موجودہ سیاسی حالات اور مسلم ممالک کا مخمصہ

موجودہ عالمی سیاسی تناظر کو اور عالمی دنیا کے موثر معاشی سٹیک ہولڈرز کی ہالیسیوں کو ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے دنیا کو دو حصوں میں بانٹا جا چکا ہے، یا یوں کہیے کہ دنیا دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ سہولت کے لیے ان دونوں حصوں میں سے ایک کو "استعمال کرنے والا" اور دوسرے کو "استعمال ہونے والا" سمجھ لیجیے، یعنی کچھ لوگ اور وسائل استعمال ہو رہے ہیں اور بقیہ لوگ ان کو استعمال کر رہے ہیں۔ استعمال ہونے والی اہم ترین چیز انسان اور اہم تر چیز انسانی جذبات ہیں، جن کو ہر سمجھدار اور شاطر شخص اپنی اپنی ضرورت اور مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ استعمال ہونے والوں میں سے بہت کم انسان جانتے ہیں کہ وہ کن مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ بیشتر انسان تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کو استعمال کر کون رہا ہے۔ تاریخِ انسانی میں شروع سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے۔

استعمال کرنے والے گروہ کچھ ترغیبیں دے کر لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ان ترغیبوں میں سب سے بڑی اور کارگر ترغیب مال ہے جو کام کے معاوضے کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ یہ معاوضہ کبھی تنخواہ کا نام پاتا ہے تو کبھی خرچہ پانی۔ انعام و اکرام ہو یا بخشیش، یا خدا رکھے، نذرانہ و چندہ، یہ سب صورتیں اس عوض کی ہیں جو کسی کام کرنے پر دیا جاتا ہے۔ کبھی یہ ادائیگی یکمشت ہوتی ہے تو کبھی ہفتہ وار یا ماہانہ۔ انسان ساری زندگی کے لیے خود کو رہن رکھ کر کام کرتے ہیں اور تنخواہ پاتے پاتے مر کھپ جاتے ہیں۔ تنخواہ کے لفظ کو ذرا سمجھ کر پڑھیں (تن + خواہ) تو یہ بات سمجھ آ جائے گی۔ استحصال یہ ہے کہ کام کا معاوضہ یا محنتانہ یعنی اجرت کام کے مناسب نہ ہو بلکہ کم ہو، یا طے شدہ اجرت سے کم ہو۔ بیگار یہ ہے کہ کسی ادائیگی کے بغیر کام لیا جائے۔ یہاں تک کہ امداد کی صورت میں جو کچھ دیا جاتا ہے وہ اصلًا قرض ہوتا ہے جس کا ادا کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ ملک اور قومیں یہ ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں اور بیشتر جانتے بھی نہیں کہ وہ امداد کے نام پر دی جانے والی کس رقم کا قرض لوٹا رہے ہیں۔ اس وقت امداد دینے والے لوگ اور ملک تیزی سے ایسے علاقوں کی زمینوں کے ملکیتی حقوق رہن رکھوا رہے ہیں جہاں معدنیات یا زراعت یا کوئی اور مطلوب چیز بہتر ہے۔ عن قریب تیسری دنیا کے بیشتر ملک اپنی اچھی رئیل اسٹیٹ سے محروم ہونے والے ہیں۔

انسانی سرمائے سے کام لینے والی قومیں اور ملک شروع سے انسانوں کا استعمال، استحصال اور ان سے بیگار لیتے آئے ہیں۔ آج جذبات کو استعمال کرنے کا کام زوروں پر ہے۔ ظاہراً یہی محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں مختلف قسم کے جذبات (لسانی، نسلی، علاقائی، مذہبی، وغیرہ) کی گرم بازاری پیدا کرکے کچھ نسلیں ازسر ختم کی جائیں تاکہ آئندہ دنیا کا منظر نامہ اپنے مطلوبہ ڈھب کا بنایا جا سکے اور صرف نافع نسلیں باقی رہ سکیں (Survival of the fittest)۔

اس وقت مسلمانوں میں سب سے زیادہ مشکلات ہیں۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ مسلمان بحیثیتِ قوم یا امت چودہ سو سال سے ابھی تک اپنا Location Identification Code ہی طے نہیں کر پائے، یعنی انھیں ابھی تک یہی واضح نہیں ہے کہ وہ جہاں پیدا ہوئے ہیں وہ جگہ ان کا وطن ہے یا وہ وطن کی حدود سے ماورا ہیں۔ اس وقت جب کہ ساری دنیا کے سمجھ دار لوگ اپنا گھر پہلے ٹھیک کر رہے ہیں تاکہ اپنی جگہ رہ کر باقی دنیا کے لیے کارآمد ہوسکیں اور اپنی جگہ کی ملکیت پر اپنا حق قائم رکھ سکیں، مسلمانوں میں چین و عرب ہمارا قسم کی تحریکیں پیدا کرکے ان کو مستقل طور پر خانہ بدوش بنانے کا منصوبہ بھی نظر آ رہا ہے۔ خدا کرے کہ مسلمان اپنے اپنے گھر یعنی ملک ٹھیک کریں تاکہ ایک دوسرے کے کام بھی آ سکیں اور مل کر کسی اتحاد میں ڈھلنے کے لائق بھی ہو سکیں۔ مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ جس کے اپنے گھر دانے نہ ہوں وہ کسی کو کیا مدد دے سکتا ہے؟ ہم منفی رویوں کو چھوڑ کر اور مثبت سوچ اور طریقِ عمل کو اپناتے ہوئے اپنا ملک ٹھیک اور معیشت و دفاع مضبوط کریں تب ہی کسی اور ملک کے کام آ سکیں گے۔ امت امت کے نام پر اپنے ملک کی سرحدیں کمزور کرتے جانا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ کمزور معیشت والا ملک صرف طفیلیا (Liability) ہوتا ہے اور بقیہ ملکوں پر بوجھ ہوتا ہے۔ پچاس بھیڑیں مل کر بھی بھیڑیں رہتی ہیں، ایک شیر نہیں بنتا۔ اور یاد رکھنے کی بات ہے کہ آج کی دنیا میں عزت سے رہنے کے لائق وسائل اور مہارتیں پیدا کی جائیں تاکہ آج کی دنیا میں سر اٹھا کے جی سکیں۔ جو مہارتیں اور سلیقے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے مہذب و متمدن معاشروں کے تھے، آج ان میں سے بیشتر بالکل فرسودہ ہو چکے ہیں۔ نیا زمانہ ہے، نئے صبح و شام پیدا کرنے چاہییں۔

دنیا جان چکی ہے کہ اپنی زمین کو اپنا نہ سمجھنے والے ذہن کے لوگ بھاڑے کے ٹٹو کے طور پر کچھ پیسے کے عوض کہیں بھی اور کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، یہاں تک کہ جس زمین پر یہ لوگ پیدا ہوئے ہیں اور جہاں کی شہریت رکھتے ہیں اسی کے خلاف بھی بخوبی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ غداروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ غدار تو پھر کسی دنیاوی فائدے کے لیے غداری کرتا ہے جب کہ یہ لوگ دنیا آخرت کے کسی بھی نفع کے بغیر استعمال ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی افرائشِ نسل کرنے والے علاقائی اور عالمی ایجنٹ انھیں گلوں (Flocks) کی صورت میں پال رہے ہیں اور ان کی تجارت کر رہے ہیں۔ خدا ہی عافیت کی صورتیں پیدا فرمائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے؟

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”موجودہ سیاسی حالات اور مسلم ممالک کا مخمصہ

Leave a Reply