غیب کا علم اور جدید ٹیکنالوجی۔۔۔علی خان

انسان ہمیشہ سے مستقبل کے حالات اور رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں معلومات کا متلاشی رہا ہے۔ غیب کے علم کا تذکرہ آپ کو قرآن میں ملتا ہے اور مسلمانوں میں اس موضوع پر کافی اختلاف بھی موجود ہے۔ قرآن میں سورہ بقرہ کی ابتداء میں متقین یعنی پرہیزگار لوگوں کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی گئی :
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ. البقرہ، 2 : 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے  ہیں۔۔”
وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لائیں۔ غیب اس پوشیدہ حقیقت کو کہا جاتا ہے جو نہ حواسِ خمسہ سے معلوم ہو نہ عقل سے معلوم ہو۔ اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہے۔ ایمان تصدیق کو کہا جاتا ہے۔ تصدیق علم کے بغیر نہیں ہو سکتی تو غیب پر ایمان کا مطلب ہوا غیب کی تصدیق مثلا ً اﷲ کی ذات و صفات، ملائکہ، انبیاء، قبر، حشر، قیامت، جنت اور جہنم کی تفضیلات وغیرہ وہ حقائق ہیں جو نہ حواس سے معلوم ہیں نہ عقل سے۔ ہر مسلمان صرف نبی کے بتانے سے ان پر ایمان لاتا ہے ہے

قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں علم غیب کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی، کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ گرتے کو تنکے کا سہارا اور وہ ان لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پرامید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئے قرآن کریم میں فرمایا :
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَیْبَ اِلاَّ اﷲُ ط )النمل، 27 : 65(
’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے۔ ‘‘

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پہلے انبیاء کرام بھی غیب کی باتیں بتاتے تھے
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
)الجن، 72 : 26۔ 27(
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ، تو بے شک وہ ان (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔

ان تمام حوالاجات سے غیب کے علم کا موجود ہونا اور اس کی رسائی تک اللہ کے چنئے ہوئے برگزیدہ بندوں کے لئے ثابت ہوتا ہے۔

آج کے دور میں موجودہ جدید ٹیکنالوجی جہاں سیٹلائیٹ ، سپر کمپیوٹر اور اب انسان کوانٹم کمپیوٹر کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہم مستقبل کے ہونے والے موسمی حالات، غذائی قلت، طوفان اور سیاروں اور ستاروں کی منزلوں کا حال معلوم کرتے ہیں۔ اور اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور بگ ڈیٹا انیلیسز سے مستقبل کے واقعات کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اور اب تومشین لرننگ اور آگمینٹڈ رئیلئٹی کے اشتراک سے آپ چیزوں کو جو کہ موجود ہی نہ ہوں بلکل اصل کی طرح دیکھا سکتے ہیں اور اب یہ سب ایک عام انسان کی رسائی میں بھی ہے۔

آج کے سمارٹ فون میں موجود میپ آپ کو اپنی مطلوبہ منزل کا آسان ترین رستہ اور ٹریفک کی معلومات بھی دیتا ہے اور آپ کو مستقبل میں اپنی منزل پر پہنچنے کا بالکل صحیح وقت بھی بتاتا ہے۔ اسی سمارٹ فون میں آپ کو موسم کا متوقع حال بھی معلوم ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب غیب کے علم کے  زمرے میں آتا ہے؟ اور اگر آتا ہے تو کیا انسان نے غیب کے علم تک دسترس حاصل کر لی ہے اور یہ علم ہماری کتنی پہنچ میں ہے؟

Facebook Comments

Ali Khan
ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار ۔۔ حستجو جو کرے وہ چھوئے آسمان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply