شوق کتب بینی اور محلہ لائبریری ۔۔انوار احمد

اب سے چند دہائی پہلے کراچی کے ہر محلے اور اکثر گلی کے نکڑ پر ایک دو لائبریری ضرور ہوا کرتی تھیں جہاں سے ہر موضوع پر چار آنے یا آٹھ آنے روز کرایہ پر عمدہ اور معلوماتی کتب آسانی سے دستیاب ہوجاتی تھیں ۔ میرا بچپن ناظم آباد کے بلاک پانچ میں گزرا ۔ ناظم آباد متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ افراد کی بستی تھی جہاں ہر گلی اور ہر محلے میں علم ہنر سے متعلق بڑی قد آور شخصیات رہتی تھیں معاشرے میں کتاب اور لائبریری کی اپنی ایک اہمیت تھی ۔ ناظم آباد کی ” معیز لائبریری ” اور ” رحمان لائبریری” اب تک مجھے یاد ہیں ۔ جہاں سے میرے مرحوم جاوید بھائی مختلف کہانی کتابیں لاتے کبھی انکے ہاتھ میں عمر و عیار کی سرگزشت ہوتی ۔ کبھی لیل و نہار اور کبھی تعلیم و تربیت ۔ خود پڑھنے کے بعد مجھے پکڑا دیتے میں بے دلی سے انکو پڑھتا ضرور لیکن کوئی خاص رغبت نہیں ہوتی ۔
شاید سنہ پینسٹھ کے کسی مہینے میں ہم لوگ فیڈرل ایریا کی ایک نئی آبادی دستگیر سوسائٹی منتقل ہوگئے وہاں بھی ناظم آباد ہی کی طرح متوسط طبقے کے پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ افراد بستے تھے ۔ کئی لائبریریز اور کتب خانے بھی تھے وہیں ایک بہت اچھی لائبریری ” مسرور لائبریری” تھی ۔ یہیں سے مجھے کتب بینی کا چسکا پڑا اور کتاب میری زندگی کا حصہ بنی۔ ہمیں شکر گزار ہونا چائیے ان کتب خانوں کا جنکی
بدولت عوام میں کتابیں عام ہوئیں اور شوق کتب بینی کو فروغ ملا ۔ جہاں سے مرد ۔ خواتین اور بچوں کو آسانی سے انکے ذوق کے مطابق کتابیں پڑھنے کو مل جاتیں ۔
ان محلے اور گلی کے نکڑ پر قائم لائبریریوں اور یہاں سے حاصل کردہ کتابوں کا ایک بڑا احسان یہ ہوا کہ انکی وجہ سے ہمیں اپنے معاشرے اور اقدار کو سمجھنے کا موقع ملا اور ہم اپنی تہذیب و تاریخ سے بڑی حد تک جڑے بھی رہے ۔ ان لائبریریوں کے علاوہ بھی ان دنوں تقریباً ہر اوسط درجے کے گھانے میں کتابیں اور رسائل ضرور نظر آتے تھے اور کتاب ہر گھر کا ایک لازمی حصہ تھی ۔
میرا تعلق بھی ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا ۔ جہاں علم و ادب سے گھر کے ہر فرد کو لگائو تھا ۔ میں نے بچپن سے یہی دیکھا کہ گھر کے ہر فرد کے ہاتھ میں اسکی پسند اور دلچسپی کی کوئی نہ کوئ کتاب یا رسالہ ضرور ہوتا ۔۔۔
والد مرحوم جماعت اسلامی کے بانی اراکین میں سے تھے لہزا ” ترجمان القرآن ” اور جماعت کے کئی دوسرے جریدے گھر پر پابندی سے آتے تھے۔ کلام اقبال پر ابا کو بہت دسترس تھی ۔ وہ علامہ کے اردو اور فارسی کلام بہت لہک کر پڑھا کرتے تھے ” تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست ” اور ” رازی ہو کہ رومی ہو عرفی ہو غزالی ہو ۔۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی ” ایک وجد کے عالم میں باآواز بلند پڑھتے ۔۔ اور ہم سب کو اسکا مطلب بھی بتاتے ۔ والد مرحوم اردو اور انگریزی کے علاوہ فارسی پر مکمل دسترس اور عبور رکھتے تھے .. انکی تحریر اکثر ” خط شکستہ ” میں ہوتی جو ایک زمانے میں اہل علم حضرات کی پہچان تھی ۔ آجکی نسل تو یہ تحریر پڑھ ہی نہی پائینگی .. پڑھے لکھے اور پرانی قدروں کے حامل گھرانوں میں زبان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور بزرگ نظر رکھتے کہ بچے کیا پڑھ رہے ہیں اور کیسی زبان بولتے ہیں۔
اماں کے علمی ذوق کے کیا کہنے انکو شاہنامہ اسلام کے علاوہ رضیہ بٹ ، نسیم حجازی ۔ اے آر خاتون ۔ منٹو۔ عصمت چغتائی۔ مجاز ۔ جذبی کو پڑھتے دیکھا ۔ ابن صفی کی جاسوسی دنیا بھی شوق سے پڑھتیں۔ اسکے علاوہ گھر میں آنے والے اخبار کا بھی مطالعہ کرتیں۔ اماں نے محلے کی لائبریری کی تمام کتب پڑھ ڈالیں تھیں ہم روز انکے لئیے لائبریری سے کتابیں لاتے لیکن جو کتاب لاتے اماں کہتیں یہ تو ہم پڑھ چکے ہیں اور ہم پھر دوسری کتاب لینے چلے جاتے ۔ اسطرح کئی چکر لگ جاتے ۔ زچ آکر لائبریری والا اپنا رجسٹر ہی گھر بھجوا دیتا کہ اماں کو دکھا دو کہ خود دیکھ لیں کونسی کتاب نہیں پڑھی وہ منگوالیں ۔ اماں مثنوی زہر عشق ۔ مثنوی گل بکائولی اور نجانے کیا کیا یاد کئیے ہوئے تھیں۔ مثنوی زہر عشق کا مشہور مصرعہ ” جس محلے میں تھا ہمارا گھر ۔ وہیں رہتا تھا ایک سوداگر ” پہلی مرتبہ انہی کی زبانی سنا تھا۔ شعر بھی بے تحاشہ یاد تھے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی شعر جڑ دیتیں ۔ اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ ادبی ذوق ان گھریلو خواتین کا تھا جنہوں نے بمشکل چند جماعتیں ہی پڑھی ہونگی ۔۔۔
بڑے بھائی مرحوم آفاق احمد صحافت سے منسلک تھے۔ وہ ریڈیو پر ڈرامے بھی کرتے لیکن ابا سے چھپ کر۔ ابا پرانی قدروں کے پاسدار اس قسم کے شوق انکے نزدیک محض وقت کی بربادی تھے ۔ اس زمانے میں ریڈیو پر اسٹوڈیو نمبر نو سے بہت اعلی کھیل پیش کئیے جاتے۔ بھائی صاحب اکثر انکا حصہ ہوتے ۔ مجھے آج بھی انکا ایک ڈرامہ ” جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ” ہلکا سا یاد جو شاید آغا ناصر مرحوم کا لکھا تھا ۔ ان دنوں ڈرامے ڈائرکٹ آن ایر ہوتے اور کھیل کے آخر میں صدا کاروں کے نام بھی نشر ہوتے ۔جس دن انکا ڈرامہ ہوتا ہم سب سنتے لیکن ہمیں انکی یہ ہدایت تھی کہ ڈرامہ ختم ہوتے ہی ریڈیو کی آواز کم کر دیں یا اسے بند کردیا جاے کہ کہیں ابا انکا نام نہ سن لیں ۔ بھائی صاحب صحافی تھے ۔ اخباری ملازمت کی وجہ سے ہمارے گھر انکے اپنے اخبار کے علاوہ روزآنہ کئی اور اخبارات بھی آتے ۔ اسکے علاوہ رات کو جب وہ واپس گھر آتے تو کئی ایوننگ پیپرز جیسے لیڈر۔ ڈیلی نیوز۔ اور اردو روزنامے بھی ساتھ لاتے ۔ بھائی صاحب کا رجحان سوشلزم کی طرف تھا لہذا گھر میں اشتراکی ادب بھی دیکھا ۔ کارل مارکس ، چیخوف اور ٹالسٹائی کے علاوہ خلیل جبران وغیرہ کی تصانیف گھر میں نظر آتیں ۔
دوسرے بھائی اقبال فیصل صاحب پروفیشنل آرٹسٹ تھے انکی اپنی دنیا تھی انکی وجہ سے صادقین ۔ پکاسو ۔ مائیکل انجیلو ۔ چغتائی کے ناموں سے ہمارے کان آشنا ہوئے ۔ بھائی صاحب کے پاس مختلف فنکاروں کی سوانح اور تصاویر کا ذخیرہ تھا اسکے علاوہ انکی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ اور آئل کلر گھر میں جابجا بکھرے نظر آتے ان رنگوں کی بو اب تک ناک میں محسوس ہوتی ہے ۔ بھائی صاحب کافی عرصہ عظیم آرٹسٹ صادقین کے ساتھ انکے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے ۔ آج بھی کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں صادقین صاحب کی بہت سی نادر پینٹنگز آویزاں ہیں جن کی تخلیق میں میرے مرحوم بھائی کی معاونت بھی شامل ہے ۔ بھائ کو صادقین صاحب سے ایک عقیدت تھی انکے ساتھ کام کرنے کو وہ ایک اعزاز سمجھتے ۔۔ بھائی کے تجریدی آرٹ اور خطاطی میں صادقین مرحوم کا رنگ جھلکتا ہے ۔ انکی قرآنی آیات پر مشتمل کیلی گرافی اور تجریری آرٹ میں بنائی گئی نیم عریاں تصاویر بھی گھر میں جا بجا نظر آتیں جنکو وہ ابا سے چھپا کر بناتے اور رکھتے لیکن جب کبھی ابا کی نظر ان تصاویر پر پڑجاتی تو وہ نہایت ناگواری سےاستغفراللہ کہ کر وہاں سے چلے جاتے۔
گھر چھوٹا پڑنے لگا تو بھائیصاحب الگ گھر میں منتقل ہوگئے جو انہیں اسٹیٹ بینک کی طرف سے ملا تھا اسکے باہری کمرے میں انہوں نے اپنا اسٹوڈیو بنا لیا وہاں انکے ہم خیال دوست اور دوسرے آرٹسٹ کا بھی آنا جانا رھتا ۔ اقبال مہدی ۔ جمی انجینئیر ۔ گوپال داس۔ انور شعور اقبال فریدی صاحب اور ایک کرسچن آرٹسٹ جیمس بھی آیا کرتے سب مل کر تصاویر بناتے اور ساتھ ہی مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی اور بھابھی کے ہاتھ کا مزیدار کھانا بھی کھاتے تھے۔ اقبال بھائی ہر قسم کی کتابیں پڑھتے لیکن وہ ابن صفی کے بہت رسیا تھے ۔ انکی کوئی کتاب ایسی نہ تھی جو انہوں نے نا پڑھی ہو۔ وہ جدیدیت کے قائل تھے اور خلیل جبران کے افکار سے متاثر تھے اور انکے حوالے بھی دیتے۔
مجھ سے بڑے جاوید بھائی اچھی خاصی شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ وہ بھی تاریخ کے دلدادہ تھے انکے مطالعے میں شاہنامہ اسلام ۔ نسیم حجازی ، منٹو عصمت ، کرشن چندر وغیرہ رہتے ۔ ابن صفی مرحوم تو خیر گھر میں سب ہی پڑھتے اور وہ بھی ۔ جاوید بھائی مجھ سے پہت پیار کرتے اور مجھے بچوں کی دنیا۔ تعلیم۔و تربیت اور بہت سی کہانی کی کتابیں لائبریری سے کرایہ پر لا کر دیتے اور پڑھواتے بھی۔ انکی مجھ سے محبت اور انسیت بے مثال تھی ۔ افسوس کہ وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ میرے بھائی سے زیادہ میرے دوست تھے۔ انکی کمی اور خلا کبھی پورا نہیں ہوگا۔ آج بھی جب یاد آتے ہیں تو دل کٹ سا جاتا ہے ۔
پیدا کہاں ایسے پرا گندہ طبع لوگ ۔۔
میں گھر کا سب سے کم علم فرد تھا ۔ بچپن میں تو بچوں کی دنیا ، تعلیم و تربیت اور کامکس پڑھتے گزرا ۔ دوسری کتابوں کا شوق بھی تھا لیکن کم کم ۔ ذرا بڑے ہوئے تو انگلش فکشن سے رغبت ہوئی اور انگریزی کتب کا شوق چرایا پیری میسن ۔ ہیرالڈ روبنس ۔ اگاتھا کرسٹی ۔ جیمز ہیڈ لی چیز ۔ سارتر ۔ کپلنگ اور نجانے کیا کیا پڑھ ڈالا ۔ یہی شوق امریکن لائبریری ۔ گوئٹے اسٹیٹیوٹ اور برٹش کونسل لے گیا ممبر شپ حاصل کی اور مختلف سبجیکٹ پر بہترین کتابیں پڑھنے کو ملیں ۔
اشتراکی ادب بہت پڑھا ۔ گورکی کی مشہور تصنیف “ماں ” گھر ہی پر پڑھ لی تھی اسکے بعد ٹالسٹائی۔ چیخوف اور کئی دوسرے ادیبوں کے تراجم پڑھے لیکن اردو کے ترقی پسند مصنفوں کے مضامین اور شاعروں کے کلام نے سوچ کا انداز بدل دیا
معاشی ناہمواریاں ۔ چار سو پھیلی بھوک افلاس اور جاگیردارانہ نظام ” بورژوا” اور ” پرولتاریت ” کی اصطلاح سمجھ میں آنے لگیں
فیض صاحب کی شاعری نے حق گوئی کی ترغیب دی ۔ سید سبط حسن۔ سجاد ظہیر ۔ فراز ۔ مجروح ۔ مجاز ۔ منٹو ۔ کرشن چندر۔ بیدی۔ عصمت چغتائی اور دوسرے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے خیالات اور افکار نے سوچ کے زاوئیے بدل دئیے لیکن اکثر یہی آگہی اور شعور بہت تکلیف کا باعث بھی بن جاتا ہے ۔ جسے شاید صرف محسوس کرنے والے ہی سمجھ پائیں ۔
بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ محلے کے نکڑ پر قائم لائبریری نے کتاب پڑھنا سکھایا ۔ گھر کے ماحول اور کتابوں کی دستیابی کی وجہ کتب بینی کی عادت ہوئی اور ہر قسم کی تحریر پڑھنے کو ملیں جس سے ہم نے بھی کچھ استفادہ حاصل کیا ۔۔۔۔ میرے اپنے گھر میں ہر قسم کے خیالات اور سوچ کے حامل لوگ تھے اور رات گئے تک خوب بحث ہوتی لیکن کیا مجال جو کبھی کوئی تلخی ہوئی ہو۔ بحث برائے علم ہوتی اور تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے ۔
آجکل جب بچوں کو دیکھتا ہوں تو تکلیف ہوتی ہے کہ نہ انکے اطراف کتابیں ہیں اور نہ ہی ایسے بزرگ جو انکو کہانی کہانی میں بہت کچھ سمجھادیا کرتے تھے ۔۔۔ اب نئی نسل سے کیا شکایت کریں ہم نے انکو دیا ہی کیا ہے ۔۔۔
ترقی یافتہ دنیا میں جدید ٹکنالوجی اور کمپیوٹر کی یلغار کے باوجود آج بھی کتاب اور لائبریری معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہر کائونٹی میں پبلک لائبریری ہوتی ہیں جہاں ہر ایک کی رسائی ممکن ہے ۔ امریکہ میں ایک مشہور بک شاپ Barns & Nobel ہے جہاں ہر موضوع اور ہر عمر کے لوگوں کے لئیے بے شمار کتابیں دستیاب ہیں ۔ خریدنا نا چاہیں تو خرید بھی سکتے ہیں ورنہ وہیں پر بنی کافی شاپ میں تلخ کافی کی چسکیوں میں جو کتاب چاہیں نکال کر پڑھ لیں ۔ ہر شخص بہت خاموشی سے مطالعے میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہاں آج بھی کتاب زندہ ہے ۔ وہیں ایک گوشے میں بچوں کا سیکشن ہوتا ہے جہاں کتابوں کے علاوہ انکے لئیے کھلونے اور دوسری تفریحات کا سامان ہوتا ہے ۔ اسکول میں بچوں کے لئے باقاعدگی سے اسکول لائبریری لے جایا جاتا ہے اور ہر بچے کو کتاب ایشو کی جاتی ہے کہ وہ گھر جاکر پڑھے ۔ ویک اینڈ کے اختتام بچے سے کتاب کے متعلق سوالات بھی کئیے جاتے ہیں ۔ جس سے بچہ کتابوں سے مانوس رہتا ہے ۔۔
اشد ضروری ہے کہ فوری طور پر حکومت اور سماجی تنظیمیں سامنے آئیں اور محلہ و یونین کمیٹی کی سطح پے لائبریرں اور کتاب گھر قائم کریں جہان ہر عمر کے افراد کے پڑھنے کے لئیے بامقصد کتابوں ۔ اخبارات اور رسائل ہوں ۔ لائبریریوں کو خوشنما بنایا جائے تاکہ لوگ وہاں اپنا وقت صرف کرکے خوش ہوں ۔بچوں کے لئیے تعلیمی کھلونے اور دلچسپیاں فرائم کی جائیں ۔ بچوں کا ادب اور کتابیں دلچسپ اور معلوماتی ہوں جس سے انکو ترغیب ملے کہ وہ بار بار لائبریری جائیں ۔ کتاب اور کتب بینی کو ہنگامی بنیاد کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقا ہے ۔ صرف اور صرف علم ہی کے ذریعے ہم آنے والے کل کا حصہ ہوسکینگے وگرنہ جہالت کا اندھیرا ہمیں نگل لے گا ۔۔۔
فنون لطیفہ اور ادب سے لاتعلقی اور کتاب سے دوری کی وجہ سے ہمارے رویوں میں تشدد اور عدم برداشت در آیا ہے . چونکہ مطالعہ نہی ہے لہذا مکالمے کے روایت بھی ختم ہوئی اسکی جگہ کج بحثی اور تکرار نے لے لی جسکے مظاہرے اب ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں .. یہاں تک کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کی زندگی بھی محفوظ نہی رہی …
رب ذدنی علما !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply