• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گرم پانیوں کی طرف یوریشیائی راہداری(1)۔۔اکرام سہگل

گرم پانیوں کی طرف یوریشیائی راہداری(1)۔۔اکرام سہگل

شاہراہ ریشم نیٹ ورکس اور دیگر تجارتی روابط کی تاریخ یوریشیائی سلطنتوں کے عروج و زوال سے جڑی ہوئی ہے، ان میں شہنشاہیت والا چین، چنگیز خان کی منگول سلطنت، سلطنت ِ فارس، مغل سلطنت اور عثمانی سلطنتیں شامل ہیں۔ ان اچھی طرح سے قائم سلطنتوں نے تجارت کے لیے استعمال ہونے والی سڑکوں اور پُلوں کو اچھی حالت میں رکھنے کی ضمانت دی، کہ تاجر اور کارواں حفاظت کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں، اور یہ کہ وہ محفوظ طریقے سے بازاروں میں پہنچ کر اپنا سامان بیچ سکیں اور اپنے علاقوں میں فروخت کے لیے نیا سامان خرید سکیں۔ حکمرانی کرنے والوں نے ’راہداری‘ لیتے ہوئے گزرگاہ کا محفوظ ہونا یقینی بنایا، اگر سونے کے سکے نہ ہوتے تو زیادہ تر یہ ٹیکس اشیا کی صورت میں ہوتا تھا۔ اور تاجر اس کو اپنے متوقع منافع میں پورا کرتے تھے۔
صدیوں تک یوریشیا متعدد تجارتی راستوں سے گزرتا رہا، ان میں طویل راستے بھی تھے اور مختصر بھی، لیکن تجارت کی مرکزی سمت ہمیشہ مشرق مغرب یا مغرب مشرق ہی رہی۔ یہاں تک کہ مارکو پولو (اور اس سے پہلے اس کے والد) نے وینس سے قبلائی خان کے دربار تک سفر کیا، اس وقت بھی یہ راستے موجود تھے۔ ایک طویل عرصے تک شمال اور جنوب کے رابطے میں اونچے پہاڑی سلسلوں کی موجودگی کی وجہ سے رکاوٹ بنی رہی، اور ایک حقیقت یہ تھی کہ بڑی سلطنتوں والے شمالی علاقے متحد نہیں تھے۔ رومی سلطنت کے زوال کے بعد، شمالی یورپ اور یوریشیا کی پہچان صدیوں تک چھوٹی اور علاقائی بادشاہتوں کی ایک بِھیڑ کی طرح رہی، جو زیادہ دیر تک نہیں چل پاتی تھیں، یا ان میں استحکام اور طاقت کا فقدان تھا۔ یورپ میں تجارت اور پیداوار کا مرکز طویل عرصے تک بحیرۂ روم کے ارد گرد رہا، اور یوریشیا میں معاملات تب تبدیل ہوئے جب 18 ویں صدی میں روسی سلطنت نے جنم لیا۔
روس کے شہنشاہ پیٹر اول (1682–1725) نے متعدد جنگیں لڑیں، اور پہلے ہی سے ایک بڑی سلطنت کو مزید بڑی یورپی طاقت میں بدل دیا۔ سائبیریا پر روسی فتح 16 ویں اور 17 ویں صدی میں حاصل ہوئی تھی، جب کہ خانیت آف سیبر (Khanate of Sibir) پہلے ہی تابعدار ڈھیلے ڈھالے سیاسی ڈھانچے کی طرح تھی، جو روسی جنگجوؤں کی سرگرمیوں کے آگے کمزور پڑے رہتے تھے۔ اگرچہ وہ بے شمار تھے تاہم روسیوں نے خاندانوں پر مبنی مختلف قبائل پر دباؤ ڈال کر ان کی وفاداریاں تبدیل کروائیں، اور دور دراز قلعے قائم کیے جہاں سے وہ چھاپے مارتے تھے۔ مقامی لوگوں کو محکوم بنانے اور ان سے خراج وصول کرنے کے لیے، بڑے دریاؤں اور ندیوں اور اہم بندرگاہوں کے سنگم پر موسم سرما کی چوکیوں اور قلعوں کا ایک سلسلہ قائم کیا گیا۔
پیٹر اوّل نے مغربی طرز کے ایڈمنسٹریٹو سسٹم کو متعارف کراتے ہوئے ایک بڑے علاقے کو مضبوط کرکے روسی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ روس کی وسیع زمینوں کی آبادی 14 ملین تھی، اور اس کے باوجود کے تمام آبادی زراعت سے منسلک تھی، اور صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہی شہروں میں رہتا تھا، اناج کی پیداوار ان لوگوں کے پیچھے گھسٹتی رہی جو مغرب میں تھے اور ترقی کو روکے رکھا۔
روس کے پاس بندرگاہوں اور اس وقت کے اہم سمندری تجارتی راستوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث، پیٹر کی توجہ شمال کی طرف گئی۔ روس میں ایک محفوظ شمالی بندرگاہ کا فقدان تھا، سوائے بحر ابیض پر آرک اینجل کا مقام، جہاں بندرگاہ سال میں نو ماہ تک منجمد رہتی تھی۔ بحیرہ بالٹک تک رسائی سویڈن کی وجہ سے مسدود تھی، جس کے علاقے نے اِسے تین اطراف سے گھیر رکھا تھا۔ سمندر کی طرف ایک کھڑکی کھولنے کے عزائم نے پیٹر کو 1699 میں سویڈن کے خلاف سیکسونی، پولش – لیتھوانیا دولت مشترکہ، اور ڈنمارک کے ساتھ خفیہ اتحاد کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے بڑی شمالی جنگ برپا کر دی، جو 1721 میں تب ختم ہوئی جب تھکے ہوئے سویڈن نے روس کو امن کی طرف مدعو کیا۔ اس کے نتیجے میں، پیٹر نے خلیج فن لینڈ کے جنوب اور مشرق میں چار صوبے حاصل کر لیے، اور یوں سمندر تک رسائی حاصل کر لی۔ وہاں اس نے دریائے نیوا پر ماسکو کی جگہ روس کا نیا دارالحکومت، سینٹ پیٹرز برگ تعمیر کر دیا۔ نیا ماڈل شہر بڑی حد تک مغربی ڈیزائن کے مطابق بنایا گیا تھا۔ اس نے ایک ثقافتی انقلاب برپا کیا، جس نے روایتی اور قرون وسطیٰ کے سماجی اور سیاسی اقدار کو جدید، سائنسی، یورپ پر مبنی اور عقلیت پسند نظام سے بدل دیا۔
اگرچہ عزائم موجود تھے، لیکن گرم پانیوں (اس وقت بحیرہ اسود ہی ہوتا) تک رسائی کے مقصد کے لیے کوئی واضح ارادہ اور حکمت عملی موجود نہیں تھی۔ پہلی روسی ترک جنگ (1568–1570) روسی پہل پر نہیں ہوئی تھی، بلکہ عثمانی سلطان سلیم دوم نے 1569 میں آستراخان میں ایک فوجی مہم بھیج کر روسیوں کو لوئر وولگا سے باہر نکالنے کی کوشش کی تھی۔ یہ ترک مہم جوئی عثمانی فوج کے لیے تباہ کن ثابت ہو گئی، جو استراخان کو نہ لے سکی اور تقریباً مکمل طور پر میدانوں میں ہلاک ہو گئی، جب کہ عثمانی بحری بیڑا بحیرہ ازوف میں تباہ ہو گیا۔ فریقین کے درمیان امن معاہدے نے وولگا پر روس کی فتوحات کو مضبوط کر دیا۔ سلطنت عثمانیہ نے اپنے زیر سایہ رہنے والے ملک، کریمین خانیت کے ذریعے روس کے خلاف اپنی توسیع کی کوششیں جاری رکھی،
لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگلا دور تقریباً سو سال بعد آیا جب پیٹر اوّل کے ماتحت روسی فوج نے 1687 اور 1689 میں اور 1695 کی مہمات میں آسوف کا علاقہ لینے کے لیے کریمیائی مہم جوئیاں منظم کیں۔ سویڈن کے ساتھ جنگ کے لیے روس کی تیاریوں کی وجہ سے، روسی حکومت نے 1700 میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ قسطنطنیہ کے معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت پیٹر دی گریٹ نے ازوف کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 1721 میں پیٹر کی موت سے قبل، متعدد کامیاب جنگوں کے ذریعے، اس نے روس کو ایک بہت بڑی اور مضبوط سلطنت کی صورت میں پھیلا دیا اور یوں ایک بڑی یورپی طاقت بن گئی۔ اس نے ازوف اور بحیرہ بالٹک پر بندرگاہوں پر قبضہ کرنے کے بعد شاہی روسی بحریہ کی بنیاد بھی رکھ دی۔
18 ویں صدی تک شمال سے جنوب کی طرف روسی تجارتی راستے زیادہ تر دریائے وولگا کے ساتھ ساتھ جاتے تھے، جو شمالی یورپ اور شمال مغربی روس کو بحیرہ کیسپین اور فارس سے جوڑ دیتا تھا۔ یہ وہ راستہ تھا جسے روسی، بحیرہ کیسپین کے جنوبی ساحلوں پر مسلمان ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے، اور کبھی کبھی اتنی دور نکلتے کہ بغداد تک بھی چلے جاتے تھے۔ طاقتور وولگا بلغاریوں نے اسی دریائے وولگا کے ذریعے روس اور اسکینڈینیویا (سویڈن، ڈینز، نارویجن) کے بحری قزاقوں اور جنوبی بازنطینی سلطنت کے ساتھ تجارت کی۔ مزید برآں، وولگا بلغاریہ نے روسیوں اور کھال فروخت کرنے والے یوکرین کے ساتھ تجارت کی۔ مثال کے طور پر شطرنج کو روس میں کیسپین وولگا تجارتی راستوں کے ذریعے فارس اور عرب زمینوں سے متعارف کرایا گیا تھا۔
روس 1736 میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ایک اور جنگ میں داخل ہوا، جو کریمین تاتاریوں کی طرف سے یوکرین پر حملوں اور قفقاز میں کریمین خان کی فوجی مہم جوئی سے شروع ہوئی۔ 1783 میں روس نے کریمین خانیت کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ روس کو مزید سو سال لگے تب کہیں جاکر اس نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں وسطی ایشیا کو فتح کر لیا، جو روسی ترکستان بنا اور بعد میں سوویت وسطی ایشیا بن گیا۔ لیکن اس وقت تک ’’گریٹ گیم‘‘ کا آغاز بھی ہو چکا تھا جس نے جنوب کی طرف روسی پیش رفت کو روک دیا۔ گریٹ گیم، دراصل برطانوی خارجہ پالیسی کی ایک حکمت عملی تھی جس کا مقصد برصغیر میں اپنی قیمتی نوآبادیاتی املاک کو محفوظ بنانے کے لیے جنوب کی طرف روسی پیش رفت کو روکنا تھا، برصغیر کو وہ ’’تاج کا زیور‘‘ سمجھتے تھے جس کی دولت نے چھوٹے برطانوی جزیرے کو ایک عالمی طاقت میں بدل دیا تھا۔ برطانیہ کو خدشہ تھا کہ روس نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور یہی وسطی ایشیا میں روس کی توسیع کا ہدف ہے، جب کہ روس کو وسطی ایشیا میں برطانوی مفادات کی توسیع کا خدشہ لاحق تھا۔ نتیجتاً عدم اعتماد کی گہری فضا اور دو بڑی یورپی سلطنتوں کے درمیان جنگ کی بات چیت نے جنم لیا۔ افغانستان کو روس اور برٹش انڈیا کے درمیان بفر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا۔ یوں افغان سرزمین پر اسے نوآبادی بنانے کا درد سر مول لیے بغیر انگریزوں کی بالادستی قائم کرنے کے لیے چار برٹش افغان جنگیں لڑی گئیں (جن میں سے پہلی انگریزوں کی تباہی پر ختم ہوئی)۔ برصغیر میں 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے، اور افغانستان میں سوویت یونین اور مسلح مغربی موجودگی کے خاتمے نے اکیسویں صدی میں شمال جنوبی تجارتی راستوں کے قیام کے لیے ایک نیا باب کھول دیا ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جسارت

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply