نفاذ اردو کے لیے منعقدہ تقریب کا احوال۔۔۔۔ندیم رزاق کھوہارا

 

اردو ہماری قومی زبان ہے۔ یہ جملہ ہم بچپن سے ہی سنتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن شاید ہی کوئی اس بات کا ادراک کر سکے کہ اس ایک جملے میں کتنے مفاہیم پوشیدہ ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمارا ایک قوم ہونا۔۔۔ اور اگر ہم ایک قوم ہیں تو قومی زبان کا ایک ہونا نہایت ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک میں انگریزی کو زبردستی مسلط کر دیا گیا ہے۔ اس تسلط کا نتیجہ یہ ہے کہ اردو عوامی سطح پر تو بھرپور مقبولیت رکھتی ہے۔ لیکن سرکاری سطح پر اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اسی دہرے میعار کو مدنظر رکھتے ہوئے، آئندہ آنے والی نسلوں کو انگریزی کے تسلط سے نکالنے اور ملک کی قومی زبان کو اس کا جائز مقام دلوانے کے لیے پاکستان کے معروف کالم نگار جناب عزیز ظفر آزاد صاحب کی سربراہی میں قومی زبان تحریک گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا کی مقبولیت کے بعد اس تحریک نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ اور بہت سے ایسے لوگ جو اس سے پہلے قومی زبان کی ناقدری پر سوائے کڑھنے کے اور کچھ نا کر سکتے تھے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے میں مدد ملی ہے۔ جن میں سے ایک بندہ ناچیز بھی ہے۔

قومی زبان تحریک کے لاہور کے صدر جناب حامد انوار صاحب نے خصوصی طور پر تحریک کے لاہور اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت دی تو اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ لاہور کے مشہور ماڈل ٹاؤن میں تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ امریکہ سے محترمہ الماس شبی صاحبہ جو کہ معروف شاعر اور ادیب ہیں اور پنج ریڈیو کی براڈکاسٹر بھی ہیں وہ خصوصی طور پر امریکہ سے تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائیں تھیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر خصوصیت جناب عزیز ظفر آزاد صاحب سے ہماری ملاقات تھی۔ جو کہ اتنی یادگار رہی کہ ابھی تک اس کے زیر اثر ہوں۔ جناب آزاد صاحب بہت ہی ملنسار، با اخلاق اور دلفریب شخصیت کے مالک ہیں۔ ان سے گفتگو کرتے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ وہ خرابی صحت، نقاہت اور کم بینائی جیسے مسائل کے باوجود تقریب میں وقتاً فوقتاً آنے والے ہر شریکِ محفل کا استقبال کھڑے ہو کر کرتے اور تب تک نا بیٹھتے جب تک کہ معزز رکن اپنی نشست پر تشریف فرما نا ہوتا۔ یہ ان کی کشادہ دلی، محبت اور بلند اخلاق کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

جناب آزاد صاحب نوائے وقت کے ان چند دیرینہ کالم نگاروں میں سے ایک ہیں جو آج بھی نظریے کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید بھی نوائے وقت کے بڑے دلدادہ تھے۔ اور ہم بچپن سے ہی نوائے وقت پڑھتے ہوئے جوان ہوئے ہیں تو بہت خوش ہوئے۔ اور فرمانے لگے کہ آج کل ایسے مقدس لوگ کہاں ملتے ہیں۔ نوائے وقت صرف ایک اخبار نہیں نظریے کا نام ہے۔ جس کی آبیاری حمید نظامی اور مجید نظامی جیسی شخصیات نے کی ہے۔

تقریب کے تمام شرکاء آ گئے تو جناب حامد انوار صاحب نے نقیبِ محفل کے طور پر اپنے فرائض سنبھالتے ہوئے نہایت خوبصورت انداز سے سب شرکاء کا باری باری تعارف کروایا۔ اور پھر ایک ایک کر کے سب کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ سب سے پہلے مہمان خصوصی ہونے کے ناطے محترمہ الماس شبی صاحبہ نے اردو زبان کی ترویج اور غیر ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی اپنی قومی زبان سے محبت کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ان کی باتیں کافی حوصلہ افزاء تھیں۔ اور اس بات کی نوید دیتی تھیں کہ قومی زبان تحریک اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ اور جلد ہی اردو زبان کو اس کا جائز حق مل کر رہے گا۔

تقریب سے دیگر شرکاء نے بھی خطاب کیا۔ جن میں محترمہ فاطمہ قمر (قومی زبان تحریک شعبہ خواتین کی صدر)، محترمہ فوزیہ فروا، جناب جمیل بھٹی، آسٹریلیا سے تشریف لائے جناب ارشد نسیم بٹ، محترمہ شگفتہ غزل ہاشمی، محترمہ رانا ام لیلی، محترمہ نعیمہ آپا اور جناب محمد نعیم کھوہارا سمیت دیگر شرکاء نے اظہار خیال کیا۔

راقم الحروف کی باری آئی تو میں نے اپنا ادنی سا تعارف کروانے کے بعد بحیثیت سائنسی صحافی و بلاگر اس بات پر زور دیا کہ اردو صرف فنون ہی نہیں علوم کی بھی زبان ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ اردو زبان میں شعر و شاعری اور ادب کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی کماحقہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ غلط تاثر ہے کہ اردو سائنس کی زبان نہیں ہے اس سلسلے میں راقم الحروف نے انٹرنیٹ پر موجود اپنے سائنسی مضامین کا حوالہ بھی دیا اور بتایا کہ انہیں پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو میں سائنس کو کس خوبی کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ جو سائنسی اصطلاحات اردو کے اپنے ذخیرہ الفاظ میں موجود ہیں انہیں انگریزی میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس مقام پر الماس شبی صاحبہ نے راقم کی رائے سے اختلاف کیا اور کہا کہ انگریزی الفاظ کو ہوبہو اردو میں استعمال کر لینا چاہیے۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپ لفظ “سیلفی” کا ترجمہ کیا کریں گے۔

راقم نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ ایسے انگریزی الفاظ جو اردو میں عام مستعمل ہیں۔ یا اسم معرفہ یعنی مخصوص یا برانڈ نام سے تعلق رکھتے ہیں انہیں ہوبہو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم ایسے الفاظ جو انگریزی کی بہ نسبت اردو میں زیادہ سمجھ آتے ہوں مثلاً ایونٹ ہورائزن کی بجائے واقعاتی افق وغیرہ۔۔۔ انہیں اردو میں ہی رہنا چاہیے۔ نیز اردو زبان کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں انہیں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ مثلا لفظ سیلفی تو ہو گیا۔ لیکن اس کی جمع سیلفیز اردو کے کن قواعد کے تحت ہے؟

مباحثہ اور اختلاف رائے چونکہ کسی بھی ادبی تقریب کا حسن ہوتا ہے اس لیے بندہ ناچیز کے اختلاف کو بھی سب شرکاء نے تسلیم کیا۔ اور اس پر برا منانے کی بجائے تائید کی گئی۔ جو کہ نہایت خوش آئیند تھا۔

تقریب کے اختتام پر جناب عزیز ظفر آزاد صاحب نے محترمہ الماس شبی صاحبہ اور جناب ارشد نسیم بٹ صاحب کو قومی زبان تحریک کی جانب سے سفیرِ تحریک کے تقرر نامے پیش کیے۔ اور پھر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمایا۔ ان کا ایک ایک لفظ گندھا ہوا اور ان کے تجربے و بصیرت اور موضوع پر گرفت کا عکاس تھا۔ انہوں نے قومی زبان تحریک کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی۔ آئین پاکستان کے تحت اردو کو پندرہ سالوں میں سرکاری و دفتری زبان بنائے جانے اور 2015 میں عدالت عالیہ کی جانب سے نفاذ اردو کے لیے دیے گئے فیصلے کا خصوصی تذکرہ کیا۔

جناب عزیز ظفر آزاد صاحب اور حامد انوار صاحب کے ساتھ تصویر

 

یہاں پر میں ریڈیو پاکستان سے تشریف لائیں محترمہ ریحانہ عثمانی صاحبہ کا تزکرہ نا کروں تو بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ محترمہ ریحانہ عثمانی صاحبہ تقریب کے مہمان شرکاء میں سے واحد تھیں جنہوں نے نہایت شستہ اور صاف اردو میں بات چیت کی۔ جس پر راقم انہیں داد دیے بغیر نا رہ سکا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر شرکاء کو اردو بولنا نہیں آتی تھی۔ یقیناً سب کے سب بہترین اردو دان اور ادیب و شاعر تھے۔ نیز میزبان حضرات خصوصاً جناب عزیز ظفر آزاد صاحب اور جناب حامد انوار صاحب کی اردو پر گرفت قابل دید تھی۔ لیکن مہمانان میں بلاشبہ محترمہ ریحانہ عثمانی صاحبہ کو یہ خراجِ تحسین پیش کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بہت ہی اعلی اور شستہ اردو میں بات کی۔ وہ ریڈیو پاکستان میں خبریں پڑھنے والوں کی اردو سے ناواقفیت پر بھی نالاں نظر آئیں۔ لیکن ساتھ ہی امید ظاہر کی کہ وہ اپنی کوششوں سے جلد ہی اس مسئلے کو حل کر لیں گی۔

تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء کی تواضع چائے سمیت دیگر لوازمات کے ساتھ کی گئی۔ اور اس کے بعد تصاویر کا ایک دور چلا۔ جس کے بعد سب نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ باہر نکلے تو موسم نہایت سہانا ہو رہا تھا۔ آسمان پر چھائے بادل، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور محترمہ الماس شبی صاحبہ کی دلفریب مسکراہٹ سے ماحول میں عجب سی رومانویت بھر آئی تھی۔ موسم اپنا رنگ بدلے اور ادیب اور شاعر لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔ اس لیے باہر نکلتے ہی ایک بار پھر ٹولیوں کی صورت گپ شپ کا دور چلا۔ ہمیں چونکہ جلدی تھی اس لیے مجبوراً سب کو خدا حافظ کہا اور گھر کی راہ لی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

احوال کے اختتامی نوٹ پر یہ لکھنا چاہوں گا کہ نفاذ اردو اتنا ہی ضروری ہے جتنا بحیثیت قوم ہماری بقاء۔۔۔ مجھے امید ہے کہ جناب عزیز ظفر آزاد صاحب کی سرپرستی میں قومی زبان تحریک اپنی منزل کو پا کر دم لے گی۔ لیکن اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو تحریک کے صف اول کے سپاہی کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اور ہر اس شخص کو آگے آ کر عملی میدان میں قدم رکھنا ہو گا جو یہ سمجھتا ہے کہ ہماری تہذیب و ثقافت کے پنپنے کا راز اردو کی ترویج میں ہی پوشیدہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک محترم آزاد صاحب اور حامد انوار صاحب کی کاوشوں کو قبول کرے۔ اور ان کی سربراہی میں ہم جلد از جلد منزل مقصود کو پا سکیں۔ آمین

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply