عمران کی تبدیلی؟۔۔روبینہ فیصل

میں نے چند سال قبل، جم جوائن کیاتوجاتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ، جو سب سے سخت قسم کی kick and box کی کلاس جو کہ ایک انتہائی سخت قسم کی کالی خاتون کرواتی تھی اورجس کی شکل دیکھ کر ہی پسینے چھوٹ جا تے تھے، شروع کر دی۔چھوٹا بیٹا ابھی تین مہینے کا ہی تھا کچھ دوستوں نے مشورہ دیا، بچہ اتنا چھوٹا ہو تو ایسی سخت فوجیوں جیسی مشقیں جسم کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہیں  ، میں نے خود سے کہا، ایسی کی تیسی۔۔جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن کرنی ہے تو یہی ورنہ کچھ بھی نہیں۔ میری سستی اور چستی، دونوں ہی ناقابل ِ فہم ہیں۔ پڑی رہوں تو دنوں کاؤچ پر پڑی رہوں، اٹھوں تو نان سٹاپ بھاگی دوڑی پھروں۔کرناہے تو پھر ٹھیک سے تگڑا سا، پہلوان مردوں والا ورک آؤٹ، ورنہ کچھ بھی نہیں۔ ہو گا کو ئی نفسیاتی disorder۔ سانوں کیہہ۔۔؟

آج تک یہی صورت حال قائم ہے۔ جم ہو یا عملی زندگی کا کوئی اور اکھاڑا بہت سی آندھیاں اور طوفان آئے، مگر میں نے نہ بدلنا تھا نہ بدلی۔۔۔۔وہی طوفانوں کو دعوت دیتی لاپرواہی، اورایسی لاپرواہیوں کے نتیجے میں بر سنے والے طوفان۔۔ اور وہی کسی بھی بھیانک انجام سے نہ سیکھنے والی بے وقوف فطرت۔
لیکن عمران خان کو اور اس کی پریشانیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ صرف میں ہی ایسی نہیں ہوں، سارے انا پرست  ا ور خود پر ست لوگ ایسے ہی ہو تے ہوں گے،زندگی کی کتاب سے کچھ نہ سیکھنے والے  اور جو لوگ سیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، وہ شاید  اقلیت میں ہیں اور وہی کامیاب لو گ ہو تے ہیں۔اور کامیاب لوگوں کی تعریف بھی یہی ہو تی ہے۔

کسی گمنام سیانے نے کہا تھا،(ایسی باتیں کر نے والے اکثر گمنام ہی مارے جاتے ہیں اور بعد میں کوئی بھی سیانا اپنے نام سے ان کی باتیں منسوب کر کے دانشور مشہور ہو جاتا ہے)بات صرف رویے کی ہے۔ اوپر والے پیرے میں بیان کئے گئے رویے گمنام اور بن موت مارے جاتے ہیں۔ بہرحال بات ہو رہی تھی اس سیانے کی جس کا نام مجھے معلوم نہیں مگر بات معلوم ہے اور وہ یہ ہے کہ:
“جب میں جوان تھا تو دنیا کو تبدیل کر نا چاہتا تھا، لیکن جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے تو سوچا چلو اپنی قوم کو ہی ٹھیک کر دوں، مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے تو سوچا، چلو اپنے ٹاؤن کو ٹھیک کر دوں، وہ بھی ناممکن لگا تو بات اپنے گھر کو ٹھیک کر نے پر آکر رک گئی۔گھر والوں کو ٹھیک کر نے میں لگ گیا، مگر یہ کیا؟ جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ بھی میرے بس میں نہیں، اس سب تبدیلی کی جد و جہد میں میری عمر بیت گئی اور میں دنیا میں کو ئی بھی تبدیلی لائے بغیر بوڑھا ہو گیا۔ ایک دن اسی رائیگانی پر ماتم کر رہا تھا کہ یکا یک ایک بجلی سی میرے دماغ میں کو ندی کہ کیوں نہ خود کو تبدیل کر کے دیکھوں۔۔ جب بڑھاپے میں یہ عقل آئی اور حساب کتاب لگا یا تو سوچا، اُس جوانی میں جب مجھے دنیا کو تبدیل کر نے کاخیال آیا تھا، اور جو ش بھی عروج پر تھا، کاش اس وقت میں یہ کام کر لیتا جو میں آج بڑھاپے میں کر رہا ہوں تو اتنے طویل عرصے میں، میری تبدیلی، میرے گھر، قصبے، قوم اور پو ری دنیا پر اپنا اثر چھوڑ چکی ہو تی۔”

اگر ہم غور کر یں تو ہم اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ دوسروں کو تبدیل کر نے کی فکر میں گذار دیتے ہیں۔ اور باقی کا حصہ اپنی ناکامیوں کا الزام کبھی حالات کو اور کبھی دوسروں کے رویوں پر رکھتے ہیں۔میں نے بذات خود، جب خود کو تبدیل کر نے کاارادہ کیا تو لگا یہ تو دنیا کا مشکل ترین کام ہے اورتب سمجھ آئی کہ کیوں لوگ خود کو تبدیل کر نے کی بجائے دنیا کو تبدیل کر نے پر زیادہ دھیان اور وقت صرف کر تے ہیں۔ اور پھر خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔

آغاز میں، میں بات کر رہی تھی، جم جوائن کر نے کی اورشروع سے ہی اپنے خطرناک قسم کے ورک آؤٹ کی،مجھے آج بھی یاد ہے لوگوں کے حوصلہ شکن ڈراوے اور ایک اچھلتا ہوا،کان چیرتا فقرہ ۔۔۔۔ میں لائن میں سب سے آگے لگی کالی انسٹرکٹر سے انسپائر ہو کر اپنی ایک جانباز انڈین دوست کے ساتھ سر دھڑ کی بازی لگائے ورک آوٹ میں مصروف تھی کہ، پیچھے سے ایک اردو /ہندی میں وہ فقرہ لہراتا ہوا ہم تک پہنچا: “ان کے بچے چھوٹے ہیں اس لئے ان میں اتنی جان ہے  (ہمیں یہ مطلب سمجھ آیا کہ ہم جوان اور وہ ذرا کم جوان ہیں اس لئے) پانی پیتے کن اکھیوں سے انہیں مڑ کر دیکھا تو وہ بھاری بھرکم خواتین ورک آؤٹ کے نام پر جسم کو کچھ ہلکا پھلکا حرکت دینے میں مصروف نظر آئیں، یہ اور بات ہے کہ ہاتھ ٹانگوں سے زیادہ ان کی زبان چل رہی تھی۔ ہم نے جان بوجھ کر کلاس کے بعد فرینڈلی ہلیو ہائے کی،تاکہ ان کے دل سے اپنے لئے پیدا ہو نے والا حسد کم کر وا کے دوستی کا جذبہ پیدا کر دیں، باتوں باتوں میں عمر کی بات ہو ئی تو پتہ چلا کہ وہ عمر میں ہم دونوں سے چھوٹی یا برابر ہی ہیں ۔ مگر توانائی میں شاید  اس سے بھی چھوٹی جسے وہ بڑھانے کی بجائے، ہماری بڑھی ہو ئی توانائی کو، ہماری کم عمری کا راز سمجھ کر خود کو کچھ نہ کر نے، یا تھوڑا بہت کر نے سے،بہلا رہی تھیں۔

آج اتنے سالوں بعد یہ بات مجھے کیوں یاد آئی، کیوں کہ آج بھی میں نے جم میں اسی طرح کا ایک ملتا جلتا فقرہ سنا۔ میں اور میری دوست اسی طرح ورک آوٹ میں مصروف تھیں،پاس سے گذرتیں دو بھاری بھرکم لڑکیوں میں سے ایک دھیرے سے دوسری کو تسلی دیتے ہو ئے بولی۔۔”ان کے بچے بڑے ہیں “۔۔یعنی ہماری محنت اور اپنی سستی کو یہ کہہ کر ٹال رہی تھیں کہ اس میں ان کا کوئی کمال نہیں بلکہ ان کے بچوں کا ہے جو بڑے ہو چکے ہیں۔جیسے اسی جم میں بہت سال پہلے ہماری توانائی کا، بڑی عمر والیوں کے پاس یہ جواز تھا کہ ان کے بچے چھوٹے ہیں۔

چونکہ، سالہا سال سے میرے قارئین ہی میرے سب سے اچھے دوست رہے ہیں،اس لئے یہ شئیر کیا اور سوچا آپ لوگوں سے ہی پوچھوں کہ ہم دوسرے کی کامیابی دیکھ کر خود کی ناکامی کو کسی اچھے سے ‘بہانے “میں کیوں ملفوف کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اپنی کامیابی کا کریڈٹ تو خود لیتے ہیں مگرناکامی کا ڈیبٹ کیوں دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کر تے ہیں؟ ہم سب دوسروں کو تبدیل کر نے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، خود کو کیوں نہیں؟

ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ کا تو پیغام یہی تھا، کہ” جو بات خود کر تے ہو،اس سے دوسرے کو کیسے روکو گے؟ یا جو خود نہیں کرتے اسے دوسروں کو کر نے کو کیسے کہو گے”؟ ۔زندگی کو جتنا سادہ اور جھوٹ سے پاک رکھیں گے اتنا ہی زیادہ سکون ملتا ہے۔ چھوٹی سی بات ہے لیکن سمجھتے سمجھتے جسم کو بیماریوں کا گھر بنا لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں سکون کیوں نہیں ہے؟ آج جس سکون کی بات میں آپ لوگوں کو بتا رہی ہوں، اس کی طرف میں نے خود پہلا قدم اٹھایا ہے۔کدال پکڑ کر اپنے جسم کو کھود رہی ہوں، جھوٹ اور دھوکے کے کیڑوں کو مار رہی ہوں۔ ایک دفعہ میں نے اپنی روح صاف کر لی تو سمجھو اس گھر کو بھی صاف کر سکتی ہوں جہاں میرے بچے رہتے ہیں، پھر اس قصبے کو، اپنی قوم کو اور دنیا کو۔۔۔ مگر آغاز میری اپنی روح کی صفائی سے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی وعدہ ہمارے سیاست دانوں کو (جنہیں زیادہ تر لوگ اپنا لیڈر مانتے ہیں،اور ان کی خاطر ایک دوسرے کو گالی دیتے اور جان لیتے ہیں) کر نا ہو گا۔تبدیلی عمران نے لانی ہے یا نواز نے۔۔چھپ چھپ کر شادیاں کر نا ہو یا چھپ چھپ کر ملک کا مال ہڑ پ کر نا۔پہلے آپ کو خود کو تبدیل کرنا ہو گا۔ آپ کی روح پاکیزہ ہو گی تو ملک میں پاکیزگی اور بر کت آئے گی۔ ورنہ آسیب کا سایہ یو نہی انسانی جانوں کو نگلتا رہے گا۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply