کینسر (4) ۔ طب کی ترقی کا مارچ/وہاراامباکر

ادویات کی دریافت کے حوالے سے 1940 کی دہائی کا آخر تاریخ کا اہم وقت تھا۔ ایک کے بعد دوسری دریافت کی جا رہی تھی۔ ان میں سے سب سے اہم اینٹی بائیوٹکس تھیں۔ پینسلین ایک انتہائی مہنگا کیمیکل تھا۔ (اس قدر مہنگا کہ جنگِ عظیم دوئم کے دوران جن مریضوں کو دی جاتی تھی، ان کے پیشاب سے اس کے آخری مالیکول کو بھی واپس اخذ کر لیا جاتا تھا)۔ جب مرک نے 1942 میں پنسلین کا پہلا بیچ کمرشل مقاصد کے لئے تیار کیا تھا تو یہ کُل ساڑھے پانچ گرام کا تھا جبکہ پورے امریکہ میں اس کی کل مقدار گیارہ گرام تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سے دس سال کے بعد یہ ہزار گیلن کے ڈرموں میں تیار کی جاتی تھی اور اس کی ایک ڈوز کی قیمت چار سینٹ تک گر چکی تھی۔
نئی اینٹی بائیوٹکس دریافت ہو رہی تھیں۔ 1947 میں کلورافینیکول، 1948 میں ٹیٹراسائیکلین، 1949 میں معجزاتی اینٹی بائیوٹک، سٹریپٹومائیسین کو مرغی کے باڑے میں پھپھوندی سے اخذ کر لیا گیا تھا۔
جان اینڈرز اس وقت پولیو وائرس کو پلاسٹک کے فلاسک میں کلچر کر رہے تھے۔ یہ پہلا قدم تھا جس کی بنیاد پر سابین اور سالک نے پولیو ویکسین ڈویلپ کی۔ حیران کن رفتار سے ادویات کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ 1950 میں میڈیکل استعمال میں جتنی ادویات تھیں، ان میں سے نصف ایسی تھیں جن کا دس سال پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان معجزاتی کیمیکلز سے زیادہ اہم صحت اور صفائی میں بڑی ہونے والی بڑی تبدیلیاں تھیں، جنہوں نے پبلک ہیلتھ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ٹائیفائیڈ کی وبا جو ہفتوں میں شہروں کا صفایا کر دیتی تھی، اب سدھائی جا رہی تھی۔ شہروں میں صاف پانی کی فراہمی کے سسٹم نے اس کے جراثیم کو قابو کر لیا تھا۔ میونسپل نظام کی بہتری نے انیسویں صدی کی دہشت “سفید طاعون” یعنی کہ تپدق کو بھی غائب کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1940 میں اس کے ہونے والے کیس 1910 کے مقابلے میں نصف رہ گئے تھے۔ صفائی اور ادویات ۔۔۔ انسانی اوسط زندگی تیزی سے اوپر جا رہی تھی۔ امریکہ میں صرف نصف صدی میں یہ اوسط عمر 47 سال سے بڑھ کر 68 سال تک پہنچ گئی تھی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت نمایاں اور واضح تھی۔ ہسپتال کھل رہے تھے۔ 1935 میں ہسپتال جانے والوں کی تعداد 7 ملین تھی جو 1952 میں 17 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ ہسپتال نہ صرف مریض کی دیکھ بھال کرتے تھے بلکہ علاج کی صلاحیت کی توقعات بھی بننے لگی تھیں۔ کسی نے تبصرہ کیا تھا کہ “جب کوئی ڈاکٹر مریض کو کہتا ہے کہ اس کے مرض کی دوا نہیں تو مریض غصے میں آ جاتا ہے یا سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر کو نئی دریافتوں کا علم نہیں”۔
ان نئے صاف شہروں میں بڑھنے والی نئی نسل بیماری کے بغیر طویل زندگی کے خواب رکھتی تھی۔ اس کا ایک نتیجہ مصنوعات کی خریداری میں ہونے والا اضافہ تھا۔ واشنگ مشینیں، اچھے سوٹ، ریڈیو، گولف کا سامان، ٹیلی ویژن، باربی کیو کا سامان ۔۔۔ اچھے مستقبل کی توقع اپنے ساتھ کنزیومرازم کا سیلاب بھی لائی۔ پریشانیوں میں “صحت” کا نمبر “معیشت” اور “بچوں کی پرورش” سے بھی گر گیا۔ ابتدائی عمر کی اموات ختم ہو جانے کا مطلب یہ نکلا کہ آبادی میں اضافے کی شرح تیزتر ہو گئی۔ سائنس، ٹیکنالوجی، پبلک ہیلتھ کے ایندھن پر چلنے والا کم عمر، بے فکر اور خوشحال معاشرے کا دور تھا۔
اس میں ایک رکاوٹ باقی تھی جو باقی ترقی کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ کینسر ترقی کے اس مارچ کا حصہ نہیں بن رہا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply