کینسر (39) ۔ علاج کا ملاپ/وہاراامباکر

پال کاربون ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا سوال یہ تھا “ابتدائی سٹیج کے کینسر میں اگر آپریشن کے ساتھ کیموتھراپی بھی کر دی جائے تو کیا بہتر نتائج مل سکتے ہیں؟” لیکن انہیں ایک مسئلہ تھا۔ کینسر کے سرجن اور کیموتھراپسٹ آپس میں اچھے تعلقات نہیں رکھتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تلاش کرنے پر انہیں 1972 میں اطالوی سرجن بوناڈونا اور ویرونیسی مل گئے جو بڑے سکیل پر ایسا رینڈم ٹرائل کرنے کو تیار تھے۔ انہیں نیشل کینسر انسٹیٹیوٹ سے اس کا کنٹریکٹ مل گیا۔
امریکہ میں اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے ایسا کیا جانا ممکن نہیں رہا تھا۔
یہ ٹرائل اٹلی میں 1973 میں شروع ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹرائل میں چار سو خواتین تھیں۔ نصف کو آپریشن کے بعد سی ایم ایف دیا گیا، نصف کو نہیں۔ اس ٹرائل کی سرجن بہت مخالفت کرتے رہے۔
بوناڈونا نے اس کے نتائج برسلز میں ہونے والی کانفرنس میں 1975 میں پیش کئے۔ دو سال گزرنے کے بعد، جن خواتین کی اضافی کیموتھراپی نہیں ہوئی تھی، ان میں سے نصف میں یہ واپس آیا تھا جبکہ جن میں ہوئی تھی، ان میں سے ایک تہائی میں۔ یعنی ہر چھ میں سے ایک خاتون میں اضافی کیموتھراپی نے کینسر کی واپسی روک دی تھی۔
یہ خبر سامعین کے لئے غیرمتوقع تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اگر ابتدائی سٹیج پر اضافی کیموتھراپی سے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں تو کیا ای آر مثبت کینسر میں سرجری کے بعد اینٹی ایسٹروجن تھراپی بھی ایسا اثر دکھا سکے گی؟”
یہ سوال برنی فشر کا تھا۔ مایا کول کے تجربے کے پانچ سال بعد جنوری 1977 میں انہوں نے 1891 خواتین پر یہ ٹرائل کیا جن کا کینسر ای آر مثبت تھا۔ ان کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کو آپریشن کے بعد اضافی ٹیموکسفین دی گئی جبکہ ایک کو نہیں۔ اگلے چار سال میں گروپس میں فرق نمایاں تھا۔ ٹیموکسفین کے اضافے نے کینسر کی واپسی کا امکان پچاس فیصد کم کر دیا تھا۔ اور خاص طور پر پچاس سال سے زائد عمر کی خوتین کو زیادہ فائدہ ہوا تھا۔
فشر نے تین مزید سال بعد 1985 میں اس کا تجزیہ کیا تو نتائج زیادہ ڈرامائی تھے۔ پانچ سو خواتین میں سے یہ پچپن خواتین میں اس کی واپسی اور موت کو روک چکا تھا۔ فشر نے سرجری کے بعد ناقابلِ ذکر مضر اثرات والی خاص حدف کی ہارمونل ڈرگ کی مدد سے کینسر کی بائیولوجی بدل دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے علاج کے لئے 1980 کی دہائی میں اضافی کیموتھراپی کا اور چھاتی اور پروسٹیٹ کینسر میں ہارمونل تھراپی کا اضافہ ہونے لگا۔
ان میں سے کوئی بھی طریقہ مکمل علاج نہیں تھا۔ ہارمونل تھراپی سے کئی بار سالوں یا دہائیوں تک کینسر روک دیا جاتا تھا۔ اضافی کیموتھراپی سروائیول کو بڑھا دیتی تھی۔ لیکن کئی مریضوں میں کینسر واپس آ جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ٹرائلز سے کینسر بائیولوجی اور تھراپی کے کئی اہم اصول واضح ہو کر سامنے آ رہے تھے۔
پہلا تو یہ کہ کینسر بہت زیادہ متنوع ہے۔ چھاتی کا یا پروسٹیٹ کا کینسر بہت سی اقسام میں آتا ہے اور ہر ایک کا منفرد رویہ ہوتا ہے۔
یہ تنوع جینیاتی ہے۔ مثلاً، چھاتی کے کینسر کے کئی ویری انٹ ہارمون تھراپی کو ریسپانس دکھاتے تھے جبکہ کچھ پر کوئی اثر نہیں تھا۔
اور یہ تنوع اناٹومی کا ہے۔ کچھ کینسر چھاتی تک محدود رہتے تھے جبکہ دوسرے دور کے اعضاء تک پھیلتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا یہ کہ اس تنوع کو سمجھے کے گہرے مضمرات تھے۔ فشر اور بوناڈونا کے تجربات نے دکھایا تھا کہ “دشمن کو جاننا” اس پر حملہ آور ہونے سے پہلے ضروری ہے۔ مثلاً، بوناڈونا کی سٹڈی میں اس کی سٹیج کا جاننا لازم تھا۔ ابتدائی سٹیج کے کینسر کی تھراپی بعد کی سٹیج کی طرح نہیں ہو سکتی۔ فشر کی سٹڈی میں ای آر مثبت اور ای آر منفی میں الگ کئے جانا ضروری تھا۔ ایسا نہ کیا جاتا اور ٹیموکسفین کا تجربہ بلاتخصیص ای آر منفی پر بھی ہوتا تو اس دوا کو بے فائدہ کہہ کر رد کر دیا جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس سمجھ نے کینسر میڈیسن کی تحقیق پر بہت اثر ڈالا۔ نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے فرینک راشر نے 1985 میں کہا، “ہم سب دس سال پہلے ناسمجھ تھے۔ ہم امید رکھتے تھے کہ ایک ہی قسم کی ادویات کا ڈرامائی اثر ہو گا۔ اب ہم یہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہم پرامید ہیں لیکن یہ توقع نہیں رکھتے کہ کسی طرح سے چھکا لگ جائے گا۔ اب، ہم سنگل لینے میں خوش ہیں”۔
علاج کا یہ ملاپ (Adjuvant Therapy) کینسر کے خلاف لیا گیا ایک اور سنگل تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply