مثل برگ آوارہ/میری عارضی موت اور سفر یورپ -10/ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں نے جو دیکھا تھا، اس کا جب میں نے تذکرہ کرنا شروع کیا تو یہ کہہ کر آغاز کیا کرتا تھا کہ “جب میری آنکھ کھلی” ۔ ۔ ۔ میں کبھی نہیں کہتا تھا کہ جب مجھے ہوش آیا ۔ ۔ ۔کیونکہ یا تو مجھے یاد نہیں رہا تھا یا پھر تھا ہی ایسے کہ میں نے خود کو زمین سے اٹھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ مجھے ایسے لگا تھا جیسے میں بس کھڑا تھا پھر میں نے دیکھا کہ میرے ناک ، کان، سر سے خون کی دھاریں چھوٹ رہی تھیں۔ شکر کی بات یہ تھی کہ میں نے سر پر اوڑھی ہوئی ٹوپی کے اوپر موٹی تہہ کی جیکٹ کا “ہوڈ” بھی اوڑھا ہوا تھا، ورنہ جس شدت کی ضرب لگی تھی اس سے میری کھوپڑی پاش پاش ہو سکتی تھی۔ درست ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ قوی ہوتا ہے۔

تب میری والدہ کا انتقال ہوئے اڑھائی ماہ بیتے تھے۔ اپنی فوتیدگی کے وقت ان کی عمر 85 برس تھی۔ میں نے جس حالت میں اپنی مری ماں کو زندہ دیکھا تھا یوں کہ ان کی عمر اتنی ہو جب میں لڑکا ہوا کرتا تھا یعنی کوئی پینتیس چالیس سال کی عمر لگی تھی مجھے ان کی۔ وہ اس عمر میں خاص طرح کے کپڑے پہنا کرتی تھیں، سفید چکن کی قمیص، سفید ساٹن کی شلوار اور سفید شیفون کا دوپٹہ۔ میں نے دیکھا تھا جیسے میری والدہ مضطرب تھیں، انہوں نے میری دونوں بغلوں میں اپنے ہاتھ ڈال کر مجھے گرنے سے روکا تھا اور کچھ کہا تھا۔ میں ان کی آ واز تو نہیں سُن پایا تھا لیکن ان کے ہونٹوں کی جنبش سے مجھے ان کی کہی بات سمجھ آ گئی تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں،” اٹھو بیٹا، ابھی تمہارا وقت نہیں آیا” پھر میری جیسے آنکھ کھل گئی تھی۔ میں نے اپنی خونریزی کو دونوں ہتھیلیوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے گھر کی جانب چلنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے صحت مند ہونے کے بعد اس مقام سے جہاں اس پر حملہ ہوا تھا اپنے گھر تک قدم ناپے تھے جو چار سو انتالیس قدم بنتے تھے۔

ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد مجھے مسلسل یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے میری والدہ ہر جگہ میرے سر پر سایہ فگن ہوں، بالکل کسی بادل کی مانند مگر ظاہر ہے غیر مرئی۔ میں نے بالآخر جن چند لوگوں کو اس بارے میں بتایا تھا، ان میں سے بیشتر نے یہی کہا تھا کہ یہ تمہارا گمان رہا ہوگا مگر مجھے اپنے بچ جانے سے یقین ہو گیا تھا کہ ارواح ہوتی ہیں، اگر ارواح ہوتی ہیں تو عالم برزخ بھی ہوگا، عالم برزخ ہے تو روز قیامت یعنی جزا و سزا کا دن بھی ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ میری ماہیت قلبی ہو گئی تھی۔ میرے خیالات میں ایک طرح کا مدوجزر تھا، تشکیک کی لہریں بلند ہوتیں اور ٹوٹتی رہتی تھیں۔ میں نہ مذہب کی جانب مائل ہوا تھا نہ ہی میں نے شراب پینا چھوڑی تھی بلکہ میں نے ہسپتال سے لوٹنے کے چند روز میں یولیا اور آلسو دونوں ہی سے تمتع کیا تھا مگر مجھے یہی لگا تھا کہ چہرے کے عضلات کے ساتھ شاید میرے کچھ دوسرے اعصاب بھی متاثر ہوئے تھے۔ ایسے جیسے اس انسانی عمل کی لذت میں کچھ گڑبڑ ہو گئی تھی۔ ایسا فی لواقعی تھا کیونکہ دوچار ماہ کے بعد میرا چہرہ بھی بہت حد تک معمول کے مطابق ہو گیا تھا اور حظ و تلذذ بھی لوٹ آئے تھے۔ میں نے اپنی ماں کے دکھائی دینے اور زندہ رہنے کی نوید دینے سے متعلق جن کو بتایا تھا وہ شاید اس بارے میں بھول چکے تھے لیکن مجھے ٹوہ لگی ہوئی تھی کہ یہ کیا مظہر تھا؟ میں نے سر کی چوٹ سے متعلق طبی کتابیں چاٹ لی تھیں جن سے ایک ہی نتیجہ اخذ ہوا تھا کہ سر کی چوٹ کے بعد بعض لوگ روحانیات کی جانب مائل ہو جاتے ہیں لیکن میرا تصوف کی جانب کوئی میلان نہیں ہوا تھا۔

میں نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا تھا کہ ایک امریکی “ماورائے نفسیات” کا کورس کروا رہا تھا۔ میں نے “پیرا سائیکولوجی” کے اس کورس میں داخلہ لے لیا تھا۔ میرے پاس اس امریکی جس کا نام میتھیو گرین تھا، کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں تھے۔ میں نے اسے راضی کر لیا تھا کہ وہ فیس کے بدلے مجھ سے دو پینٹنگز لے لے جن کی مجموعی قیمت اس کی فیس سے کم از کم دو گنا زیادہ تھی۔

اس کے گروپ میں چند روسی اور زیادہ امریکی شامل تھے جو سبھی اعلیٰ  تعلیم یافتہ تھے۔ نوجوان اور ذہین میتھیو گرین اپنے کمپیوٹر پر خود مرتب کردہ کتب ہمیں مہیا کرتا تھا اور بڑے سائنسی طریقے سے پڑھاتا تھا۔ کورس تمام کرنے کے بعد مجھے لگا تھا کہ پیرا سائیکولوجی بھی آدھا سچ ہے۔ پھر میں نے کونیات کا وسیع تر مطالعہ کیا تھا۔ کائنات کی پہنائیوں نے مجھے متحیر کر دیا تھا۔ میں نے جینیات کے مطالعے پر توجہ دی تھی۔ مجھے انسانوں کا مقدر جینیات میں درج ملا تھا لیکن ایک خلاء تھا جو پورا نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس اضطراب کو دور کرنے کی خاطر میں بعض اوقات شراب کے نشے میں مخمور ہونے کے باوجود شعوری لاشعوری طور پر سبحان اللہ، الحمدللہ و اللہ اکبر پڑھ لیتا تھا اور بس۔ اس سے بھی میرا اضطراب دور نہیں ہوتا تھا۔ میں نے شراب پینا کم کر دی تھی۔ مسکن ادویات کا استعمال ممکن نہیں تھا کیونکہ روس میں ملتی نہیں صرف نفسیاتی مریضوں کو ہفتہ وار بنیاد پر مہیا ہوتی ہیں جسے ڈاکٹر جب مناسب سمجھیں منقطع کر دیتے ہیں۔

میں چند روز کے لیے سڑک کے راستے مغربی یورپ کےکچھ ملکوں کی سیر کرنے نکلا تھا۔ ظفر ان اسفار میں میرے ہمراہ تھا۔ مجھے لگا تھا اگر روس پاکستان سے بہتر تھا تو یورپ روس سے کہیں بہتر۔ جب گاڑی پولینڈ سے جرمنی میں داخل ہوئی تھی تو سڑک اتنی ہموار ثابت ہوئی تھی کہ کافی یا چائے کا کپ چلتی گاڑی میں چھلک نہ پائے۔ مجھے جرمنی میں پاکستانی نوجوانوں کو کوڑے کے تھیلے اٹھا کر ٹرک میں ڈالتے دیکھ کر دکھ ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی تھی کہ ایمسٹرڈیم میں کیفے بار والے نے چرس سے بھرے دو سگریٹ ہمیں بیچے تھے، جب ہم نے جھجھکتے ہوئے کہا تھا کہ کہاں بیٹھ کر پئیں تو اس نے لا پرواہی سے کہا تھا جہاں جی کرے، بار کے اندر یا باہر بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر۔

دن کے بارہ بجے تھے، میں اور ظفر سڑک کے کنارے بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر چرس بھرا “جوائنٹ” پی رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک یورپی جوان شخص بیٹھا شغل کر رہا تھا۔ اس نے پوچھا تھا: کہاں سے آئے ہو؟ میں نے بتایا تھا: روس سے۔ اس نے پوچھا تھا: کب تک قیام ہوگا؟ میں نے کہا تھا: رات کو پیرس کے لیے روانہ ہونا ہے۔ کس ذریعے سے؟ اس نے پوچھا تھا۔ ہم ٹور بس پر ہیں، میں نے بتایا تھا۔ یہ جوان شخص برطانیہ سے تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ ہر ہفتے “حیش” پینے کی خاطر ایمسٹرڈیم پہنچتا تھا۔ اس نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ “حیش کوکیز” لے لو، جسے کھا کر تم لوگ بس میں بیٹھے ہو گے مگر “پرواز” کروگے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی تھی۔

ہم نے کشتی میں بیٹھ کر نہروں کی سیر کرتے ہوئے، ہینیکن بئیر کے کئی کئی کین چڑھا لیے تھے۔ جب دو اڑھائی بجے کے نزدیک میرا دیرینہ دوست شمعون سلیم، جو ہالینڈ کے دارالحکومت کے نواحی قصبے میں رہتا تھا، مجھ سے ملنے پہنچا تھا اور ہمیں کھانا کھلانے ایک ہندوستانی ریستوران میں لے گیا تھا تو میں اتنا “ٹن” تھا کہ ڈھنگ کی کوئی بات نہ ہو سکی تھی۔ البتہ کھانا کھانے کے بعد نشہ ڈھیلا پڑا تھا۔ میں ، شمعون اور ظفر، ٹور کے ساتھی مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایمسٹر ڈیم کا “ریڈ لائٹ ایریا” دیکھنے چلے گئے تھے، اس جگہ کو دیکھنے کی خاطر عورتوں کے علاوہ سیاحت کی غرض سے ماں باپ کے ساتھ آئے ہوئے نوعمر بچے بھی موجود تھے۔ یہاں کسبیاں اپنے کوٹھوں کو آفس کہتی ہیں۔ کام کے اوقات کار مقرر ہیں اور عمر ڈھلنے کے بعد انہیں باقاعدہ پنشن ملتی ہے۔ پیشہ ور عورتوں کا باقاعدگی کے ساتھ طبی معائنہ ہوتا ہے۔ دلال یہاں بھی ہیں لیکن وہ غنڈے نہیں بلکہ دفتروں کے دربان ہیں۔ بتایا گیا کہ ان خواتین میں امریکہ کی یونیورسٹیوں کی کچھ طالبات بھی تھیں جو اپنی تعلیم کے اخراجات اکٹھے کرنے آئی تھیں اور کچھ وقت “کام” کرنے کے بعد امریکہ میں اپنی یونیورسٹیوں میں لوٹ جائیں گی کیونکہ یہاں ان کی کمائی امریکہ کے پانچ ساڑھے پانچ ہزار ڈالر کے مساوی ہوتی تھی۔ طغرل نے کہا تھا، “مجھے یہ سب غیر انسانی اور مشینی لگتا ہے” شمعون نے کہا تھا، “اس میں کیا غیر انسانی ہے، ایک کا کام ہے اور دوسرے کی ضرورت، جس کا کام ہے وہ معاوضہ لے کر دوسرے کی ضرورت پوری کر دیتا ہے”۔ مجھے اپنے اس انسان دوست یار کی بات کچھ عجیب لگی تھی۔

ہم جب وہاں سے لوٹے تھے تو قریباً  دس بجے تھے، بس کو رات کے بارہ بجے پیرس کے لیے روانہ ہونا تھا۔ کھانا تو ویسے ہی وہ پیٹ بھر کر کھا چکے تھے۔ میں اورظفر ایمسٹر ڈیم کی بڑی نہر کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگے تھے۔ ظفر کو یاد آیا تھا کہ ایک بھرا ہوا سگریٹ اب بھی اس کی جیب میں محفوظ تھا۔ وہ پینے کو تھے کہ مجھے سامنے سے دو پولیس والے آتے دکھائی دیے تھے۔ میں نے گھبرا کر کہا تھا، “ظفر دھیان کرو، پولیس والے آ رہے ہیں” ظفر بھی ٹھٹھکا تھا، پھر اس نے بے اختیار کہا تھا،” ڈاکٹر صاحب یہاں چرس پینا قانونی ہے” اور ہم دونوں کے قہقہے چھوٹ گئے تھے۔ ہم کش لینے لگے تھے، اتنے میں پولیس والے نزدیک سے گذرے تھے۔ ان دونوں نے ہم دونوں کو خوش دیکھ کر ماتھے تک ہاتھ اٹھا کر سلیوٹ کیا تھا اور مسکرائے تھے۔ کیا آزادی تھی، سبحان اللہ!

اس سے پہلے کی رات ہمیں بلجیم کے شہر اینٹ ورپ جسے وہاں اینٹ ورپن کہتے ہیں، کے ایک ہوٹل میں بسر کرنی پڑی تھی۔ ہم ٹیلیفون کرنے کے لیے رات کے ساڑھے دس بجے کے قریب ہوٹل سے نکل گئے تھے۔ ایک مقامی سفید فام سے پبلک کال آفس کے بارے میں پوچھا تھا۔ اسے شاید انگریزی زبان نہیں آتی تھی،مگر ہاتھ کان پر رکھ کے کیا جانے والا ٹیلیفون کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ اس نے اشارے سے راستہ دکھا دیا تھا مگر ساتھ ہی انگوٹھے سے گردن کاٹنے کا اشارہ کرکے پتہ نہیں کیا بتانا چاہا تھا کہ راستے میں غنڈے ہیں یا پی سی او والے زیادہ پیسہ لے کر ہلاک کرتے ہیں۔ پی سی او جو ملا وہ پاکستانی نوجوانوں کا تھا جنہوں نے بہت اصرار کے بعد فون کرنے کے پیسے لیے تھے۔

میں نے اظفر سے کہا تھا کہ بلجیم کی بئیر بہت مشہور ہے، پینی چاہیے۔ ایک انگریزی بولنے والا مقامی نوجوان مل گیا تھا۔ اس نے قریب ہی اینٹ ورپن کی بیسٹ بیئر بار کا راستہ دکھایا تھا۔ وہاں ایک گنجا، سنجیدہ، معنک شخص تھا جو بیئر لینے کے لیے صبر کرواتا تھا۔ پہلے شیشے کے گلاسوں کو ٹھنڈے برف پانی کی ٹونٹی کے نیچے تین سے چار منٹ تک رکھتا تھا، بار بار ان میں بھرا گیا پانی الٹاتا تھا۔ ایسے کوئی آٹھ گلاس اس نے رکھے ہوئے تھے۔ جو گلاس اس کے مطابق ٹھنڈا ہوتا اس میں بیئر انڈیل کر دے دیتا تھا۔ بیئر انڈیلنے کے ساتھ ہی گلاس کی سطح پر نمی سے بوندیں ابھرنے لگتی تھیں۔ ایک گاہک نے جلدی کرنے کا اشارہ کیا تھا تو اس خاموش طبع آب جو فروش نے اسے ہاتھ سے راستہ ناپنے کو کہا تھا۔ میں اور ظفر چپ کھڑے باری کا انتظار کرتے رہے تھے۔ بیئر کا ویسا ذائقہ اور لطف نہ کبھی پہلے مجھے آیا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد جب تک جب میں نے پینا یکسر ترک نہیں کر دی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply