کینسر (50) ۔ سگریٹ/وہاراامباکر

گیارہ جنوری 1964 کو واشنگٹن کھچا کھچ بھرے کمرے میں لوتھر ٹیری کی رپورٹ صحافیوں کے آگے پیش کی گئی۔ اگلی صبح یہ نہ صرف امریکہ میں بلکہ باقی ممالک میں بھی اخبارات کے فرنٹ صفحات پر تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ زبردست پراپیگنڈا بلاسٹ تھا۔ خیال تھا کہ اس پبلسٹی کے بعد کینسر جیسے موذی سے بچنے کے لئے تمباکو نوشی ترک کر دینے کا فیصلہ آسان ثابت ہو گا لیکن جیسا کہ سگریٹ ساز ادارے فلپ مورس کے پریزیڈنٹ کو لکھے خط میں ان کے پبلک ریلیشن ایگزیکٹو نے لکھا، “عوامی ردِ عمل اور جذبات اتنے نہیں جتنا میرا خوف تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سگریٹ اربوں ڈالر کا کاروبار تھا۔ تمباکو کے کاشتکار، سگریٹ کی کمپنیاں، بیچنے والے، یہ سب طاقتور گروپ تھے، لوگوں کے روزگار اس سے وابستہ تھے۔ سو سال سے عوام اس کو استعمال کر رہے تھے۔ اس کے خلاف شروع ہونے والی مہم میں ان گروپس کی طرف سے شدید مزاحمت آئی۔ طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے۔ سائنس، سیاست اور قانون ۔۔۔۔ ان تینوں نے مل کر اس طاقتور لابی کا لگام ڈال دی۔ یہ جنگ طرح طرح کے داوٗ پیچ سے لڑی گئی تھی۔ سگریٹ کی ڈبیوں پر مضرِ صحت ہونے کی وارننگ کا اضافہ ہوا۔ 1 جنوری 1971 کو رات بارہ بجے امریکہ میں سگریٹ کا آخری اشتہار چلا۔ سگریٹ نوشوں کی تعداد 1974 کے بعد گرنا شروع ہو گئی۔
پرانے گناہ لمبے سائے رکھتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے کینسر کی شرح میں کمی 1984 کے بعد آنا شروع ہوئی اور یہ 2002 تک تیس فیصد گر چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترقی پذیر ممالک اس دوڑ میں پیچھے رہے۔ سرکاری طور پر سگریٹ کی حوصلہ شکنی دیر سے شروع ہوئی۔ پاکستان، انڈیا اور چین جیسے ممالک میں اس وقت سگریٹ نوشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ پچیس ہزار اور انڈیا میں سالانہ دس لاکھ اموات کی وجہ سگریٹ ہے۔ اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ سگریٹ کی کمپنیاں دنیا بھر میں منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے کام کرنے کے طریقے ڈھونڈ لئے ہیں۔ تمباکو سے کینسر کا یہ مارچ پوری رفتار سے جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سدھارتا مکھرجی کہتے ہیں،
“میں کینسر کے وارڈ میں تباہی کی جو داستانیں دیکھتا ہوں جن کا تعلق براہِ راست سگریٹ سے ہے، وہ آگے بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ اشتہاری ادارے میں کام کرنے والا ایک خوش لباس نوجوان جس نے سکون کے لئے سگریٹ کا استعمال شروع کیا تھا، اس کا جبڑا کاٹا جا رہا ہے تا کہ زبان کے کینسر کو نکالا جا سکے۔ ایک گھریلو خاتون جس نے وقت گزارنے کے لئے یہ عادت اپنائی تھی اور اس کے دیکھا دیکھی اس کے بچے بھی سگریٹ نوش بن چکے ہیں، سانس کی نالی کے کینسر کی بدترین اذیت کا شکار ہے۔ ایک مذہبی پیشوا جو پھیپھڑے کے کینسر کی وجہ سے بسترِ مرگ پر پڑا ہے اور کہتا ہے کہ زندگی میں یہ وہ واحد گناہ ہے جس سے وہ باز نہیں رہ سکا تھا۔
اور یہ مریض جو اپنی عادت کی بھاری ترین قیمت چکا رہے ہیں، ان میں سے کئی کی جھٹلا دینے اور خودفریبی کی قوت حیران کن ہے۔ میرے کئی مریض کینسر کے علاج کے دوران بھی یہ عادت ترک نہیں کرتے۔ جب وہ کیمیوتھراپی کی اجازت کے فارم پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں، میں ان کے کپڑوں سے تمباکو کی بو سونگھ سکتا ہوں۔ کئی مریض آپریشن کے بعد بھی کسی بے بس زومبی کی طرح کوریڈور میں نرسوں سے سگریٹ کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سگریٹ کے تمام مضر اثرات کے شواہد موجود ہونے کے باوجود یہ کاروبار چل رہا ہے۔ دنیا بھر میں کئی برسوں تک ایک سطح پر رہنے کے بعد اب دنیا میں سگریٹ نوشوں کی تعداد واپس اضافے کی طرف جانا شروع ہوگئی ہے۔ تمباکونوشی کے خلاف چلنے والی مہم عوامی توجہ برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ حیران کن چیز یہ ہے کہ کسی چیز کی وجہ سے کینسر ہونے کا شائبہ بھی خوف پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن ایک ایسی شے جس کے بارے میں ہمیں کینسر کا موجب ہونے کا یقین ہے، بلکہ اس سے زیادہ طاقتور اور عام کارسینوجن کوئی اور ہے ہی نہیں، جس کو ہم جانتے ہوں۔ یہ دنیا بھر میں بازاروں میں چند روپوں کے عوض عام فروخت ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار کہا جاتا ہے کہ “جان لینا فتح کا بڑا مرحلہ ہے”۔ لیکن دنیا میں روزانہ اربوں سگریٹوں کی ہونے والی فروخت یہ بتاتی ہے کہ ایسا نہیں۔
علم اور عمل میں ایک بڑی خلیج حائل ہے۔ ہم اپنے ہاتھوں اپنے لئے اذیت ناک موت (پھیپھڑے کا کینسر دوسرے کینسرز کی نسبت زیادہ اذیت دیتا ہے) قیمتاً خریدنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوزی لینڈ نے منشیات پر پابندی کی طرز پر سگریٹ پر بتدریج مکمل پابندی عائد کر دینا کا اور مستقبل میں نیوزی لینڈ کو سگریٹ فری ملک بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن زیادہ تر ممالک میں یا تو شخصی آزادی اور کاروباری آزادی کا دہرا نظریاتی گرداب یا پھر اس سمت میں عدم دلچسپی کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی جانیں بڑی تعداد میں اس کے دھویں میں اڑاتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنی وقتی خواہشات، اپنے نشے اور اپنی کوتاہ نگاہی سے نہیں بچ سکتے۔ آج کے ایک کش کو مستقبل کی بے پناہ اذیت پر ترجیح دینا ۔۔۔ یہ ہماری اپنی ٹریجڈی ہے۔(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply