نگر میں پنجاب کے کسانوں کے حقیقی نمائندے کے طور پہ متعارف کروایا گیا ۔ اپنی تقریر کے دوران ستار نے کسانوں کی تحریک کے اتحاد کی بات کی اور ہشت نگر میں انجمن کے نعرے مالکی یا موت کو بھی متعارف کروایا ۔

اسی دوران بائیں بازو کی جماعتیں اس بات پہ بحث کرنے لگیں کہ انجمن کے کس دھڑے کا ساتھ دیا جائے اور کیوں دیا جائے۔ ایک رجحان تھا جو کہ ذات کے نام پہ تقسیم سے بچنا چاہتا تھا۔دوسروں کے نزدیک تنازعہ ذات کی بجائے لائحہ عمل کا تھا ۔ ایک دوسری فکر یہ تھی کہ ورکرز  پارٹی بنانے کی  مختلف سماجی تحریکوں کو آپس میں جوڑ کے انکے مشترکہ اثرات کو استعمال کرنا ایک زیادہ کار آمد سٹرٹیجی ہے۔ ستار کو آخرکار عوامی ورکرز پارٹی کی حمایت حاصل ہو گئی جس کے لیڈران انجمنِ مزارعین کی تحریک کے ساتھ شروع دنوں سے ہی وابستہ تھے۔
یونس اقبال کے خلاف لگائی جانے والی چارج شیٹ میں بہت سے الزامات موجود ہیں جو کہ ۲۰۰۲ کی سپلٹ کے بعد کے دور سے بھی متعلق ہیں۔ ان میں سب سے اہم الزام ملٹری کو چک ۱۱ اور چک ۱۵ دینے کے معاہدے پہ دستخط کرنا ہے۔ یہ ۲۰۴ کی بات ہے کہ انجمن کا ایک ڈیلیگیشن رینجرز کے جنرل مہدی کے ساتھ ملا جس نے انکو بتایا کہ اگر یہ دو چک ملٹری کے حوالے کر دئیے جائیں تو فوج بقیہ دیہات پہ اپنے دعوے سے پیچھے ہٹ جائے گی اور نئی مزارعیت کے معاہدے سے بھی دستبردار ہو جائے گی تاہم یہ دو دیہات ہر صورت میں چھوڑنے ہوں گے۔
یونس اور ڈاکٹر کرسٹوفر نے اس معاہدے پہ دستخط کر دئیے یہ مانتے ہوئے کہ اس سے ریاست کا دباو تحریک پہ کم ہو گا۔تاہم مہر ستار کا کہنا تھا کہ ایک بھی گاوں کو اس طرح سے چھوڑنا  تحریک کی شکست کے مترادف ہے۔ اس سیاسی پوزیشن کے ماننے والے کافی زیادہ تھے چنانچہ بتدریج یونس کی سیاست خاموش ہوتی چلی  گئی جبکہ ستار کی سیاست میں تیزی آتی چلی گئی۔
ایک اور الزام یونس گروپ پہ یہ بھی تھا کہ وہ تحریک کو غیر سیاسی اور غیر متشدد رکھنا چاہتے ہیں اور ۲۰۰۲ کے انتخابات میں یونس کو خاص کر کافی تنقید کا نشانہ بننا پڑا جب اس نے مشرف کے حمایت یافتہ ایک امیدوار کو الیکشن میں سپورٹ کیا۔ اس کے مقابلے میں ستار نے ۲۰۰۲ میں الیکشن  لڑنے کی کوشش کی اور پھر ۲۰۰۸ اور ۲۰۱۳ میں  الیکشن لڑا بھی۔۔ یونین کونسل سے قومی اسمبلی تک۔
اگرچہ ایک بار ستار نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑا تاہم بعد میں اسکا ماننا یہ تھا کہ ہمارا نمائندہ ہمارے درمیان سے ہی ہونا چاہیے  جو کہ ہمارے مسائل کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کر سکے۔ اسی طرح سے ہی کوئی دیرپا تبدیلی کو برپا کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے کہ مذہبی بنیادوں پہ انجمن میں کوئی تقسیم ہے ستار نے الیکشن میں ایک عیسائی افتخار جگا کو بھی امیدوار کے طور پہ کھڑا کیا۔ جگا نے الیکش جیت لیا اور چئیرمین یونین کونسل منتخب ہوا ۔ اس سیاسی ڈائنامکس کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ وقت کے ساتھ یونس کی سیاست این جی او سے فنڈ لے لے کر ٖغیر سیاسی ہو گئی جبکہ ستار کے سیاسی جماعتوں سے تعلقات کی بدولت ستار کی جدوجہد سیاسی بھی رہی۔
اب سے کچھ دو سال قبل ۲۰۱۶ میں ستار کو گرفتار کیا گیا اس وقت سے وہ جیل میں ہے اور اسکے ساتھیوں کا یہ کہنا ہے کہ اسے دہشت گردوں کی طرح رکھا جا رہا ہے۔ اسکی گرفتاری کے موقع پہ اسکے گروپ نے احتجاج کرنے کا دوبارہ آغاز کیا تھا تاہم وہ اس جدوجہد میں اکیلے تھے  لیکن  ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی چیزیں بدل گئی ہیں۔

مہر ستار،پولیس کی زیرِ حراست

ایک اور مزید ہتک آمیز مزارعت کا کنٹریکٹ مزاعورں پہ نافذ کیا جا رہا ہے جس نے انجمن کے دونوں گروہوں کو ایک بار پھر سے ہوشیار کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

برادری مذہب اور ملٹری فارمز کے کسانوں کی سیاست ۔حصہ دوم/مترجم اسد رحمان
لیکن پچھلی دفعہ کے برخلاف یہ انجمن مزارعین اب ایک جنگ کے شعلوں سے توانا ہو کر نکلی تنظیم ہے۔ نئے آرگنائزر سامنے آ چکے ہیں جو کہ سن ۲۰۰۰ میں سامنے آنے والی ٹیم سے مختلف ہیں۔ تنظیم کو اب پنجاب حکومت سے بات کرنے کا تجربہ بھی ہے اور وہ اسکو جاری رکھیں گے۔ لیکن دونوں دھڑے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مستقبل کانٹوں سے اٹا پڑا ہے اور آج سے زیادہ بدتر مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ دونوں یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خود رو نامیاتی تحریکیں وقت کے ساتھ کیسے پیدا ہوتی ہیں اور اپنی موت مر بھی جاتی ہیں۔
ایک اور امید افزاء عنصر ان دونوں دھڑوں میں نوجوان کیڈرز کا ہونا ہے جو کہ دونوں تنظیموں کو آپس میں ملانے پہ زور دے رہے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ایک جدوجہد کے دوران ذات کی تفریق بے معنی ہو جاتی ہے اور اس چیز کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ کیسے کسان اپنے مشترکہ مفاد کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ اس تحریک اور تنظیم کو اب بائیں بازو کی حمایت بھی حاصل ہے جس کا سائز بھی پچھلی دہائی کی نسبت بڑھ چکا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسکی آواز بھی اب زیادہ سنائی دیتی ہے۔ اور لیڈر شپ کے تفاوت کے باوجود دونوں دھڑوں نے مستقل مزاجی سے ایک ہی سیاسی پوزیشن کو برقرار رکھا ہے اگرچہ دونوں کی لائن آف  ایکشن مختلف رہی ہے۔ اگر یونس کو انجمن کے بانی کے طور پہ عزت دی جاتی ہے تو ستار کو اس بات کا کریڈٹ کہ اس نے اس تنظیم اور تحریک کو ایک مشکل دورانیے سے بخوبی گزارا۔
دونوں دھڑوں نے ریاست کی طرف سے آنے والی مہمان نوازی کا ذائقہ بھی چکھ لیا ہے ایک دفعہ پھر یونس کے گاوں پہ چھاپہ مارا گیا عاصمہ جہانگیر کے لاہور میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس سے ایک رات قبل۔ ایک دستہ جو کہ یونس کے گاوں سے عاصمہ جہانگیر کے ریفرنس میں شرکت کیلئے لاہور آ رہا تھا کو پولیس نے روک دیا ۔ تاہم ایک چھوٹا دستہ محاصرہ توڑ کر لاہور پہنچنے میں کامیاب ہو گیا انکی اس کامیابی کے پیچھے گاوں کی خواتین  کا کپڑے دھونے والا تھاپوں سے پولیس کی مرمت کرنا تھا۔
ایک نسل گزر چکی ہے کہ جب پہلی بار انجمن مزارعین پنجاب براہ راست جدوجہد میں شامل ہوئی تھی ۔جمود کا یہ پچھلا عرصہ یقنناً ان کیلئے سوچ وچار اور اپنی خامیوں و کوتاہیوں کا مطالعہ کرنے کیلئے کافی تھا ۔ کوئی بھی سماجی تحریک ہمیشہ کیلئے توانا نہیں رہ سکتی اور اتار چڑھاو اسکا لازمی حصہ ہیں۔ انجمن مزارعین کیلئے مزاحمت کا موجودہ سلسلہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ بائیں بازو کے حلقوں میں یہ امید موجود ہے کہ پرانی غلطیوں سے سبق سیکھ لئے گئے ہوں گے۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ برادری جدوجہد کو تقسیم کرتی ہے لیکن ایک مشترکہ جدوجہد ان کو ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply