• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ابا جی کی برسی پر(ترا علاج “قلم” کے سوا کچھ اور نہیں)۔۔صدف مرزا

ابا جی کی برسی پر(ترا علاج “قلم” کے سوا کچھ اور نہیں)۔۔صدف مرزا

مجھے آپ بیتی لکھنے کا کبھی مبہم سا بھی تصور نہیں رہا۔ آپ بیتی یا اپنے حالات وہ لوگ لکھتے ہیں جنہوں نے زمانے کو کچھ دیا ہو یا کچھ کرکے دکھایا ہو، لیکن تایا جان نے ایک بالکل مختلف بات کی۔ کہنے لگے کہ ’’اپنے حالات وہ لوگ بھی لکھ سکتے ہیں جو اپنی قوتِ ارادی اور خوش امیدی کے سہارے زیست کے تیرہ و تاریک کنوئیں سے باہر نکل سکیں، اپنی زندگی کی نامرادی اور تابڑ توڑ غموں کی سیاہ طویل سرنگ کے آخری دہانے پر امید کی روشن شمع کو دیکھ سکیں۔ کوئی اور فیض یاب ہو یا نہ ہو لیکن انسان اپنے ذہن کو گپھا بننے سے ضرور بچا لیتا ہے۔‘‘

میری زندگی میں جب کبھی کوئی صبر آزما مقام آیا، ابا جی نے ایک ہی حکم دیا، ’’لکھو‘‘۔
پھر وہ اقبال کے مصرعے میں خفیف سی تبدیلی کرتے، ’’تیرا علاج قلم کے سوا کچھ اور نہیں‘‘۔

ان کا ایمان تھا کہ قلم انسان کو خود ترسی، حوصلے چھینتی بے بسی اور گلہ آمیز گفتگو سے بچا لیتا ہے۔ اس قلم کی قسم خود کاتبِ تقدیر نے کھائی ہے۔ پھر جب وہ کسی کو حرف و صوت کی صلاحیت دے تو اسے کفرانِ نعمت کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے۔

ابا جی ڈنمارک کے جغرافیے کو جان گئے تھے۔ ایک دن کہنے لگے: ’’آپ کو اللہ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ آپ وہاں رہتی ہیں جہاں سے اپنے پڑوس میں بسنے والا سمندر روزانہ دیکھ سکتی ہیں۔ سمندر کی شان و شوکت اور آسمان کی وسعت، شفاف فضا اور چہچہاتے پرندے، یہ بتاؤ  کتنے لوگوں کو یہ آسائشیں میسر ہیں؟ اب جو جی چاہتا ہے لکھو، کیونکہ یہ باتیں صرف عوام کے لیے نہیں لکھی جا رہیں۔ یہ اپنی ذات کی خاطر، خود کو ذہنی سکون فراہم کرنے کے لیے لکھی جاتی ہیں۔

اپنے اندر بہتے ہوئے وہ تمام مخصوص اور غیر مخصوص خیال کاغذ پر نکال کر دھر دو، پھر بعد میں پڑھنا۔

ہمارے لیے بھی لکھو۔ بچوں کے لیے لکھو۔ اس پر تحقیق کرو اور مغربی مفکرین اور محققین کو پڑھو۔ یہ موضوع لے کر ان پر تحقیق کرو۔ از مہد تا لحد تحقیق و جستجو کا عمل جاری رہے تو انسان حقیقی معنوں میں زندہ رہتا ہے۔ ‘‘

’’اپنے ہمسایہ ممالک کی زبانیں سیکھو۔ آپ کے پاس وقت ہے۔ آپ کے پاس امکانات سے روشن ایک نئی زندگی ہے، وقت ہے، مواقع ہیں۔ ان کو استعمال کرو۔ الفاظ کی قوت خیالات سے نمو پاتی ہے۔ خیالات، مشاہدات اور تصورات کو الفاظ کی قوت میں پِرو دو۔ شاعری خود کو منتشر کرکے جمع کرنا ہے یا شاید جمع ہوتی حالت سے منتشر ہونا ہے۔ جو جی میں آئے لکھو۔ لیکن لکھنے سے پہلے پڑھنا ضروری ہے۔ جو میسر ہو پڑھو۔ قدیم کتب، عقائد، ماضی کے خزانے کھنگالو۔ موجودہ اور موثر اہلِ علم کو سنو اور خود میں علوم جمع ہونے دو، پھر لکھو۔‘‘

’’شہد کی مکھی کو قدرت نے بھی مثال دینے کے لیے چنا۔ کمال دیکھو کہ پھول پھول پھرتی ہے، رس چوستی ہے، لیکن پھول کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا، اس کے چہرے کا رنگ نہیں اڑتا، اس کے بدن کی باس قائم رہتی ہے۔ شہد کی مکھی جس پھول سے رس کشید کرلیتی ہے اس پر نشان چھوڑ جاتی ہے کہ دوبارہ اس کی نازک پتیوں میں سوئی کی نوک نہ چبھوئی جائے۔ اپنے چھتے میں پہنچتی ہے تو اپنے لعاب کے ساتھ اس رس کو ملاکر شہد جیسی بے نظیر چیز پیدا کرتی ہے جس کا فائدہ دوسرے اٹھاتے ہیں۔ آپ نے اپنے لیے بچے پالے لیکن شہد کی مکھی نے رس جمع کرنا سیکھا۔ اب اسے داخلی احساسات کے ساتھ ملاکر شہد بناؤ اور لکھو۔‘‘

برسوں بعد جب میں نے ڈینش نظامِ تعلیم میں قدم رکھا اور تدریس کے دوران شہد کی مکھی اور اس کی زندگی اور رہن سہن کے بارے میں پروجیکٹس پر کام کیا تو مجھے حیرت اور مسرت کے احساسات نے گھیر لیا۔ بزرگوں کی دی گئی مثالوں میں زندگی کے بڑے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں۔
میں ابا جی کے پرعزم چہرے کو دیکھتی رہتی۔ وہ اتنے پرسکون کس طرح رہتے ہیں؟
بدترین حالات میں بھی شعلوں کے اندر سے ققنوس تلاش کرلیتے ہیں۔ دل میں کوئی وہم نہ گماں، نہ کوئی احساسِ زیاں، پوری دنیا کو اپنے بدن کا حصہ سمجھتے ہوں گے شاید۔

ابا جی نے اخبار چہرے سے ہٹایا۔ ’’چپ کرکے نہ بیٹھا کرو۔ اتنا لمبا سفر کرکے آئی ہو۔ ہنسا بولا کرو۔ فارغ بیٹھنے کا کیا مقصد ہے؟ یا پڑھو یا پھر کچھ نہ کچھ لکھتی رہا کرو۔‘‘

میں اب باقاعدہ ’’لکھو لکھو‘‘ کی گردان سے جیسے چڑنے لگی۔ ’’اب میں کیا لکھوں۔ میرا دل نہیں چاہتا۔‘‘

میں نے تین ماہ کے دوران پہلے ابا جی کو اور پھر امی جی کو یہ جہانِ فانی چھوڑتے دیکھا۔ شکوے شکایات اور ناشکری فطرتِ انسانی ہے اور جب انسان غم کے طوفان کی لپیٹ میں آجائے تو خود کو ازلی بدقسمت تصور کرنا اس کی سرشت ہے۔ شاید میرے ساتھ بھی قدرت نے یہی سنگین مذاق کیا۔ ممکن ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ ابھی تک بزرگوں میں وہ دم خم باقی ہے یا نہیں جو صرف بلندی کی طرف نظرکیے رکھیں اور پیچھے مڑ کر پامال زینے کو نہ دیکھیں؟ ان کے جانے کے بعد تایا جان کا حکم تھا ’’لکھو‘‘۔

ڈینش زبان و ادب پر تاریخ کی کتاب نے مجھے باقی سب بھلائے رکھا۔ جب وہ مکمل ہوئی تو ’’برگد‘‘ کی تکمیل کی دھن نے میری باقی کاوشوں کو روک دیا۔ کبھی عدیم الفرصتی حائل ہوئی تو کبھی ابا جی کی زندگی کا آخری باب تحریر کرتے اشکوں کی روانی، جسے کوئی لفظ قبول نہ ہوتا۔

کبھی یادیں یوں زندہ اور سانس لیتی محسوس ہوتیں کہ قلم کا دم گھٹنے لگتا۔ کھلکھلاتا بچپن ہرنوں کی مانند ذہن کے دشت میں چوکڑیاں بھرنے لگتا۔

یہ تحریریں اپنے بزرگوں کے انہی احسانات کو گننے اور یاد رکھنے کی ایک سعی ہے جن کی وجہ سے ایک بہتر انسان بننے کی خواہش ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہی۔

ان کے احسانات میں شامل تھا کہ انھوں نے صِنفی امتیاز کے بغیر سب پر تعلیم کے دروازے کھولے۔ وہ میرے لکھے ایک ایک بے مایہ حرف پر اپنی داد و تحسین کی طلسمی انگلی رکھ کر اس کو اسمِ اعظم بناتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(برگد)

Facebook Comments

صدف مرزا
صدف مرزا. شاعرہ، مصنفہ ، محقق. ڈنمارک میں مقیم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply