مذہبی اشخاص میں ڈیپریشن: وجوہات اور علاج۔۔۔(3)حافظ محمد زبیر

عورتوں میں ڈیپریشن: وجوہات اور علاج۔۔۔(2)حافظ محمد زبیر
یہ بات تو درست نہیں کہ مذہبی آدمی کو ڈیپریشن نہیں ہوتا کہ ڈیپریشن ایک بیماری ہے اور مذہبی آدمی بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ البتہ پچھلے پچاس سالوں سے سائیکالوجی میں ہونے والی مقداری تحقیقات (quantitative researches) دو باتیں بتلاتی ہیں؛ ایک یہ کہ مذہبی آدمی کو ڈیپریشن غیر مذہبی کی نسبت کم ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ مذہبی آدمی کا مذہب، اس کے ڈیپریشن کے علاج میں مفید ثابت ہوتا ہے یعنی تھراپی وغیرہ کے ذریعے ایک مذہبی آدمی کسی ذہنی بیماری سے غیر مذہبی آدمی کی نسبت جلد نکل جاتا ہے کیونکہ مذہب انسان کو زندگی کا مقصد اور معنی (sense of meaning and purpose of life) دیتا ہے اور یہ چیز ذہنی صحت (mental health) کے لیے بہت مفید ہے۔ مذہبی آدمی سے یہاں ہماری مراد وہ شخص ہے جو مذہب کو پریکٹس کرتا ہے۔

ہمارے ہاں مذہبی آدمی کا ڈیپریشن عام طور گناہ کے تصور سے پیدا ہوتا ہے۔ میرے پاس جو کیسز آتے ہیں، ان میں مذہبی آدمی میں ڈیپریشن کے پیچھے کم از کم یہی فیکٹر سب سے غالب نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان ہے، اس کی شادی نہیں ہو رہی کہ ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے یا ہو گئی ہے لیکن ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہر یا ملک میں ہے، اب اسے پورن موویز دیکھنے کی لت پڑ گئی ہے، وہ پریشان ہے۔ ابھی مووی دیکھ کر ہٹا ہے، مشت زنی (masturbation) بھی کر لی، اس کے بعد رو دھو کر توبہ استغفار بھی کر لی، اور ابھی چار گھنٹے بعد پھر دیکھنے بیٹھ گیا ہے۔ اور اب اپنے اس رویے کی وجہ سے اپنی اصلاح سے نا امید ہو چکا ہے یعنی اسے اب یہ ناممکن لگتا ہے کہ وہ کبھی اس گناہ سے نکل پائے گا تو وہ مایوس ہو کر بستر پر گر جاتا ہے۔

دوسری مثال یہ کہ ایک مذہبی خاتون ہیں، شادی شدہ ہیں، ان کے شوہر کو ان سے بہت سے شکوے ہیں جن میں ایک شکوہ جو وہ بار بار دہراتے رہتے ہیں، وہ یہ کہ تم میری نافرمان ہو۔ اب ان سے کبھی کبھار کچھ ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ جو شوہر کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے اور وہ ان کے بس میں بھی نہیں ہوتا یعنی چاہ کے بھی نہیں ہو پا رہا ہوتا لہذا یہ اپنے آپ میں ڈیپریشن میں چلی جاتی ہیں کہ میری آخرت برباد ہو رہی ہے۔ تو مذہبی آدمی جب کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کا حل یہ نکالتا ہے کہ تمہاری شخصیت میں دورخا پن (dual personality) پیدا ہو چکا لہذا حل یہی ہے کہ تم اپنی شخصیت کے ایک رخ کو ختم کر دو تا کہ ان کی آپس کی لڑائی ختم ہو جائے اور جس رخ کو وہ ختم کرنے کا کہتا ہے، وہ مذہبی رخ ہوتا ہے۔ تو سائیکالوجسٹ اس کی کاؤنسلنگ میں یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کے عقائد کو ہلا دے کہ جن کی وجہ سے گناہ کا تصور پیدا ہوا ہے کیونکہ اس گناہ کے تصور نے ہی اسے پریشان کر رکھا ہے۔ یہ ہماری نظر میں بہت غلط ایپروچ ہے۔

میں عموما مذہبی لوگوں کی کاؤنسلنگ میں جس ایپروچ کو استعمال کرتا ہوں، وہ توبہ کا تصور ہے۔ جس طرح مذہب میں گناہ کا تصور عام ہے، المیہ یہ ہے کہ اس نسبت سے توبہ کے تصور کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ مذہبی شخص کو ایک تو یہ سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ انسان ہے، فرشتہ نہیں لہذا اس سے گناہ ہو گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے گناہ کرنا ہے۔ گناہ کرنے میں اور ہو جانے میں فرق ہے۔ تو اگر اس سے گناہ ہو رہا ہے اور وہ اس سے نکل نہیں پا رہا اور اللہ کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہے تو یہ ڈیپریشن میں چلا جائے گا کیونکہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر کے درجے کا گناہ ہے۔ ہمارا گناہ یا ہمارے گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جائیں، وہ اللہ کی رحمت سے بڑے نہیں ہو سکتے۔ تو گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ اور بھلے دن میں ستر مرتبہ گناہ ہو جائے تو ستر مرتبہ توبہ کرے۔ مطلب ایک تو میں گناہ کروں اور دوسرا یہ گناہ کروں کہ توبہ بھی نہ کروں تو ڈیپریشن کیوں نہ ہو گا!

تو مذہبی آدمی کو یہ سمجھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ عزوجل کو یہ فکر نہیں ہے کہ ہم اللہ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے گرتے کیوں ہیں بلکہ اللہ عزوجل تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہم اللہ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اٹھتے کتنی مرتبہ ہیں۔ تو گناہ کرنا گرنا ہے، اور توبہ کرنا اٹھنا ہے۔ تو جب تک رخ اللہ کی طرف ہے تو اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کتنا گرے ہیں۔ ہاں، اگر رخ ہی اللہ سے پھیر لیا ہے، پھر بھلے دوڑتے بھی رہیں، تو اللہ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ تو توبہ انسان کا رخ متعین کر دیتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف ہے۔ جب ہمارا ایک سال کا بچہ ہماری طرف لپکنے کے لیے قدم بڑھاتا ہے اور بار بار گرتا ہے تو ہم اس کا گرنا شمار نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اٹھنا دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہماری طرف آتے ہوئے اتنی مرتبہ اٹھا ہے۔ اور یہ چیز ہمارے اس کے ساتھ تعلق کو اور مضبوط کر دیتی ہے تو گناہ گار آدمی سے اللہ کا تعلق زیادہ ہوتا ہے بشرطیکہ وہ توبہ بھی زیادہ کرنے والا ہو اور دل سے کرنے والا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو اللہ عزوجل آپ کا گناہ شمار نہیں کرتے، ہاں توبہ ضرور شمار کرتے ہیں، اس بات کو کہیں دل میں بٹھا لیں۔ دوسرا صدقہ یا نیکی کیا کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ اور نیکی گناہ کو مٹا دیتے ہیں، اسے کھا جاتے ہیں، نہ صرف گناہ کو بلکہ گناہ کے شخصیت پر پڑنے والے اثرات کو بھی۔ تو اللہ سے جو آپ کا تعلق ہے، اس کو اینالائز اور ریوائز کریں، اور اس تعلق کو اس سے تنہائی میں باتیں کر کے، اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے، معافی مانگ کر ایکٹو کریں، ڈیپریشن ختم ہو جائے گا۔ بعض اوقات اللہ کے ساتھ تعلق میں بس ایک ہی جہت غالب ہو جاتی ہے اور وہ ہے خوف کی اور خوف بھی ایسا جیسا کہ کسی بچے میں جنم بھوت اور دیو کا خوف ہوتا ہے جبکہ ایمان یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ محبت، خوف اور امید (love, hope and fear) تینوں قسم کا تعلق بیک وقت قائم ہو۔ محبت اور امید ہی کی جہتیں اللہ سے خوف کے تعلق میں بھی اعتدال پیدا کرتی ہیں ورنہ تو محض خوف کا تعلق غالب آ جائے تو خوارجیت پیدا ہو جاتی ہے۔ [جاری ہے]

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply