سوشل میڈیا اور آزادیِ اظہار کو لاحق خطرات !

گذشتہ چند دنوں سے یہ خبر گرم ہے کہ حکومتِ وقت سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے بارے غور کر رہی ہے۔ وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے نبیِ اکرمؐ کی حرمت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور سوشل میڈیا (خصوصاً فیس بک اور ٹویٹر) پر شرپسند عناصر ہمارے نبیؐ کی شان میں بار بار گستاخی کر کے ہمارے ایمان کا امتحان لے رہے ہیں۔ ایک طرف ٹیکنالوجی بیزار مذہبی دِکھنے والے چند حضرات اور ایک جج صاحب یہ دُہائیاں بلند کر رہے ہیں کہ ایسی تمام سوشل میڈیا سائیٹس کو بند کیا جائےجو توہینِ رسالتؐ میں حصہ دار ہیں اور رسولؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے افراد کو بھی گرفتار کر کے سزا دی جائے۔ تو دوسری طرف حکومتی زعماء یہ کہہ کر اپنی بےبسی کا تاثر دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ملوث افراد تک پہنچنے میں متعلقہ سائیٹس کی انتظامیہ تعاون نہیں کر رہی۔ یہ معاملہ چند ماہ پہلے کچھ سوشل میڈیا بلاگرز کی گمشدگی کے بعد اچانک ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ کے پورے ملکی منظر نامے پر چھا گیا۔ اُن بلاگرز کو کس نے اٹھایا تھا یہ ایک رہا ہونے والے بلاگر نے انکشاف کر کے بتا دیا۔ اُن بلاگرز کی گمشدگی کے دوران پورے ملک میں اُن کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ وہ سوشل میڈیا پر توہینِ رسالت میں ملوث تھے۔ پھر اچانک ایک دن خبر آئی کہ اُن بلاگرز کو رہا کر دیا گیا ہے۔ لیکن اُس وقت تک ماحول کو اتنا گرما دیا گیا تھا کہ اُن بلاگرز کو لوگوں یا میڈیا کے سامنے آ کے اپنی صفائی دینے سے زیادہ عافیت خاموش رہنے اور ملک سے باہر چلے جانے میں ہی محسوس ہوئی۔
اُس کے چند دن بعد آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے بعد اس سے بھی بڑے آپریشن ردُالفساد کا آغاذ ہوا اور پہاڑی علاقوں سے بہہ کر آنے والے آپریشن کے سیلاب نے پنجاب کے میدانی علاقوں کا رُخ کیا۔ چند سازشی مفروضہ ساز دانشور سوشل میڈیا پر لگنے والی ممکنہ پابندی کو اس آپریشن کی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ چند دوسرے مفروضہ ساز دانشور سوشل میڈیا پر ممکنہ پابندی کو موجودہ حکومتِ وقت کی آنے والے الیکشن میں کامیابی کے لیے تیار کی جانے والی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ یہ الیکشن کا سال ہے اور حکومت پیسے اور اختیار کے بل بوتے پر الیکٹرانک میڈیا کو تو کنٹرول کر سکتی ہے لیکن سوشل میڈیا کے اثر کو ان عام ہتھکنڈوں سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا بہتر حل یہی ہے کہ نہ نَو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اسی طرح کچھ اور سازشی مفروضہ ساز دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے عوام کے شعور کو بیدار کر دیا ہے۔ اب ہر شخص خود کو اپنی رائے کے اظہار میں آزاد سمجھنے لگا ہے اور یہی آزادیِ اظہارِ رائے تھا جس نے عرب ممالک میں اسٹیٹس کو کے خلاف آواز بلند کی اور حال سب کے سامنے ہے۔ لہٰذا عرب ممالک کا حال سامنے رکھتے ہوئے یہاں کے اسٹیٹس کو نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایسے ممکنہ خلفشار کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے۔ لہٰذا عوامی شعور کو سلائے رکھنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
سوشل میڈیا پر لگنے والی ممکنہ پابندی کی اصل وجہ چاہے اِن تمام مفروضوں میں سے کوئی بھی ہو لیکن فالوقت تو مذہب ہی کو ذریعہ بنایا جا رہا ہے نا۔ دینی حرمت کے نام پر اپنا ذاتی اور قومی کردار بھول کر جذبات میں آ کر مرنے اور مارنے پر فوراً تیار ہو جانے والی غیرت مند قوم سے ایک سوال ہے میرا۔ نبیِ اکرمؐ کی شان میں گستاخی کا مواد صرف سوشل میڈیا ہی پر تو موجود نہیں۔ گوگل پر کسی کی توجہ کیوں نہیں جاتی؟ وہ تو اس سارے فساد کا باپ ہے۔ کیوں نا انٹرنیٹ پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ پھر ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ کس کی جرات ہے کہ ہمارے سامنے کوئی ہمارے دین کی توہین کر سکے! ہماری اِس کاری ضرب سے حواس باختہ ہو کر ممکن ہے کہ ہمارا دشمن آسمان سے اپنے جہاز لے آئے اور اوپر سے توہین آمیز پمفلٹ پھینک کر ہمارے جذبات کو پھر سے مجروح کرے۔ اُس کا بھی ایک حل ہے۔ ہم سب مل کر پورے ملک میں درخت اگاتے ہیں۔ جو بھی پمفلٹ ہوں گے وہ درخت کی ٹہنیوں میں ہی پھنس کے رہ جائیں گے۔ ہماری قومی دانش اور جذبات اسی بات کے متقاضی ہیں کہ ہم جنگل میں ہی رہیں۔ کیونکہ اپنا ذاتی اور قومی کردار اسوہِ رسولؐ کے سانچے میں ڈھالنا اِس سے کہیں زیادہ مشکل اور مسلسل مشقت کا کام ہے۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سوشل میڈیا اور آزادیِ اظہار کو لاحق خطرات !

  1. بہت عمد ، کاش لوگوں کو عقل آ سکے اور مسائل کے اصلی اور بنیادی عوامل کی نشان دہی کر سکیں نہ کہ انکےرد عمل اور نتائج کی پکڑ ڈھکڑ میں وقت اور وصائل ضائع کرتے رہیں۔

Leave a Reply