حلقہ ایک سو بیس اور سیاست چار سو بیس۔ فاروق بلوچ

‎تین مرتبہ وزیراعظم پاکستان رہنے والے نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پہ ضمنی انتخابات ہو چکے ہیں اور نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز ممبر قومی اسمبلی بن گئی ہیں. پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار دوسرے جبکہ ملی مسلم لیگ کے امیدوار تیسرے نمبر پر ہیں. اس ضمنی الیکشن سے حاصل ہونے والے چند سنجیدہ و شعوری نکات پہ غور کرتے ہیں.

‎حلقہ کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 321,633 ہے اور کل بھگتائے گئے ووٹوں کی تعداد کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 42.42 فیصد بنتی ہے. یعنی الیکشن سے قبل ہی 58.58 فیصد ووٹر عوام کو انتخابات میں کسی قسم کی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی. یہ کیا ہے؟ کیا یہ ووٹر اکثریت کی جانب سے پورے الیکشن دھندہ پہ سوالیہ نشان نہیں ہے؟ کیا یہ اس انتخابی عمل پہ عوامی عدم اعتماد کا اظہار نہیں؟ اُس کے بعد جیتنے والی امیدوار نے 61745 ووٹ حاصل کیے جو کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 19 فیصد بنتا ہے، یعنی وہ اپنے حلقہ کے 81 فیصد عوام کی نمائندہ نہیں ہیں. کیا ایک ایسا نظام جو 81 فیصد عوام کی جانب سے ردکردہ فرد کو اُن کا نمائندہ سمجھتا، بناتا اور گردانتا ہے، کیا اُس نظام کی متروکیت کی حوالے سے ابھی ابہام باقی ہیں؟

موجودہ پاکستانی سیٹ اپ کے مقبول ترین پاپولسٹ سیاستدان اور پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے بیانات سے یہ فضا بن چکی تھی کہ یہ ضمنی الیکشن دراصل عدلیہ کے فیصلے اور نواز شریف کی عوامی پذیرائی کے درمیان ہو گا۔ کیا نواز شریف کی نااہلی کو انتخابی نتائج نے غلط ثابت کر دیا ہے؟ کیا حالیہ انتخابی نتائج عدالتی فیصلے کو رد کرتے ہیں؟ کیا عوام سمجھتی ہے کہ نواز شریف ایماندار اور صادق ہے؟ کیا نواز شریف کی اسلام آباد سے لاہور تک کی ریلی کامیاب ہو چکی ہے؟ کیا تحریک انصاف کی امیدوار راشدہ یاسمین کی انتخابی کمپین نظریاتی بنیادوں کی حامل تھی؟

اِن سوالات کا جواب اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دولت اور پاکستانی اقتدار کے باہمی تعلق کو سمجھا نہیں جاتا۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین اور طلبہ سیاست کے خاتمے کے بعد عام آدمی اور معاشی طور پہ غیردولتمند آدمی کے لیے سیاست کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ سیاسی کارکنان کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ نظریات سے عاری نااہل سیاست دان فقط دولت کی بنیاد پہ عہدے حاصل کر رہے ہیں۔ پارٹی ٹکٹ محض منڈی کی ایک جنس بن گئی ہے۔ برادری، پیسہ، دولت اور جاگیر ہی آج پارٹی ٹکٹ کی بنیادی اہلیت ہیں۔ کرکٹ کی لیگوں کے دوران جیسے کھلاڑیوں کی بولی لگتی ہے، آج ہماری سیاست بھی وہی طریقے استعمال کر رہی ہے۔ ایسی غلیظ سیاست کہ خریدار بھی سرمایہ دار ہے اور بکاؤ بھی سرمایہ دار۔ عوام محض تماشائی۔

نواز شریف جونیجو کو ہٹا کر مسلم لیگ کا “مالک” بن گیا، بنیاد بے پناہ دولت کی طاقت تھی۔ نواز شریف اپنے منہ سے کہہ چکا ہے کہ وہ نظریاتی نہیں تھا۔ نواز شریف کی ہمہ قسمی قومی، بین الاقوامی اور جماعتی سیاست کی بنیاد اُس کی دولت ہے۔ نواز اور اسٹیبلشمنٹ کی چپقلش کی بنیاد بھی آخری تجزیے میں دولت ہی ہے۔ نواز کی عدالتی نااہلی کے بعد پارٹی میں اختلافات کی بنیاد بھی سرمایہ ہی ہے۔ نواز اور شہباز کے درمیان تناؤ اور غیر یقینی کی بنیاد بھی دولت ہی ہے۔ نواز اور عوام کا رابطہ کتنا مضبوط ہے؟ کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ نواز عوامی لیڈر نہیں تھا۔

پوری انتخابی مہم میں راشدہ یاسمین نے اپنا برادری کارڈ استعمال کیا۔ کوئی ریڈیکل بیان یا نعرہ نہیں تھا۔ کوئی منشور یا پروگرام پیش نہیں کیا گیا۔ بس گھر گھر جا کر برادری کو بنیاد بنا کر ووٹ کے لیے بےآبرو طریق استعمال کیا گیا۔ انتہائی بھونڈے الیکشن کے لیے  انتہائی واہیات میڈیائی جنگ جاری کی گئی۔ ریٹنگ اور ریٹ کے لیے میڈیا چینل انتخابات کو کیسے کیسے بیہودہ طریقے سے پیش کرتے رہے۔ کسی اخبار کے اداریے، کالم اور الیکٹرانک میڈیا کی کسی ٹاک میں کوئی سنجیدہ اور عوامی بحث دیکھنے کو نہیں ملی۔

مریم نواز اپنی ماں کی مبینہ بیماری کو لے کر ووٹ مانگتی رہی۔ لاہور کی عوام کو پنجابیت کا نام لے کر بلیک میل کرتی رہی۔ یہ کیسی سیاست ہے؟ جیتنے والا بھی انتخابی دھاندلی کے الزام لگا رہا ہے اور ہارنے والا بھی۔ یہ سیاست دراصل معیشت کا پرتو ہے۔ کالے دھن، غیرمنصوبہ بند معیشت، کرپشن اور ٹھیکیدار معیشت کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام دن بہ دن گہرا ہو رہا ہے۔

جماعت اسلامی کتنے ووٹ لے سکی؟ اپنے امیر کو امیرالمومنین بنانے کی خواہشمند اور دن رات اپنے امیر کے قصیدے گانے والی جماعت اپنے امیر کی طرف سے نامزد کردہ امیدوار کو ووٹ نہیں دے رہی۔ کیا جماعت اسلامی کا اخلاقی، تنظیمی اور سیاسی زوال اپنی انتہا کو نہیں پہنچ چکا؟

ملی مسلم لیگ جس پہ لشکر طیبہ سے نکلنے والی جماعت الدعوۃ کے سربراہ مشہور مبینہ دہشت گرد حافظ سعید کا ہاتھ ہے کا امیدوار تیسرے نمبر پہ آیا ہے۔ ایک انتہاپسند جماعت کا امیدوار زیربحث ہے، کیا سماجی رویہ سیاسی ہے یا عدم برداشت پہ مبنی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

اس انتخابی عمل کے دوران سیاسی کھوکھلا پن کھل کر سامنے آیا ہے۔ ضرورت ہے تو عوامی پارٹی کی ہے جو محنت کش عوام کی حقیقی نمائندہ ہو، اور محنت کش عوام کے حالات میں تبدیلی کا مربوط منشور لے کر میدان میں اترے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply