پشتونوں کا چی گویرا/رشید یوسفزئی

بزرگوں سے سنا کہ پشتون تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ افضل بنگش کا تھا۰ پاکستان کے تقریباً ہر صوبے، ہر قومیت کے لوگ بلا تفریق مذہب، نسل وسیاسی وابستگی کے ان کو خراج محبت پیش کرنے  آئے تھے،پشاور اور خصوصاً کوہاٹ روڈ کا علاقہ لوگوں کے ہجوم سے بند تھا، زندگی کی حرکت رک گئی تھی، پشتون ، بلوچ، سندھی اشک رواں کیساتھ جنازے کیساتھ چل رہے تھے۔ان کے سوگوار ، ان کے لواحقین انکے بھائی بندے، ان کے بیٹے نہ تھے،ان کے سوگوار مزدور کسان، پسے ہوئے، پسے جانے والے عوام تھے۔

کالج کے زمانے میں پشتون شاعر پیر گوہر کے مستقر پیرخانے میں ایک دیوار پر چسپاں ایک پوسٹر میں افضل بنگش کی  تصویر دیکھی۔ شکیل و جمیل چہرہ، دور رس ، نکتہ سنج ، چمکتی عقابی نگاہیں، پُرشکوہ مگر نازک و نفیس مونچھیں، کلف دار ٹائی و کوٹ پہنے ، مردانہ وجاہت سے بھرپور خدو خال ۰ پیر صاحب سے سوال کیا :” افضل بنگش میں کیا ایسا کمال تھا کہ آپ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے؟ شاعر امن خطاب پانے والے پیر گوہر نے پانچ مختصر لفظوں میں جواب دیا:

“ پشتونوں کے چی گویرا تھے”!

تب مجھے ان سے مظلوم و مقہور قوموں کا اُنس سمجھ  آیا، تب مجھے ان کے جنازے کیلئے جمع ہونے والے  ٹھاٹھیں اور ، دھاڑیں مارتے عوامی سمندر کا سبب سمجھ آیا ۔

خوش گفتار، خوش لباس ، خوش نویس ادیب ، ماہر لسانیات ، قانون دان ، سکالر ، سیاست دان، بائیں بازو کے مجاہد محمد افضل خان بنگش اپنے کمالات میں بے مثال تھے اور کردار میں بے ہمال۰ اپنی  بصیرت و وژن میں وحید تھے اور عزم و حوصلے میں فقید۔جیسا زرخیز ذہن پایا تھا ویسی ہی مستحکم و مضبوط ایمانداری و دیانتداری،قلم کے مالک بھی تھے اور بندوق کے بھی ۔

قانون کی  اکیڈمی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ والد محمد اکبر خان بنگش ایڈووکیٹ اس زمانے میں وکیل تھے جب جناح و گاندھی بیرسٹری کرکے انڈیا نہیں لوٹے تھے، قانونی فقاہت و ثقاہت اس معیار کی تھی کہ ان کے گرائیں جسٹس ایم آر کیانی ان کو این ڈبلیو ایف پی کے “سر فیروز شاہ مہتا” کہتے،یہی قانونی ڈی این اے ، یہی قانونی بصیرت بیٹے کو منتقل ہوئی ۔باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے افضل بنگش ایڈووکیٹ لاء کی تعلیم حاصل کرکے قانون کے پیچیدہ و پُرخار میدان میں  آئے، اور ان کے ہم عصر گواہ ہیں کہ نوزائیدہ ملک کے ہائی کورٹس و سپریم کورٹ میں کسی مقامی وکیل کی  زبان و دہن سے ایسی مضبوط جرح ، ایسا  قوی استدلال پہلی بار انہوں نے سنا۔ جب بھی محمد افضل خان بنگش عدالت میں مقدمے کی پیروی کیلئے آتے مقامی و غیر مقامی جج و وکیل ، قاضی و قانون دان انگشت بدنداں رہتے۔ طرز بیان میں لارڈ ارسکائن، منطقیت میں ڈگلس والٹن۔

خوش لباسی میں کبھی کوتاہی نہ کی۔ہمیشہ ویل ڈریسڈ ، کلف لگائے کڑک دار تھری پیس سوٹ، ہفتے میں ایک سوٹ ایک بار پہن کر عدالت آتے، وکلاء میں ماڈل اور ماڈلز میں وکیل،ڈریسنگ سٹائل کو پرفیکٹ آرٹ بنایا تھا۔شفاف کردار ، شکل ، لباس و گفتار و کردار میں بالکل ہمارے آج کے بیرسٹر عثمان علیUsman Ali۰ . سطور ہذا کیلئے ذہن پر نقش انکا تصویر ڈھونڈ رہا تھا، نہ ملا۔۔خیال آیا بیرسٹر عثمان کج  تصویر لگائی جائے۔

بنگش آؤٹ اینڈ آؤٹ لیفٹسٹ تھے ۔1948 میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی تشکیل پائی ۔افضل بنگش اس کے رکن رکین بنے۔ اور تا دم آخر اپنے نظریات پر عملی طور کاربند رہے، دائیں بازو والے اس وقت روس و چین کے دو جدا جدا کیمپس میں منقسم تھے۔ بعض کا رجحان ماؤ کی طرف ، تو بعض کا جھکاؤ سٹالن اور اسکے خلاف ، افضل بنگش اپنی فکری اور انٹلکچول اوریجنلٹی کے مطابق دونوں سے آزاد رہے ۔ اپنے عمیق مطالعے  اور مارکسزم کیساتھ اپنے علاقائی اسرار و رموز پر عبور اور اپنے لوگوں کی فطرت و طبیعت سے شناسائی کی بنیاد پر ان کا موقف تھا کہ مارکسزم ہر قوم ، ہر علاقہ اپنی فطرت ، اپنی علاقائی نفسیات اور ثقافتی تقاضوں کے مطابق ایڈپٹ کریں۔ کسی بھی بیرونی طاقت کو اپنی  مقامی سیاست، اپنی قومی جدوجہد پر اثر انداز ہونے کے قطعاً خلاف تھے۔انقلاب کی در آمد برآمد مقامی ذہنیت کے  افلاس کے  مترادف سمجھتے  تھے،چین و روس کے سٹیج  پر ان کو کہتے  کہ آپ اپنے فلسفے اور معاشیات اپنے پاس رکھیں، ہم بنیادی مارکسسٹ اصولوں پر اپنا معاشی فلسفہ تشکیل دینا جانتے ہیں۔ انقلاب ثور کے بعد کابل دور ے پر تھے۔حفیظ اللہ امین نے ملاقات میں پاکستان خلق پارٹی بنانے کا مشورہ دیا ، افضل بنگش بر افروختہ ہوئے، کہا اس طرف کے پشتون عادات و اطوار ، ریت و روایت سب میں افغانستان سے مختلف ہیں۔ ڈیورنڈ کے اس پار زندگی کا فکر و فلسفہ جلال آباد و کابل و قندھار سے مختلف ہے۔ہم اپنی پشتون جنس کے مطابق جدوجہد کریں گے اور روڈ میپ بنائیں گے۔۔

راج کے زمانے میں ڈیورنڈ معاہدہ برطانوی دارالعوام میں زیر بحث آیا۔ناول نگار، ادیب و سیاست دان بنجمن ڈیزرائیلی Benjamin Disraeli نے ہر میجسٹی کی  پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو دنیا کا سائنٹفک بارڈر Scientific Border کہا۔ اس اصطلاح پر تب سے اب تک کافی لے دے ہوئی ،مگر ڈیزرائیلی کی نکتہ رسی اور دور اندیشی کمال کی تھی،ہزاروں میل دور بیٹھ کر اسکا موقف تھا کہ ڈیورنڈ کے دونوں اطراف کے رہنے والوں کے فکری اور سماجی روئے مختلف ہیں۔ دونوں کی زندگی اور کردار کا فلسفہ متفاوت ہے۔ یہی نکتہ افضل بنگش سمجھ گئے تھے، اور یہی نکتہ لر و بر کے چونچلے راتب خور سیاست دان، لکھاری اور سوشل میڈیا کے افلاطون سمجھنے سے معذور ہیں۔

فیلڈ مارشل ایوب خان نے بندوق کے زور سے اقتدار سنبھالا۔ سیاست کی بساط الٹ دی، ایک جہان نو آباد کرنے کی  فکر میں تھا،جس طرح کے Diaries of Field Martial Ayub Khan سے واضح ہے، ایوب نے جوان سیاست دانوں کی ایک Cabinet of Talent کا ارادہ کیا۔ افضل بنگش پہلی شخصیت تھی جن پر ایوب کی نگاہ پڑی، جس کابینہ میں زلفی بھٹو شامل ہوئے اسی کابینہ میں افضل بنگش کو وزارت آفر کی، جواب دیا ایک امر یکی کابینہ میں شامل ہونے پر تختہ دار کو ترجیح دیتا ہوں۔بنگش چاہتا تو بھٹو نواز اور چارسدہ کارپوریشن کی طرح ایک اور ، اور شاید مضبوط تر سیاسی خاندان اس بے بس و لاچار قوم پر مسلط کرتا،آج ان کا کوئی بنگش بیٹا وزیر اعلیٰ وزیر اعظم ہوتا، لیکن مفاد پرستی اور سیاسی سرمایہ کاری ان کی  فطرت میں نہ تھی۔

لیگل جنئیس کی شہرت تھی۔ ایوب نے پینترا بدلا، ہائی کورٹ جج بننے کی پیشکش کی، بین السطور میں کہا کہ حالات سازگار ہیں جلد ہی چیف جسٹس متحدہ پاکستان تک پہنچ جاؤگے،مرد قلندر نے اس بار اور سخت لہجہ اختیار کیا۔ پیغام لانے والے کو کہا “ کیا ایوب خان پھانسی کا بہت شوقین ہے؟”
ہالی ووڈ ماسٹر پیس Mr Smith Goes to Washington میں جب مرکزی کردار تمام کانگریس سے لڑنے لگتا ہے تو ایک فیمیل کریکٹر اس کو مخاطب کرکے کہتی ہے:

Only crazy characters like you are the real heroes.
نجانے کیوں اس جملے کو سنتے ہی مجھ کو افضل بنگش یاد آئے۔۔

یہیں تک بس نہ کی،بلکہ  ایوب خان ارضی اصلاحات Land Reforms آئی، بنگش کھل کے میدان مخالفت میں کھیلے، بندوق اٹھائی ، مسلح جدوجہد شروع کی،شہر شہر ہڑتال ، جلسے ، جلوس سے لیکر گاؤں و دیہات تک شورش برپا کی،فاطمہ جناح ایوب کے خلاف کھڑی ہوئی،بنگش نے سب سے پہلے محترمہ کو ہاتھ دیا،فاطمہ کے این ڈبلیو ایف پی چیپٹر کے مسؤل بنے، ایوب کے گاؤں ریحانہ ہری کو ایوب خلاف ہنگاموں کا مرکز بنایا۔

بنگش دیگر لفٹسٹوں کی  طرح فقط گفتگو و محفل کے قائل نہ تھے، مرد میدان بھی تھے اور جنگجو بھی، قلم کی ضرورت ہوتی تو لکھتے، عمل کی ضرورت ہوتی تو حوصلہ آزما معرکے میں سر ہتھیلی پر رکھتے، چارسدہ و ملاکنڈ کے کھیتوں، گھاٹیوں میں بندوق لے کر  کمر بند لگائے دن رات جدوجہد کرتے،چی گویرا کی ڈائریز اور بنگش کی مزدور کسانوں کی علمی جدوجہد کی داستانیں سن کر بندہ سمجھتا ہے جیسے چی کی روح واپس زندہ ہوکر بنگش میں سرایت کر گئی،نیم درجن اذیت ناک بیماریاں تعاقب میں تھیں،لیکن مشقت طلب جدوجہد سے ایک لمحہ دریغ نہیں کیا۔ ایک رات کا واقعہ ہے سخاکوٹ ملاکنڈ میں کسانوں کی تحریک کی امداد کیلئے جار رہے تھے، حکومتی اہلکار سی آئی ڈی تعاقب میں تھی۔ کھیتوں دشتوں گھاٹیوں کا راستہ لیا تھا،چارسدہ ملاکنڈ سرحد پر ایک جگہ رات کو پیدل سفر جاری تھا،گردے کا شدید درد شروع ہوا ایک بنجر کھیت میں بندوق پر سر رکھ کر لیٹ گئے،شدت سے اپنی زبان دانتوں کے درمیان پکڑی کہ منہ سے آہ نہ نکلے اور ساتھیوں کا حوصلہ متاثر نہ ہو،درد تھم گیا تو فوراً اٹھے ،کپڑوں سے گرد جھاڑی اور محاذ کی راہ لی۔ دلچسپ امر یہ کہ تمام جدوجہد میں قلم و کتاب سے رشتہ بھی برقرار رکھا، مزدور کسان تحریک کے ارگن “ صنوبر “ کی ادارت ان کے  ذمہ تھی۔ایڈیٹوریل لکھتے ، مقالے لکھتے،ساتھ ساتھ مارکسسٹ لٹریچر کی کتب بھی پشتو میں ترجمہ کرتے، اردو ، انگریزی، فارسی، عربی اور پشتو پر یکساں دسترس تھی،شعری انتخاب اور تحریروں میں برمحل شعر لگانے کا ملکہ ایسا تھا جیسے غلام احمد پرویز ۔

جس رعب کے ساتھ قلم و بندوق تھام سکتے تھے وہی رعب اور شان و شوکت عالمی سٹیجز پر برقرار رکھی، لندن امریکہ چیکوسلواکیہ، روس ، پولینڈ جرمنی انڈیا کیوبا کی کانفرنسوں سیمیناروں میں بطور کی نوٹ سپیکر گئے۔ ہرجگہ اپنا لوہا منواکے  آئے،لندن کی ایک کانفرنس میں ممتاز بھٹو اور عطااللہ مینگل کیساتھ شریک تھے، ممتاز بھٹو نے سردار مینگل سے پوچھا پاکستان پر سخنرانی آپ کے  سپرد ہے۔ سردار عطااللہ مینگل نے جواب “ نہیں ہم دونوں کو بری الذمہ کرنے کیلئے افضل بنگش موجود ہیں۔” وقت مقررہ پر افضل بنگش سٹیج پر مدعو ہوئے۔ چار گھنٹے تک بولے، بغیر کسی نوٹ، بغیر کسی پرچی،سامعین میں بیٹھے امریکا و یورپ کے صف اول کے دانشور و ادیب و مبارز ان کے ہر جملے، ہر نکتے کے نوٹس لیتے رہے۔

ایک تحریری میں بنگش کی  جدوجہد اور زندگی کی جہات کا احاطہ ممکن نہیں ۔ایم آر ڈی اور سندھی پشتون بلوچ فرنٹ کی بنیاد و قیام میں انکا کردار ، ضیاء وحشی دور میں ان جہاد ، نوجوان لیڈر بے نظیر بھٹو کی دفاع و حمایت سمیت دیگر درجنوں موضوعات الگ الگ بحث کے متقاضی ہیں۔۔آج صبح واک کے دوران پشتون دنیا میں قحط الرجالی اور ذہنی افلاس اور سیاسی خشک سالی بارے فکری آوارگی شروع ہوئی،خیال افضل بنگش کو کیا۔ایک افسردگی دل و دماغ پر چھاگئی۔ابھی ہمارے فکری و سیاسی و سماجی میدان میں بنگش جیسے نابغے اور جغادری و عبقری موجود تھے، کبھی ہمارے ماضی کی امیدیں ایسی شخصیات پر قائم تھے،آج کیا ہے؟ ایک منحوس خزاں ۔۔

جو بھی ہو محمد افضل خان بنگش دوبارہ اس قوم ، اس دھرتی ، اس خطے کے مقدر اور تاریخ میں کبھی نہیں آئے گی۔ متنبی نے جو کہا تھا کہ

مضت الدھور و ما اتین بمثلہ و لقد اتی فعجزن عن نظرائہ

Advertisements
julia rana solicitors

زمانے گزر گئے اسکی مثال نہ آئی اور جب وہ آیا تو زمانے کی ماں اس کی مثال لانے سے قاصر ہوئی، وہ افضل بنگش ہی کے بارے میں تھا۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply