فیمینزم کیا ہے؟۔۔گُل بانو

فیمینزم ، ایک ایسا منظم عمل ہے جو خواتین کے معاشرتی , معاشی اور سیاسی حقوق میں برابری کے اختیارات کے لئے کیا جائے ۔یہ مرد مخالف تحریک نہیں ہے ۔ بلکہ اپنے حق میں آواز بلند کرنے کا نام ہے

فیمینزم یا نسائیت کی ترکیب آج کے دور میں مزید ابھر کر سامنے آنے کی کئی وجوہات ہیں ۔جب سے عورت کو یہ ادراک ہوا کہ وہ دنیا کی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ اور یہ کہ ان کی مکمل اور بے ساختہ شرکت کے بغیر حقیقی معاشرتی ترقی کبھی حاصل نہیں کی جاسکے گی،اور یہ کہ ثقافت میں ان کا بڑا کردار ہے ۔اور وہ اس ثقافتی منظر نامے میں اپنے آپ کومردوں سے آگے پاتی ہیں ۔

آئیے چلتے ہیں ماضیِ بعید کی طرف ۔ آپ کو جان کر شاید حیرت ہو کہ ہزاروں سال قبل مادرسری نظام رائج ہوا کرتا تھا۔ اگر قدیم مصری سماج کا جائزہ لیں تو یہاں مصر کی دیوی ہاتھورHathor ایک طرف زرخیزی ، آبادی، خوشحالی اور زندگی کی علامت تھی۔تو دوسری طرف دہشت کی بھی، یعنی تباہی اور بربادی کی۔

اُس دور میں سلسلہ نسب مرد کی بجائے عورت سے چلتا تھا۔ عورت نے آگ محفوظ کی، خوراک کی حفاظت اور اس کی تقسیم، قدیم برتن سازی، جانوروں کو پالتو بنانا اور انھیں سنبھالنا عورت ہی کے کام تھے۔ عورت اپنے قبیلے یا ٹولے کی باقاعدہ سربراہ ہوتی تھی۔ وہ فیصلے کرتی، تصفیے کرتی اور راضی نامے کرتی تھی۔ جب کسی جوڑے کی باقاعدہ شادی ہوتی تو مرد کو رخصت ہونا پڑتا تھا۔ قدیم انسانی معاشرے میں عورت کی آزادی اور بالادستی کے نظام کو مادر سری نظام کہا جاتا ہے۔

مادر سری نظام میں اُس وقت دراڑ پڑنی شروع ہوئی جب مرد نے ذرائع پیداوار پر بالادستی حاصل کرنا شروع کی۔ شکار کے آلات اور زراعت کےلیے جدید آلات بنائے اور انھیں خود استعمال کرنے لگامال ودولت جمع ہوئی تو اس عمل سے عورت کی حیثیت گھٹ کر ثانوی ہوتی چلی گئی۔

اسی دوران یک زوجگی کا رواج عام ہوا جس کی اچھائیاں سامنے آئیں اورحاصل شدہ دولت کی وراثت کے لئے وارث کے حصول کی خاطر ایک خاندان کی بنیاد پڑی ۔لیکن زمین و پیداواری آلات کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی ذاتی ملکیت سمجھاجانے لگااور مرد عورت کا بھی وارث و مالک قرار پایا۔

‏مادرسری نظام کے دوران لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ آج سے پانچ چھ ہزار سال قبل تشبیہات اور الفاظ کی صورت لکھنے پڑھنے کارواج عام ہوا اور تحریری تاریخ کی شروعات ہوئی تو اس وقت تک انسانی سماج پر مکمل طور پر مرد کی بالا دستی ہوچکی تھی۔اور پدر سری معاشرہ پروان چڑھ چکا تھا۔ غلام داری سماج کے بعد جاگیردانہ سماج میں جب ذرائع پیداوار سکڑ کرمحض جاگیردار طبقے کے ہاتھ میں آئے تب عورت کی انسانی حیثیت کومکمل طور پر مسخ کردیا گیا۔

‏تقریباً تمام قدیمی سماج میں جب سلطنتیں آپسی جنگ میں غالب و مغلوب ہوتیں تو اس دوران بھی انتقام لینے اوراپنی طاقت وبالادستی ثابت کرنے کے لئے مرد سب سے پہلے عورت کو نشانہ بناتے۔مردوں کو لشکر میں وسعت دینے کی خاطر لشکر میں شامل کرلیا جاتا تو عورت کو مال غنیمت سمجھ کر ملکیت بنالیا جاتااور غلام اور باندی بنا کراستحصال کیا جاتا۔

‏عورت قدیم پدرشاہی سماج سے لے کر اب تک مرد سے کم تر محض ایک بولنے اور بچہ جننے والی مادہ جانور کے طور پر سمجھی گئی۔جس نے عورت کی نفسیات کو شدید متاثر کیا ۔ اسی بنا پر عورت خود کو ملکیت ، غلام اور کم تر سمجھنے لگی۔ جو عورت ذراسی ہمت کرکے اپنی عقل کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی تو اسے بالادست مرد ،عیار، مکار،سازشی اور دھوکے باز قرار دے کر اپنے ظلم کو مزید بڑھاتا۔ یہ سلسلہ اب بھی جوں کا توں جاری وساری ہے۔

‏یونان کا عظیم مفکر ارسطو بھی اسی مغالطے کا شکار تھااس کا کہنا تھا عورت ،مرد کے مقابلے میں ذہنی اور جسمانی طور پر کم تر ہے۔

‏جبکہ سقراط کا کہنا تھا عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی کوئی اور چیز نہیں ۔میں نے جس بھی مسئلے پر غورو فکر کیا اس کی گہرائیوں تک آسانی سے پہنچ گیا۔ لیکن آج تک عورت کی فطرت کو نہیں سمجھ سکا۔

افلاطون کی بھی سنیے
‏” سانپ کے ڈسے کا علاج تو موجود ہے مگر عورت کے شر کا علاج ممکن نہیں ”

‏قدیم یونان میں عورتوں کی زبوں حالی کا اندازہ اس سے کیجیے کہ
‏انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح سر عام بولیاں لگا کر بیچا جاتا تھا۔

اس استحصال کو مزید وسعت مذہبی ادارے کے وجود اور اس پر مرد کے غلبے نے دی۔ عورت کو گناہ اور بدی کا باقاعدہ سبب قرار دیا گیا۔ ہندو مذہب میں ”ستی“ کا رواج بھی اسی استحصال کا تسلسل تھا، جب خاوند کی فوتگی کے بعد بیوہ کو زندہ شوہر کی چتا میں پھینکا جانے لگا۔ مسیحیت میں عورت کو ڈائن قرار دے کر اس سے دوری اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ مسیحی راہب عورت سے نفرت اور اسے ناپاک قرار دے کر اس سے دور رہنے کے لیے شادی سے انکاری رہے اور عمر بھر خانقاہوں میں زندگی گزارنے کو فوقیت دی۔
خواتین اسی طرح کے ظلم وستم کے باعث بغاوت پر آمادہ ہوئیں اوریورپ میں 1785 میں باقائدہ فیمینزم تحریک شروع ہوئی،اور تقریبا سو سال تک یہ آوازیں وقتا فوقتاً بلند ہوتی اور ڈوبتی رہیں۔
اورپھر یہ کہ سیاست میں نصف آبادی کی ووٹنگ کی غیر شمولیت کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا۔ اور اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے بھی مرد (حضرات ) نے عورت کو٫ حقوق نسواں کا پلیٹ فارم دیا اس نعرے کو تحفظ دیا ۔

یورپ میں 1910میں 8 مارچ کو عورت کے ووٹ کے حق کو تسلیم کیا ۔ اور اس دن کو عورت کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
برطانیہ نے 1928کو اس ایکٹ کو نافذ کیا۔
1975میں اقوام متحدہ نے باقائدہ عورتوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔
مغربی معاشرے جو بظاہر خواتین کے حقوق کے علمبردار بنتے ہیں ۔وہاں خواتین کو اپنے تشخص کے لئے مردانہ وار جنگ لڑنی پڑی ۔
امریکہ جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بنتا ہے ابھی تک ہیلری کلنٹن کو صدر کے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتا۔ اسی طرح اسرائیل کے آئین میں درج ہے کہ کوئی عورت ملک کی سربراہ نہیں بن سکتی ۔جبکہ مسلم دنیا میں کئی خواتین سربراہانِ مملکت رہی ہیں۔

اسلام میں نہ صرف عورت کے حقوق متعین ہیں بلکہ انھیں چار دیواری کے تحفظ کا سکون بھی دیا ہے۔صنف نازک کے لئے ایک مستند اور مستعد توانا مرد اس کی کفالت و حفاظت کے لئے متعین کیا ہے ۔پھر رشتوں کے تقدس کا احترام سکھایا ہے۔ایک عورت کئی رشتوں میں جکڑی ایک ذمہ دار فرد کی صورت اپنا کردار احسن طریقے سے نبھارہی ہے۔ ذمہ داریاں اور فرض شناسی انسان کو قیمتی بناتی ہیں ۔سڑک کنارے پڑا نشئی یا بے مہار پھرتی عورت کسی کے لئے بھی سود مند نہیں نہ ان کی اپنی زندگی کسی کام کی ہے۔ گھر اور پھر پرسکون صحت مند معاشرہ ذمہ دار افراد کی بناپر اپنا وجود برقرار رکھتا ہے اور قومیں نمو پاتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جو بگاڑ کی صورت پیدا ہوئی ہے وہ عورت اور مرد کے رشتے میں توازن میں بگاڑ کے باعث ہوئی ہے۔ مرد ایک حد سے زیادہ بالادستی چاہتا ہے یا عورت اپنا مقام کم تر سمجھتی ہے تو خرابی پیدا ہوتی ہے۔ جو خواتین مغربی طرز پر چلتے ہوئے آزادی چاہتی ہیں وہ خرابی کی طرف جارہی ہیں۔ ہمارا معاشرہ اور مذہب ہمیں مکمل تحفظ اور سکون دیتا ہے۔ جہاں معاشرے میں بگاڑ ہے تو وہ بھی عورت ہی کی تربیت کی کمی کی وجہ سے ہے۔ عورت ایک پاورفل امیج رکھتی ہے اسے اپنے آپ کو منوانا ہوگا۔اور وہ اب منوا بھی رہی ہے۔چاہے وہ کوئی بھی شعبہ ہو۔ ادب میں اس کے بڑھتے قدموں سے کون انکاری ہوگا۔ ڈاکٹر ،انجینئر اور تمام شعبوں میں مرد کے ہم قدم ہے۔ اب عورت ایک ڈری سہمی مخلوق نہیں ہے۔ عورت میں مینجمنٹ اچھی ہے تو مرد میں لیڈر شپ اور طاقت ۔ دونوں کو کچھ باتیں قبول کرنے میں تعامل نہیں ہونا چاہیے ۔ عورت تخلیقی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے خود پر مان ہونا چاہیے ۔فخریہ احساس کے ساتھ جیے نہ کہ مظلومیت کے ساتھ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بہترین معاشرہ خلق کرنا عورت ہی کی ذمہ داری ہے۔
وہ مکان کو گھر بناتی ہے اپنے بچوں کی شادی بیاہ کے فیصلے خود کرتی ہے ۔استاد بن کر قوم کی تربیت کرتی ہے۔ پھر یہ حقوق نسواں کا نعرہ اس پر جچتا نہیں ہے۔
ہم نے اپنا سکھ اغیار کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔
ہمیں اپنے معاشرے ,مذہب اور اقدار و روایات کے تحت ہی اپنی زندگی گزارنی ہے ۔یہی سب سے بہترین حل ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply