اذان کا ممکنہ مستقبل۔۔پروفیسر سیّد عاصم علی

اذان کے سلسلے میں مسلمانوں نے عملن جو وطیرہ اختیار کر رکھا ہے اگر اسکو فورن سے پیشتر تبدیل نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب بھارت میں اذان کو جبرن روک دیا جائے گا۔

اذان کوئی مقدس شور نہیں ہے جس کا مچانا باعث اجر و  ثواب ہو۔  اذان ایک با مقصد  پکار یا اعلان ہے۔ اور وہ مقصد صرف ایک ہے  یعنی یہ کہ مسجد کے آس پاس رہنے والوں کو یہ اطلاع دے دی جائے کہ جس مسجد سے صدائے اذان بلند کی جا رہی ہے اُس مسجد میں نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ چنانچہ مسجد کے عین  پڑوس میں بسنے والے مسلمان نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جائیں۔ بس اس سے زیادہ اور کوئی مقصد اذان کا نہیں ۔ اس  مقصد کے لیے گھنٹہ یاشنکھ بجانے کی بجائے  رسول اکرمؐ نے ایک منفرد ، با وقار طریقہ یہ اختیار کیا کہ اسلام کے بنیادی عقیدے کو چھوٹے چھوٹے فقروں میں بآواز بلند دہرا دیا جائے تاکہ نماز کے وقت کی اطلاع بھی ہو جائے، اور ساتھ ساتھ ذہنوں میں بنیادی عقیدے کا اعادہ بھی ۔ نیز اس بات کی بھی مسلسل یاد دہانی ہوتی رہے کہ نماز  گیان دھیان قسم کی چیز کی بجائے اجتماعی خیر اور فلاح  کا ذریعہ ہے جسکی طرف بلایا جا رہا ہے۔

لیکن اذان کو اپنے ہاں عملاً دیکھیے توصورتحال کچھ عجیب و غریب نظر آتی ہے۔  ہر مسجد کا اپنے مسلک  اور سوچ کے اعتبارسے یا آسانی کے لحاظ سے اذان اور نماز کا وقت الگ ہے۔اور ہر چھوٹی بڑی مسجد میں لاؤڈ اسپیکر نصب ہے اور مسجد کے میناروں پر بڑے بڑے اسپیکر لگے ہیں  جن کا رُخ مختلف سمتوں میں ہوتا ہے۔                     ( وہی لاؤڈ اسپیکر جو آلۂ مکبرالصوت کے نام سے کچھ عرصے پہلے تک حرام ہو ا کرتا تھا، لیکن اب اس پر اعتراض کرنا تقریباً  حرام کے درجے میں ہے)۔ اذان دینے کے سلسلے میں اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ عین مسجد کے پڑوس میں کتنے مسلمان گھرانے ہیں جن کو نماز کی اطلاع دی جانی ہے اور اسکے لیے کتنی آواز کی ضرورت ہے۔بلکہ سب سے اونچی آواز  (والیوم)         پر اذان شروع کر دی جاتی ہے  ۔ بیک وقت کئی کئی مسجدوں سے اذان نشر ہونے لگتی ہے،آوازیں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں، جسکی وجہ سے فضا میں ایک شور برپا ہوجاتا ہے ۔ آپ کے پڑوس میں جو مسجد ہے اسکی  اذان کی آواز دور دراز کے محلوں اور بستیوں میں سنی جاسکتی ہے جہاں کے مسلمان آپکے  محلے میں نماز ادا کرنے کبھی نہیں آئیں گے، نہ اسکی ضرورت ہے  ۔ اس آواز کا وہاں سنا جانا بے مقصد ہے۔ اور دور دراز کی مسجدوں میں ہونے والی اذان کی آواز آپکے محلے میں سنی جا سکتی ہے جبکہ آپ نماز اداکرنے کبھی ان مسجدوں کا رخ نہیں کریں گے، نہ اسکی ضرورت ہے۔ ان  آوازوں کا آپ کے ہاں سنا جانا  بھی  بےمقصد ہے ۔اور اس طرح اس بے مقصد کارروائی کا سلسلہ تکرار کے ساتھ خاصی دیر تک جاری رہتا ہے۔ اس صورت میں  اسکی نوعیت ایک مقدس شور کے    علاوہ کچھ اور نہیں رہ جاتی۔ نیز ایک دشواری یہ بھی پیش آتی ہے کہ اتنی بہت سی گڈمڈ اذانوں میں سے آخر آپ کس کو دہرائیں گے، جس کی تاکید ہے۔

دن   کی گہما گہمی میں  تو پھر یہ شور دوسری آوازوں میں گھل مل جاتا ہے۔مگر فجر کے سناٹے میں  پوری فضا بلند آہنگ لاؤڈ اسپیکروں کے گڈ مڈ شور سے بھر جاتی ہے۔ پھر چونکہ اذان کے اوقات مختلف ہیں اس لیے آدھے پون گھنٹے  تک یہ سلسلہ تکرار کے ساتھ جاری رہتا ہے۔اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا  کہ ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں کی اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں کے لیے تو پھر یہ اذان ایک مقدس گونج ہے مگر سوچنے  کی بات ہے کہ وہ غیر مسلم جو چہار جانب بستے ہیں ان پر یہ شور جو انکے لیے بے مقصد ہے کس قدر گراں گزرتا ہوگا۔ پھر انکی قوت برداشت کی داد دینے کا بھی جی چاہتا ہےکہ وہ عموماً  اعتراض نہیں کرتے،چپ چاپ برداشت کرتے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں انکی قوت برداشت کا مسلسل امتحان نہیں لینا چاہیےجوخاص طور سے آج کل کے  بدلتے ہوئے حالات میں کسی دن بھی جواب دے سکتا ہے۔ نہ بھی جواب دے ، پھر بھی ہمیں مہذب شہریوں کی طرح  خود یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اطراف میں بسنے والے ہندوؤں کو نماز پڑھنے   نہیں آنا، لہٰذا ان کو نیند سے جگانا اور مسلسل ایک گھنٹے جگا ئے رکھنا اچھی بات نہیں ۔یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے مسجد کے اطراف میں کچھ مریض  آباد ہوں جن کو نیند نہ آنے کی بیماری لاحق ہواور رات بھر کروٹیں بدلنے  کے بعد ابھی ان کی آنکھ لگی ہو،  کچھ دل و دماغ کی بیماری میں مبتلا ہوں جن کے لیے شور سخت مضر ہے،کچھ طالبعلم ہوں جو رات بھر امتحان کی تیاری کے بعد سو گئے ہوں  اور کچھ ہی دیر بعد اٹھ کر ان کو امتحان دینے جاناہو وغیرہ (علاوہ ان  بہتیرے غیر مسلموں کے  جن کو نماز پڑھنے نہیں آنا)۔مزید یہ کہ ان میں سے کوئی وجہ نہ ہو پھر بھی شور اور طویل شور انسان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کے لیے خود ایک  نقصان دہ چیز ہے۔

ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے فوری طور پر درج ذیل باتوں کی طرف توجہ دی جائے۔ایک بستی یا شہر کی ساری مسجدوں کے متولی باہمی اتفاق رائے سے پانچوں اذانوں کا  ایک وقت مقرر کریں اور ساری اذانیں ہر مسجد میں  بیک وقت انھیں مقررہ اوقات میں دی جائیں، تاکہ صرف تین سے پانچ منٹ میں یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔جہاں تک ممکن ہو ،   اذان بغیر آلۂ مکبرالصوت (لاؤڈ اسپیکر)  کے دی جائے۔ اگر بعض صورتوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ناگزیرہی ٹھہرے تو آواز صرف اتنی        رکھی جائے کہ  مسجد کے آس پاس کے گھروں میں بآسانی اذان سنی جاسکے، اور بس۔ مسجدوں میں نماز کی ادائیگی کے اوقات میں فرق رکھا جا سکتا ہے جس کی اطلاع اس مسجد کے اطراف میں بسنے والوں کو دے دی جائے۔( مثلاً  یہ کہ اس مسجد میں نماز کی ادائیگی اذان کے پندرہ یا پچیس یا تیس منٹ بعد ہو گی، وغیرہ)۔ اگر کسی محلے یا بستی میں مسجدیں پاس پاس واقع ہیں تو ان میں سے کسی ایک مسجد کے سپرد یہ ذمہ  داری کر دی جائے کہ صرف وہاں سے اذان لاؤڈ اسپیکر سے ہلکی آواز پر نشر ہو گی اور باقی مسجدوں میں بغیر لاؤڈ اسپیکر کےدی جائے گی۔ اس بات کا مشترکہ اعلان کر دیا جائے کہ ہم نے غیر مسلموں اور دیگر مریضوں، طالبعلموں اورضعیفوں کی سہولت کے مد نظر اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال خود اپنی مرضی سے ترک کر دیا ہے۔ اس سے آپکی قومی شرافت کا تاثر  بھی قائم ہو گا  اور اذان اکثریت کے ذہنوں میں بار بار تنفر اور غصے کے جذبات ابھارنے کا ذریعہ نہیں بنے گی۔

یاد رہے کہ اذان آجکل صرف رسول اکرمؐ   کی قائم کردہ ایک روایت کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے، ورنہ   نماز کا وقت جاننے  کے لیے اب صرف اسی پر انحصار ہو ایسا نہیں ۔ اب تقریباً    ہر شخص کے پاس موبائل اور انٹرنٹ    یا کم از گھڑی کی سہولت موجود ہے جس کے ذریعے وہ اذان اور نماز کا وقت دنیا کے کسی بھی شہر میں بآسانی معلوم کر سکتا ہے۔ تمام مسجدوں کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنے اوقات نماز شائع کرتے رہیں  تا کہ بغیر اذان سنےبھی معلوم کیا جاسکے کہ فلاں محلے کی فلاں مسجد میں نماز کس وقت ہو گی۔ظاہر ہے کہ شروع کے دور میں یہ ممکن نہیں تھا  اور نماز کے وقت کی اطلاع دینے کی محض ایک ہی صورت تھی کہ مسجد کی چھت یا مینار سے بآواز بلند اذان دی جائے جو آس پاس کے گھروں میں سن لی جائے۔ آجکل یہ ضرورت باقی نہ رہی۔برسوں سے ایسی الکترانی گھڑیاں بھی بازار میں دستیاب ہیں جن سے وقت مقررہ پر اذان نشر ہوتی رہتی ہے۔ کینیڈا میں خود ہمارے گھر میں زمانے سے ایک ایسی ہی گھڑی پر انحصار ہےجو مستقل مزاجی سے گھریلو مؤذن کا فرض ادا کر رہی ہے، مع سحر و افطار کے اوقات بتانے کے۔

اعتراض کیا جا سکتا ہےکہ آخر دوسری قومیں بھی تو اپنی مذہبی تقریبوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتی ہیں اور رات رات بھر اور کئی کئی دن بھجن، کیرتن اور ہنومان چالیسوں کا بلند شور فضا میں گونجتا رہتا ہے۔ اس سے بھی تو نیند خراب ہوتی ہے اور مریضوں اور طالبعلموں کو پریشا نی ہوتی ہے ۔ اسکا کیا؟ تو عرض یہ ہے کہ مسلمانوں کوخدا یا رسولؐ       کی جانب سے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جو دوسری قومیں کرتی ہیں انکی ضد یا نقالی میں وہی کچھ تم بھی کیا کرو۔ بلکہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ دوسروں کے غلط کاموں سے دور رہو اور اچھے کاموں میں انکا ساتھ دو۔ قرآن میں ہے کہوَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ، یعنی “نیکی اور بھلائی کے کاموں میں شریک کار رہو اور گناہ اور سرکشی کے کاموں میں شریک کار نہ رہو، اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے”۔ چنانچہ ہمارا کام دوسروں کے ان کاموں میں شریک ہونا  یا انکی نقالی کرنا نہیں جو ایذا پہنچانے اور پریشان کرنے  کے زمرے میں آتے ہوں  اور ہم کو سخت عذاب کا مستحق بناتے ہوں،  بلکہ ہم کو  ان سے بچنے اور دور رہنے کا حکم ہے۔ظاہر ہے مسلمانوں کو اس حکم  پر عمل کرنا ہے نہ کہ دوسروں کی غلط باتوں کی نقالی۔  اور یہ عملی مثال قائم کرنا ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے دین کو ماننے والے دوسروں کی  طرح انسانوں کے لیے زحمت کا نہیں  بلکہ راحت و رحمت کا سبب بنتے ہیں۔مزید یہ کہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی اعمال  جاری رکھنے سے خدا کی نصرت بھی آپکا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ تین طلاق کے غیر اسلامی اور غیر قرآنی موقف پر آپکو کیسے منہ کی کھانی پڑی، اور قرآنی موقف پر جبراً  واپس آنا پڑا ، وہ بھی غیر مسلموں کے ہاتھوں۔ بدلتے ہوئے حالات میں اذان کے سلسلے میں آپ نے عملاً  جو وطیرہ اختیار کر رکھا ہے اگر اسکو فوراً  سے پیشتر تبدیل نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب اذان کو بھی جبراً  روک دیا جائے گا۔پھر  اس خواہ مخواہ کی سبکی سے بچنا ہے تو وقت رہتے خود ہی اس رویے (اور اس جیسے تمام دیگر رویوں )               کی اصلاح کر لیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء لکھاری کی  ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے مکالمہ ویب متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کی  پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply